اسلام آباد (رحمت محسود) انسانی حقوق کے کارکن کہتے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ کے بیان اور سماجی عدم رواداری کے فروغ کے باعث پاکستان میں خواتین پر جسمانی و ذہنی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ ماہ سلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی نے ایک بل تجویز کیا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ اسلام میں خواتین پر ہلکا تشدد کرنا جائز ہے۔

کچھ وزرا اور سینیٹرز نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوششوں کو تیز کرنے کی بجائے خواتین کی بے عزتی کی اورتوہین آمیز زبان استعمال کی۔

قومی اسمبلی میں آٹھ جون کو اس وقت شور و غوغا برپا ہوا جب وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے پاکستان تحریکِ انصاف کی سینئر خاتون قانون ساز ڈاکٹر شیریں مزاری کو ’’ٹریکٹر ٹرالی‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔
انسانی حقوق کی کارکن اور قائداعظیم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبۂ جینڈر سٹڈیز کی ڈائریکٹر فرزانہ باری کہتی ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ نے اپنے بیان کے ذریعے سماج کو ایک پیغام دیا۔
یہ سوال ابھرتا ہے کہ عوامی نمائندے، جو خواتین کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں، کس طرح خواتین کے حوالے سے توہین آمیززبان استعمال کرسکتے ہیں؟

ظہیر الدین بابر اپنے تحقیقی مقالے بعنوان ’’ پاکستان میں خواتین پر تشدد: موجودہ حقیقتیں اور تبدیلی کے لیے لائحۂ عمل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ پاکستانی خواتین ایک ایسی دنیا میں رہ رہی ہیں جس کا ڈھانچہ سخت گیر مذہبی، خاندانی اور قبائلی روایات کے گر دبُنا گیا ہے اور ان کو روزانہ ہی تفریق اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

11جون کوملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمان) سے منسلک سینیٹر حمداللہ نے ایک ٹیلی ویژن شو کے دوران خاتون تجزیہ کار اور انسانی حقوق کی کارکن ماروی سرمد کے بارے میں توہین آمیز زبان استعمال کی۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم عورت فائونڈیشن کی سالانہ رپورٹ بعنوان’’پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد‘‘ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء کے دوران خواتین پر تشدد کے واقعات میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہوا۔

فرزانہ باری نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’اسلام کے نام پر خواتین پر تشدد اور مردوں کی برتری کے موجودہ تصورات کو کسی حد تک جواز مل گیا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ سماج میں خواتین کے خلاف فضا تشکیل پاچکی ہے۔

فرزانہ باری کا مزید کہنا تھا:’’ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ کے بیان نے خواتین میں عدم تحفظ کی فضا کو فروغ دیا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ممکن ہے اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ کا بیان خواتین کے خلاف تشدد کے فروغ کا باعث بنے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست اور اس کے شہریوں کے مابین سماجی معاہدہ ذات، مذہب یا جنس سے قطعٔ نظر برابری کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

فرزانہ باری نے کہا کہ ملک کو پولیس اور عدالتی نظام بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ان اداروں میں خواتین کوملازمت دی جائے۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کی مذمت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ انہوں نے ’’خواتین پر تشدد کے لیے اکسایا ہے۔‘‘

انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے اپنے بیان میں کہا:’’ ہمارے خیال میں یہ لازم ہے کہ انسانی حقوق کا احترام کرنے والا ہر شخص اس تجویز کی مذمت کرے۔‘‘

استانی اور دو بچوں کی والدہ میمونہ قاسم کہتی ہیں کہ پاکستانی سماج میں عورتوں کے کردار کو قبول نہیں کیا جاتا۔

انہوں نے مزید کہا:’’ اگر کسی شخص کی بہن یا بیٹی استانی، ڈاکٹر، پروفیسر یا صحافی کے طور پر کام کرتی ہے تو یہ اس کے لیے سماجی طور پر رسوائی کا باعث ہوتا ہے۔‘‘

میمونہ قاسم نے کہا:’’ میرا خیال ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا فیصلہ حالات پر براہِ راست اثرانداز ہوگا۔ مذکورہ اسلامی ادارے کو شہریوں کی جنس یا لسانی پس منظر سے قطعٔ نظر ان کے حقوق کے حوالے سے انتہائی محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

عورت فائونڈیشن اپنی ایک رپورٹ میں کہتی ہے کہ2014ء میں گزشتہ سال کی نسبت خواتین پر تشدد کے واقعات میں 28.2فیصد اضافہ ہوا اور 10,070واقعات رپورٹ ہوئے۔

اس رپورٹ سے یہ معلوم ہوا کہ 2014ء میں اوسطاً روزانہ چھ خواتین اور لڑکیوں کو اغوا کیا گیا، چار کے ساتھ زیادتی یا اجتماعی زیادتی کی گئی، چار خواتین اور لڑکیوں کو قتل کیا گیا، دو ’غیرت‘‘ کے نام پر ماری گئیں جب کہ تین نے خودکشی کی۔

انصاف نیٹ ورک پاکستان ( آئی این پی) کے کمیونیکیشن افسر محمد شاہد نے کہا:’’ ان ملائوں نے سماج میں جنسی برابری کو روکا ہے جو گھروں سے شروع ہوئی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ کچھ علماء کی جانب سے مذہبی تشریح اس پدری معاشرے میںخواتین کی مشکلات کو بڑھانے کا باعث بن رہی ہے۔

محمد شاہد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ یہ عوامل نادانستگی میں خواتین پر تشدد کو درست قرار دینے کا باعث بن رہے ہیں اور ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کیے جانے کے باعث ایسے عناصر خواتین کو ہراساں کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔‘‘

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے جوائنٹ ڈائریکٹر نجم الدین نے کہا:’’ اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے اس نوعیت کا فیصلہ انتہائی غلط تھا۔‘‘

انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں تشدد میں اضافے کو اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ کے بیان سے منسلک نہیں کروں گا۔ یہ رجحان (خواتین کے خلاف تشدد) پہلے سے ہی موجود ہے۔‘‘

انسانی حقوق کی کارکن اور حقوقِ خواتین کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم تکڑہ قبائلی خویندے کی کنوینئر شاہدہ شاہ کہتی ہیں کہ خواتین پر جسمانی و ذہنی تشدد میں ’’اضافہ ہوا ہے۔‘‘

انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ حکومت خواتین کو قوانین کے نفاذ کے ذریعے تشدد سے محفوظ رکھنے میں ناکام رہی ہے کیوں کہ وہ انسانی حقوق کے تحفظ سے زیادہ کاروباری پالیسیوںمیں دلچسپی رکھتی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا:’’ خواتین مردوں کے اس معاشرے میں ملازمت کرتے ہوئے خود کو محفوظ تصور نہیں کرتیں۔‘‘

ماہرِ قانون اور وزارتِ انسانی حقوق کے قانونی مشیر شرافت علی کہتے ہیں کہ خواتین کے حقوق کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔آئین کی شق 35میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ریاست کو خواتین، بچوں اور خاندانی زندگی کا تحفظ کرنا چاہیے۔

شرافت علی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ حکومت کو خواتین کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا:’’خواتین کے حقوق کے حوالے سے عوام کو شعور دینے اور ایسے اسباق تعلیمی نظام میں شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچے خواتین کی عزت کرنا اور ان کا تحفظ کرنا سیکھیں، ان اقدامات کے ذریعے خواتین پر تشدد کے واقعات کوبڑی حد تک کم کرنے میں مدد حاصل ہوگی۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here