بنوں (احسان داور)جون 2014ء میں شمالی وزیرستان کے قبائلی ضلع میر علی سے عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے شروع ہونے والے فوجی آپریشن ضربِ عضب کے باعث نقل مکانی کے بعد جب ہم پہلی بار واپس آئے تو ایک پریشان کن صورتِ حال ہماری منتظر تھی۔میرے اور جرگہ کے دیگر ساتھی ارکان کے لیے میرعلی میں اپنی مارکیٹوں کو منہدم دیکھنا ایک تکلیف دہ لمحہ تھا۔ ایک دور میں مصروف رہنے والے بازار کے ملبے سے شیشے کی کرچیاں منہ چڑا رہی تھیں، اس بازار میں ہم نے کبھی اپنی زندگی کے بہترین دن گزارے تھے اور دیہاتی آبادی کے ساتھ مل جل کرکام کرتے تھے ۔
55برس کے بوستم خان نے کہا:’’ میں اپنی آنکھوں پر بہت مشکل سے یقین کرسکتا تھا۔‘‘ وہ میر علی بازارمیں قائم کئی مارکیٹوں کے مالک تھے، یہ شمالی وزیرستان کے ہیڈکوارٹر میرنشاہ کے بازار کے بعد دوسرا سب سے بڑابازار ہے۔ اس بازار میں کبھی سات ہزار دکانیں قائم تھیں جو اب ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔
اس دن ہی بوستم خان نے پاکستان کے شہر بنوں، جس کی سرحد شمالی وزیرستان سے ملحق ہے، میں افسروں کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے کہا:’’جرگہ کے دو ساتھی ارکان نے جب مارکیٹ کو منہدم دیکھا توان پر غشی کے دورے پڑنے لگے۔ مجھے خود کو معمول پر رکھنے کے لیے تمام تر کوشش کرنا پڑی۔‘‘
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ان بازاروں نے 35ہزار خاندانوں کو روزگار فراہم کررکھا تھا جواب بے روزگار ہوچکے ہیں۔‘‘
پاکستانی فورسز نے جب 15جون2014ء کو شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کیا تو 15لاکھ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ وہ اپنا گھر بار، مویشی، کھیت، کاروبار اور جائیدادیں چھوڑ کر چلے گئے، ان میں وہ تاجر بھی شامل تھے جن کی میرعلی اور میرانشاہ کے مصروف ترین بازاروں میں دکانیں تھیں۔ وہ رواں سال کے اوائل میں واپس آئے تو ان پر منکشف ہواکہ آپریشن کے باعث ان کی دکانیں تباہ ہوچکی تھیں۔
شمالی وزیرستان کی مارکیٹ اونرز ایسوسی ایشن کے مطابق میرعلی اور میرنشاہ کے بازاروں کی 19ہزار دکانیں تباہ ہوئیں۔
بوستم خان کہتے ہیں:’’میرعلی میں 7642دکانیں اور کاروباری مراکز جب کہ میرنشاہ میں 11ہزار دکانیں تباہ ہوئیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ایک دکان کی تعمیر پر آٹھ لاکھ روپے لاگت آتی ہے۔ ان کے مطابق ان بازاروں کی ازسرِ تعمیر کے لیے کم از کم 16ارب روپے کی ضرورت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا:’’ ان مارکیٹوں نے 35ہزار خاندانوں کو روزگار فراہم کررکھا تھاجن کے پاس اب گزر بسر کے لیے کوئی وسائل نہیں ہیں۔‘‘
آپریشن ختم ہونے کے بعد حکومت نے ان علاقوں کو ’’کلیئر‘‘ قرار دیا لیکن جو لوگ واپس آئے، وہ کہتے ہیں کہ کام نہ ہونے اور کاروبار دوبارہ شروع کرنے کے لیے مارکیٹیں نہ ہونے کے باعث ان کی زندگی محدود ہوگئی ہے۔
