کراچی:13برس کی نیلم کوہلی 2014ء میں تھرپارکر کے ایک گائوں کوٹ غلام محمد سے اغوا ہوئی۔ اسے زبردستی اسلام قبول کروایا گیا اور پھر اغوا کاروں نے مبینہ طور پر اس سے ریپ کیا۔اغوا کار اثر و رسوخ کے حامل مقامی مسلمان تھے جن کے خلاف عدالت میں مقدمہ نہیں چل سکتا تھا کیوں کہ سندھ میں جبری تبدیلیٔ مذہب کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

نیلم کے والد نیمون نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ وہ گائوں سے اغوا ہوئی اور شدید احتجاج کے بعد عدالت کے احکامات پر گھر واپس آئی۔‘‘

ہندو پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں جن کی اکثریت جنوبی سندھ میں آباد ہے اور وہ سنجیدہ نوعیت کی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں کیوں کہ مسلمان مرد ہندو لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کروا کر ان سے شادی کرلیتے ہیں۔

کراچی میں محنت کش ہندوئوں کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پاکستان ہندو کونسل کے عہدیدار ہوت چند کہتے ہیں:’’جنوری 2016ء سے اب تک کم از کم 300لڑکے و لڑکیوں کو اغوا کرکے ان کو زبردستی اسلام قبول کروایا جاچکا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ان کے ادارے کے پاس کوئی سرکاری اعداد و شمار تو دستیاب نہیں ہیں اور یہ اندازہ ان کی کمیونٹی کے ارکان کی رپورٹوں کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔ اغوا کے 99فی صد معاملات میں ہندو لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کروایا گیا۔

ہوت چند نے مزید کہا:’’ جبری تبدیلیٔ مذہب کی روک تھام کے لیے کوئی قانون نہ ہونے کے باعث حکام اس نوعیت کے مقدمات درج نہیں کرتے۔‘‘

سندھ جبری تبدیلیٔ مذہب کے خلاف قانونی سازی کی جانب بڑھنے والا پہلا صوبہ ہے۔ سندھ اسمبلی کے سیکرٹری غلام فاروق بریڑونے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک برس گزر چکا ہے اور بل کو ہنوز سندھ اسمبلی سے منظور ہونا ہے۔ گزشتہ چھ ماہ سے زائد عرصہ سے قائمہ کمیٹی اس پر غور کررہی ہے۔

پاکستان ہندو کونسل اور دیگر مذہبی اقلیتوں نے اس قانون کو خوش آمدید کہا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اسمبلی کی کارروائی کو تیز کیا جائے۔

حزبِ اختلاف کے مخصوص نشست پر منتخب ہونے والے رکنِ صوبائی اسمبلی نند کمار گوکلانی نے یہ بل پیش کیا تھا۔

انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’قانون اور اقلیتی امور کی قائمہ کمیٹیاں اس بل پر غور کررہی ہیں جو جلد منظورہوجائے گا۔‘‘

وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن کلپنا دیوی نے ’’جبری تبدیلیٔ مذہب، بنیادی وجوہات‘‘کے عنوان سے پانچ سوسے زائد لڑکیوں کے تبدیلیٔ مذہب کے معاملات پر تحقیق کی۔

وہ کہتی ہیں:’’ تقریباً60فی صدلڑکیوں کا جبری طور پر مذہب تبدیل کیا گیا ، باقی لڑکیاں نے محبت کی شادی کرنے کے لیے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ شمالی و جنوب مشرقی سندھ جبری تبدیلیٔ مذہب کے واقعات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ملزموں کو عموماً مذہبی گروہوں اور جاگیرداروں کی حمایت حاصل ہوتی ہے اور انہیں ان کے جرائم کی سزا نہیں مل پاتی۔

ان کی تحقیق کے مطابق مذہب کی تبدیلی کے بعد لڑکیوں کو انتہائی بڑے حالات میں رکھا جاتا ہے۔ وہ لکھتی ہیں:’’ کچھ برس قبل لاڑکانہ کی ایک لڑکی کو اسلام قبول کروایا گیا، جس کے بعد وہ تین بار فروخت ہوئی۔چوتھی بار اسے اس کے والدین واپس لائے اور انڈیا بھیج دیا۔‘‘

جبری تبدیلیٔ مذہب کے خلاف مجوزہ بل کے مطابق کوئی بھی ایسا شخص جو کسی دوسرے شخص کا مذہب زبردستی تبدیل کروائے گا تواسے کم از کم پانچ برس یا زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ وہ متاثرہ فریق کو جرمانہ بھی اداکرے گا لیکن رقم کا تعین قائمہ کمیٹی کرے گی۔

