لاہور: پاکستان میں بچوں کی شرح اموات دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہر ایک ہزار میں سے41بچے پیدائش کے فوراً بعد مرجاتے ہیںلیکن حکومت بارہا وعدے کرنے کے باوجود بھی بچوں کی شرح اموات کم کرنے کے لیے پالیسی تشکیل دینے میں ناکام ہوچکی ہے۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے بھی 22اگست کو ابتدائی بچپن کی نشو ونماپر کانفرنس میں ان اعداد و شمار کو منکشف کیا۔ احسن اقبال کے مطابق ان کی حکومت بچپن کی نشوونما کے حوالے سے قومی ایکشن پلان کی تیاری کے مرحلے میں ہے جس کا مقصد صحت مند اذہان کے ساتھ بہتر انسانی وسائل پیدا کرنا ہے۔
وزارت منصوبہ بندی و ترقی سے منسلک ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے،نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ بچپن کی نشوونما کے حوالے سے قومی ایکشن پلان ہنوز ایک تصور ہے اور اس حوالے سے اب تک کوئی خاص اقدام نہیں کیا گیا۔‘‘
یونیورسٹی آف پنجاب سے منسلک طبی نفسیات کی ماہر ڈاکٹر شہلا ظفر نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا:’’ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ بچے مررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں صحت مند طرزِ زندگی کی شدید کمی ہے جہاں نوزائید بچوں کی اموات کی شرح زیادہ ہے۔‘‘
انہوں نے نفسیاتی پیچیدگیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سارے معاملے میں ماں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا:’’ وہ نہ صرف اپنا بچہ کھوتی ہے بلکہ مردہ بچے کے بعد اس کا الزام بھی اس کے سر تھوپ دیا جاتا ہے جیسا کہ اس سے اس بارے میں پوچھا جاتا ہے جس کے باعث اس کے ذہنی تنائو اور تشویش کا شکار ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔‘‘
پاکستان کے آبادیاتی و صحت کے سروے برائے 2012-13ء کے مطابق تقریباً45فی صد بچوں نے ناقص غذائیت یا رُکی ہوئی نشوونما ظاہر کی۔ سروے کے مطابق’’پاکستان میں رُکی ہوئی نشوونما کے حامل بچوں کا تناسب دنیا میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ ہے۔‘‘
رُکی ہوئی نشو و نما کی تعریف عمر کے اعتبار سے چھوٹے قد کے طورپر کی جاتی ہے۔
یواین ڈی پی (UNPD)کے پاکستان میں نمائندے نیل بوہنے(Neil Buhne)نے 17اگست 2016ء کو اپنے ایک بیان میں لکھا:’’ پاکستان میں رُکی ہوئی نشوونما ایک بہت بڑا المیہ ہے۔‘‘ انہوں نے رُکی ہوئی نشوونما کے اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے مزیدلکھاکہ رُکی ہوئی نشوونما صرف قد تک محدود نہیں ہے؛ یہ جسمانی اور اعصابی نشوونما کے منفی مضمرات سے متعلق ہے،اس کاتعلق بچے کی ذہنی صلاحیت اور سیکھنے کی اہلیت کے ختم ہونے سے ہے۔‘‘
ڈاکٹر زہسپتال سے منسلک معالج ڈاکٹر نایاب حیدر نے کہا کہ رُکی ہوئی نشوونماکے بڑھتے ہوئے واقعات کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کو درست طورپر خوراک نہیں دی جارہی۔
انہوں نے مزید کہا:’’ اس سے یہ بھی ظاہرہوتا ہے کہ ان کے پاس مناسب مقدار میں پروٹین نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یا تو گوشت اور پروٹین سے بھرپور مصنوعات کی استطاعت نہیں رکھتے یا ان کی قلت ہے۔‘‘
پاکستان کے لیئے اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے سابق ڈائریکٹر مارک آندرے فرانچ (Marc Andre Franche)نے پاکستان کے بارے میں اپنے حتمی تجزیے میں لکھاکہ یہ ایک ایسا ملک ہے جس کی 38فی صد آبادی غریب ہے اور ریاستی ادارہ قدیم عہد کا ہے۔انہوں نے ملک کے طبقۂ اشرافیہ پر لوگوں کو غریب رکھنے کے لیے ان سے ان کے حقوق چھیننے کا الزام عاید کیا۔
فارمین کرسچن کالج لاہور سے منسلک پالیسی تجزیہ کارسعید شفقت نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں حیران نہیں ہوں کہ وزارتِ منصوبہ بندی و ترقی یا یواین ڈی پی کو کیا معلوم ہوا ہے۔ طویل عرصہ سے ایسا ہی ہے۔ پاکستان اپنے انسانی وسائل کو نظرانداز کرتا رہا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے مستقبل کی نسل کو کس قدر اہمیت دی ہے جنہوں نے بالآخر ملک کو آگے لے کر جانا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’آپ کے بچے مر رہے ہیں اوربدصورت ہورہے ہیں اور آپ قومی ایکشن پلان بنارہے ہیں۔پہلے سے موجود ہسپتالوں اور مائوں کی نگہداشت کے مراکز کو بہتر کیوں نہیں بنایا جارہا؟‘‘
سعید شفقت نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہمارے پاس تربیت یافتہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی پوری فوج ہے۔ ماں اور بچوں کی صحت بہتر بنانے اوربقاء کی ذمہ داری انہیں سونپی جاسکتی ہے۔‘‘
ماہرین کے مطابق یہ ہولناک ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی اپنے بچوں اور خواتین کو خوراک فراہم کرنے کے قابل نہیں ہے۔
ماہرِ معاشیات اور سابق وزیرخزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں:’’ یہ ملک میں غربت کا اظہار ہے۔ پاکستان کی 80فی صد غریب آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے جو زراعت پر انحصار کرتی ہے۔‘‘
انہوں نے ان علاقوں، جہاں ناقص غذائیت زیادہ ہے، کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ زراعت کے اشاریے حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ سلمان شاہ نے کہا:’’تھر، چولستان، بہاولپور، لکی مروت، بلوچستان اور جنوبی خیبرپختونخوا میں بچوں کی اموات کی شرح زیادہ ہے۔ ان میں سے زیادہ علاقے سندھ طاس کے مرکز میں واقع ہیں لیکن ہم ان خطوںتک آبپاشی کے نظام کو توسیع دینے میں ناکام رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے حکومتی لاپرواہی کے ہولناک رُخ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ 40برسوں سے تقریباً20ہزار ایکڑ اراضی ویران اور آب پاشی کے نظام سے محروم ہے۔
انہوں نے حکومت کے تساہل پسندانہ رویے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا:’’ ہم نے کسانوں کے بارے میں بھی ایسی ہی بے توجہی برتی ہے۔ فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے نہ تو کوئی زرعی اصلاحات اور نہ ہی پالیسی بنائی گئی ہے جن میں زیادہ پیداوار دینے والے بیج بنانے، کھیتوں سے منڈی تک کے انفراسٹرکچر کی تعمیر اور کسانوں کے لیے قرض کے نظام کو آسان کرنا اور زرعی آلات پر رعایت دینا شامل ہیں۔اس تناظر میں دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگ ناقص غذائیت کا شکار رہنے اور رُکی ہوئی نشوونما کے حامل بچے پیدا کرنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان کے معاشی سروے کے مطابق مالی سال 2016ء کے دوران زرعی شعبہ کی کارکردگی نے 0.19فی صد منفی شرح نمو دیکھی۔