میرعلی کے ایک نواحی گائوں سے تعلق رکھنے والے عتیق خان کہتے ہیں:’’اگرچہ ہم اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرلیتے ہیں ( وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں واپس آنے والے آئی ڈی پیز کو حکومت خوراک اور مالی معاونت فراہم کررہی ہے) ، یہ انتہائی عجیب محسوس ہوتا ہے کہ میرعلی اور میرنشاہ میں کوئی بازار نہیں ہے۔‘‘
60ہزار سے زائد خاندان وزیرستان واپس لوٹ چکے ہیں اور بہت سے واپس آرہے ہیں لیکن ان علاقوں میں ایسا کوئی بڑا بازار نہیں ہے جہاں وہ اپنا کاروبار کرسکیں جیسا کہ وہ آپریشن ضربِ عضب سے پہلے کیا کرتے تھے۔
حکومت نے میرعلی اور میرنشاہ کے مختلف مقامات پر چھوٹے بازار قائم کیے ہیں لیکن مقامی آبادی کہتی ہے کہ مختلف وجوہات کے باعث ان کی ان بازاروں میں کاروبار شروع کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
ایک مقامی تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ان نئے قائم ہونے والے بازاروں میں کاروبار شروع کرنے کے لیے تشکیل دیے گئے قوانین انتہائی سخت ہیں لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ مقامات، جہاں یہ بازار قائم کیے گئے ہیں،موزوں نہیں ہیں۔‘‘
حکومت حال ہی میں قبائلی علاقوں کے تباہ حال انفراسٹرکچر کی ازسرِنو تعمیر کا منصوبہ منظرِعام پر لائی ہے جس کے تحت شمالی وزیرستان کے بازار بھی تعمیر کیے جائیں گے لیکن مرکزی بازاروں میں قائم دکانوں کے مالکان اس حوالے سے تشکیل دیے گئے ضابطوں سے متفق نہیں ہیں۔
حافظ احسان، جن کی میرعلی بازار میں تقریباً 80دکانیں تھیں، کہتے ہیں:’’ نئے نقشے میں تاجروں، جوان بازاروں میں ارضی ملکیت رکھتے تھے،کے حقِ ملکیت کو نظرانداز کیا گیا ہے جس کے باعث مالکان میں اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یہ نقشہ جس شخص نے بھی تیار کیا ہے، وہ اس علاقے کی ثقافت اور کمیونٹی کی حرکیات سے مکمل طور پر ناواقف ہے۔
حافظ احسان کا مزید کہنا تھا:’’ کوئی سرکاری اراضی نہیں ہے (جیسا کہ نقشے میں ظاہر کیا گیا ہے)۔ یہ جائیداد ہمیں اپنے آبائو اجداد سے ترکے میں ملی تھی جس کا ذکرحکومت کے اراضی کے ریکارڈ میں بھی ہے۔‘‘
اس حوالے سے چوں کہ کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں کہ مقامی لوگوں کی کتنی تعدادنے آپریشن اور نقل مکانی کے باعث اپنا کاروبار منتقل کیا ہے، شاپس آنرز ایسوسی ایشن کہتی ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ واپس لوٹ چکے ہیں اور ملازمتوں کے حصول کے حوالے سے پرامید ہیں لیکن کوئی معاشی سرگرمی نہ ہونے کے باعث وہ خود کو بے یارومددگار پاتے ہیں۔ بوستم خان کہتے ہیں کہ نقل مکانی کرنے والوں کی بڑی تعداد واپسی پر بے روزگاری کا سامناکررہی ہے اور وہ نہیں جانتے کہ اس صورتِ حال سے کس طرح نبردآزماہوں۔
میرعلی کے رہائشی عبداللہ جان، جن کی مارکیٹ میں گروسری کی دکان تھی، کہتے ہیں:’’ میری میرعلی بازار میں دکان تھی لیکن میں اپنا کاروبار دوبارہ شروع نہیں کرسکتا کیوں کہ میرا سارا سامانِ تجارت دکان میں موجود تھا جو آپریشن میں تباہ ہوچکی ہے۔‘‘
اگرچہ حکومت کی جانب سے واپس آنے والے آئی ڈی پیز کو چھ ماہ کا راشن فراہم کیا گیا ہے لیکن کاشت کاری کی اجازت نہیں دی گئی۔ کاشت کاری اس زرعی معاشرے کے بہت سے خاندانوں کے لیے گزربسر اور معاش کا واحد ذریعہ ہے۔