کوئی بھی ایسا شخص جو جبری تبدیلیٔ مذہب کی ہدایت دے گا، کروائے گا یا معاونت فراہم کرے گا تو اسے کم از کم تین برس قید کی سزا دی جائے گی۔

اس مجوزہ بل میں 18برس سے کم عمر کے لڑکے و لڑکی کے تبدیلیٔ مذہب کو بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے جب ان کے والدین یا سرپرست یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ مذہب تبدیل ہوسکتا ہے یا نہیں۔

نند کمار گوگلانی کہتے ہیں:’’ بل میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ جبری تبدیلیٔ مذہب کے حوالے سے معلومات موصول ہونے پر پولیس متاثرہ فریق کو تحویل میں لے کر 24گھنٹوں میں عدالت کے روبرو پیش کرے گی جوسماعت کے لیے پہلی تاریخ کا تعین کرے گی اور یہ سات روز سے بعد کی نہیں ہوگی۔‘‘ انہوں نے کہا:’’ بل کے مطابق اگر متاثرہ فریق یا ملزم کو عدالت کے روبرو پیش کرنا ممکن نہیں تو انہیں قریبی دارالامان یا پولیس سٹیشن لے کرجایا جائے گا۔‘‘ نند کمار گوگلانی نے کہا:’’90روز میں مقدمے کا فیصلہ سنانا ہوگا۔‘‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مجوزہ بل کو خوش آمدید کہا ہے۔

عالمِ دین اور جامعہ بنوریہ کے سربراہ مفتی محمد نعیم نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ مجھے اب تک بل کا مسودہ موصول نہیں ہوا لیکن مسلمان اسے خوش آمدید کہتے ہیں کیوں کہ اسلام جبری تبدیلیٔ مذہب کو رَد کرتا ہے۔‘‘

حالیہ برسوں کے دوران جبری تبدیلیٔ مذہب کے دو معاملات نمایاں ہوئے جن میں تین لڑکیاں رنکل کماری، ڈاکٹر لتا اور انجلی میگھوار اپنے گھروں سے لاپتہ ہوئیں، ان کے والدین نے الزام عاید کیا کہ وہ اغوا ہوئی ہیں اور ان کو زبردستی اسلام قبول کروایا گیا ہے۔ یہ دونوں معاملات انتہائی نمایاں ہوئے اور سپریم کورٹ آف پاکستان تک پہنچے جہاں رنکل کماری اور ڈاکٹر لتا نے کہا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔

تاہم ان کے والدین نے الزام عاید کیا کہ انہوں نے دھمکیاں ملنے کے باعث دبائو میںبیان تبدیل کیا۔ تیسری لڑکی انجلی کم عمر تھی اور پاکستانی قانون واضح طور پر یہ کہتا ہے کہ 18برس سے کم عمر کوئی بھی شخص نابالغ ہے اور اس کی شادی نہیں ہوسکتی۔ اسے سرکاری دارالامان میں منتقل کردیا گیا۔ پاکستان ہندو کونسل کے عہدیداران دعویٰ کرتے ہیں:’’ ان کا مذہب زبردستی تبدیل کیا گیا۔ مذہب تبدیل کرنے والی لڑکیوں کو اغوا کرکے کئی ماہ تک نجی حراست میں رکھا گیا۔ لڑکیوں اور ان کے خاندانوں کو قتل کی دھمکیاں ملتی رہیں جن کا ان کے بیانات پر گہرا اثرہوا۔‘‘

رنکل کماری کے ماموں راج کمار ونجارا، جو ان کے مقدمے کی پیروی بھی کرتے رہے ہیں، کہتے ہیں کہ قتل کی دھمکیاں ملنے پر ان کا خاندان انڈیا ہجرت کرگیا لیکن وہ اب بھی کراچی رہ رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں:’’ جبری تبدیلیٔ مذہب کے اس طرح کے واقعات کی وجہ سے ہندو انڈیا ہجرت کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘‘

برسوں گزر چکے لیکن ان کی بھانجی رنکل کماری بازیاب نہیں کروائی جاسکی۔ دیگر خواتین بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کررہی ہیں۔

کراچی میں بھی ہندو لڑکیوں کے اغوا اور جبری تبدیلیٔ مذہب کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔

قانون دان اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے کونسل ممبر امرناتھ موتومال نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ متاثرہ لڑکیوں کے خاندان اثر ورسوخ کے حامل ملزموں کے خلاف مقدمات درج کروانے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں کیوں کہ ان کو آواز بلند کرنے کی صورت میں قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں جس کے باعث متاثرہ فریقین خاموش رہتے ہیں۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here