قبائلیوں کا فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا مطالبہ

0
2372

اسلام آباد: پاکستان کے قبائلی خطے سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنمائوں کے اتحاد نے خبردار کیا ہے کہ اگر پسماندہ قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم نہیں کیا جاتا تو وہ ملک گیر احتجاج کریں گے۔

آل فاٹا پولیٹیکل پارٹیز الائنس کے جنرل سیکرٹری حاجی اقبال آفریدی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ اگر یومِ آزادی تک وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں( فاٹا) کو صوبۂ خیبرپختونخوا میںضم کرنے کا ہمارامطالبہ نہیں مانا جاتا تو ہم ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں اور جلسے نکال کر اپنی تحریک کو تیزکریں گے۔‘‘

وزارتِ سیفران سے منسلک ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہاکہ فاٹا میں اصلاحات کے لیے تجاویز مرتب کرنے کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے۔

گزشتہ برس نومبر میں وزیراعظم نواز شریف نے عسکریت پسندی سے متاثرہ خطے کو ملک کے دیگر ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانے کے لیے اصلاحات تجویز کرنے کے کے لیے فاٹاریفارمز کمیٹی تشکیل دی تھی۔
تاہم اس کمیٹی میں فاٹا کے قانون سازوں کی نمائندگی نہیں ہے جس کے باعث قبائلی عوام میں بے چینی پیدا ہوئی ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف فاٹا کی سینئر رہنماء انیتا محسود نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے۔

انہوں نے اس اَمر پرسنجیدہ نوعیت کے تحفظات ظاہر کیے کہ فاٹا ریفارمز کمیٹی میں خواتین کی نمائندگی نہیں ہے۔

انیتا محسود نے کہا:’’ کمیٹی کو قومی شناخت کی تشکیل کے عمل میں خواتین کو کلیدی کردار سونپنا چاہئے۔ ‘‘

فاٹا کو برطانوی راج کے عہد میں تشکیل دیئے گئے قوانین کے تحت منتظم کیاجارہا ہے جو فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز(ایف سی آر) کہلاتے ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کی پشاور شاخ کی جانب سے 2005ء میں مرتب کی گئی رپورٹ بعنوان ’’ایک برا قانون جس کا کوئی تحفظ نہیں کرتا‘‘ اس نظام کو ’’ایک متروک ہوچکا انتظامی و قانونی ڈھانچہ‘‘ قرار دیتی ہے۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ قبائلی علاقے نیم خودمختار ہیں جنہیں ایف سی آر (1901ئ) کے نام سے معروف خصوصی قوانین کے تحت منتظم کیاجارہاہے جس کا بنیادی مقصد تذوراتی اہمیت کے حامل اس علاقے کو بالواسطہ طو رپر نوآبادیاتی طاقت کے حق میں منتظم کرنا ہے۔

ایچ آر سی پی کی اس رپورٹ کے مطابق اس حقیقت کے باوجود کہ ایف سی آر نے کئی دہائیاں قبل اپنے ہونے کا جواز کھو دیا تھا، لیکن حکومت کو اب بھی ایف سی آر اور فاٹا کے حوالے سے منطقی نتیجے پر پہنچنا ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے:’’ایف سی آر کی شقیں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے اور دستورِ پاکستان سے متصادم ہیں۔‘‘

رپورٹ کے مطابق عام قبائلیوں میں اس قانون کو ختم کرنے کی شدید خواہش پائی جاتی ہے ۔ ’’تاہم، کچھ عناصر کا موجودہ نظام سے مفاد منسلک ہے اور وہ روایت اور لوگوں کی ثقافت کے نام پر یہ نظام قائم رکھناچاہتے ہیں۔‘‘

حاجی اقبال آفریدی نے یہ انکشاف کیا کہ اتحاد 31اگست کو ہونے والے اجلاس میں بہت سے اہم فیصلے کرنے کی منصوبہ بندی کررہاہے۔

انہوں نے کہا:’’ حکومت کو فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا ہمارا جائز مطالبہ تسلیم کرنا چاہئے ورنہ دوسری صورت میں ہم سڑکوں پہ احتجاج کریں گے۔’’

یونیورسٹی آف پشاور کے ایریا سٹڈی سنٹر کے پی ایچ ڈی سکالر عطاء اللہ 2013ء میں مرتب کی گئی اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ ایف سی آر کا سب سے تشویش ناک پہلو ’’اجتماعی ذمہ داری‘‘ کا نظام ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ موجودہ اندازوں کے مطابق فاٹا کی آبادی تقریباً35لاکھ ہے۔

انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’ اس نظام کے تحت اگر قبائلی علاقوں میں کہیں پر بھی کوئی جرم ہوتا ہے تو جس خاندان یا قبیلے کے علاقے میں یہ جرم ہوا ہو ، اسے ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔‘‘

عطاء اللہ نے کہاکہ قانون کی اس شق کے باعث ایک معصوم شخص بھی کسی دوسرے کے جرم پر ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ یوں ’’اجتماعی ذمہ داری‘‘ کی چھتری تلے پورے خاندان، قبیلے، ذیلی قبیلے اور دیہاتیوں کو مختلف سزائیں مل سکتی ہیں۔

قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل پولیس رحمت خان کہتے ہیں کہ وہ قبائلی علاقوں کوصوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کیے جانے کے حامی ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کرنا بدنامِ زمانہ ایف سی آر سے جان چھڑانے کے لیے ایک بہترین دستیاب آپشن ہے۔‘‘

رحمت خان نے مزید کہاکہ اگر فاٹا کو صوبے کا درجہ مل جاتا ہے تو قدرتی وسائل سے مالامال اس خطے کے تباہ حال انفراسٹرکچر کو بحال کیاجاسکے گا۔

وزارتِ سیفران سے منسلک سینئر افسر نے کہاکہ فاٹاریفارمز کمیٹی نے مختلف اصلاحات تجویز کی ہیں جن میں فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔

لیکن ایک قبائلی رہنماء علی وزیر کہتے ہیں کہ کمیٹی کو قاٹا کی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے سرکاری حکام کے ساتھ اجلاس کرنے کی بجائے اس معاملے پر تعلیم یافتہ قبائلیوں سے بات کرنی چاہئے۔

انہوں نے مزید کہا:’’وفاقی حکومت کو فاٹا پر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل قبائلی علاقوں میں امن و امان قائم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

حاجی اقبال آفریدی سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ کیا حکومت فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی بجائے اصلاحات کا اعلان کرسکتی ہے تو انہوں نے کہا:’’ فاٹا کوئی لیبارٹری نہیں ہے جہاں آپ یہ جاننے کے لیے تجربات کرتے رہیں کہ کون سی اصلاحات مؤثر ہیں اور کون سی نہیں۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here