ایک سکیورٹی افسرنے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرکیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے،نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ہم سکیورٹی وجوہات کے باعث کاشت کاری کی اجازت نہیں دے سکتے۔ جب تمام آئی ڈی پیز واپس آجائیں گے تو ہم ان کو یقینا معمول کی زندگی بسر کرنے کی اجازت دیں گے جیسا کہ وہ آپریشن سے قبل گزار رہے تھے۔جب تک سب قبائلی واپس نہیں آجاتے، لوگوں پر اپنے دیہاتوںتک محدود رہنے کی پابندی عاید رہے گی۔‘‘
لیکن دکانوں کے مالکان بحالی کے طریقۂ کار سے خوش نہیں ہیں، ان کی نقل و حرکت پر پابندی عاید کی گئی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت ان کے نقصانات کی زرِتلافی ادا کرے یا پھران کو ان کے حال پر چھوڑ دے۔
میرعلی بازارکے ایک اور تاجر نوشا ر خان کہتے ہیں:’’ وہ (حکومت) جو بھی کرنا چاہتے ہیں، کررہے ہیں۔ وہ مالکان کے درمیان اختلافات کی آگ بھڑکانے کی بجائے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ لوگ یہ قبول کرسکتے ہیں کہ حکومت ان کی مدد نہیں کرنا چاہتی۔ لیکن ان کو بازار کی ازسرِتعمیر کے لیے مجبور کرنے کا حکومتی منصوبہ لوگوں کی اپنی زندگیاں نئے سرے سے شروع کرنے کے حوالے سے ایک دھچکے سے کم نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا:’’ ہر چیز ریکارڈ پر ہے اور اگر حکومت ہماری بحالی کے لیے حقیقتاً سنجیدہ ہے تو وہ ہمیں ایک ساتھ بیٹھنے دے اور اس مسئلے کا قابلِ عمل حل تلاش کرنے دے۔‘‘
تاہم باہمی رضامندی سے بازاروں کی ازسرِ نوتعمیر کے لیے مقام کا انتخاب ان لوگوں کے لیے مسئلے کا صرف ایک حل ہے جو آپریشن کے باعث اپنی جائیداروں اور کاروبار سے محروم ہوچکے ہیں۔ حکومت کو ان لوگوں کو ہنوز زرِ تلافی ادا کرنا ہوگی جو آپریشن کے دوران تباہ ہونے والی تقریباً190000دکانوں میں اپنا سامانِ تجارت چھوڑ گئے تھے۔
فاٹا سے تعلق رکھنے والے ایک رُکن پارلیمان نے، نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر، کہا کہ فاٹا کے لوگوں کی بحالی کے لیے 16ارب روپے مختص کیے گئے ہیں لیکن’’2005ء سے جاری فوجی کارروائیوں کے باعث لوگوں کی املاک کو پہنچنے والے نقصان کو پیشِ نظر رکھا جائے تو یہ رقم بہت کم ہے۔‘‘
پشاورکے فاٹا سیکرٹریٹ کی ایک سرکاری دستاویز سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں بازاروں کی تعمیر زیرِغور ہے اور مختلف مقامات پر بازاروں کی تعمیر کے لیے 29.900ملین روپے مختص کیے جاچکے ہیں، دوبازار تحصیل بویا، ایک میرنشاہ اور باقی میرعلی میں تعمیر کیے جارہے ہیں۔ تاہم مقامی تاجر پہلے ہی اس منصوبے کو رَد کرچکے ہیں
ایک تاجر نے، جو نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، کہا:’’ صدیوں سے ہم میرعلی اور میرنشاہ کے بازاروں میں کام کررہے تھے۔ کوئی بھی دوسرا مقام کاروباری سرگرمیوں کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ ہم یہ بازار خود تعمیر کرلیں گے لیکن اس کے لیے حکومتی اجازت کی ضرورت ہے۔‘‘