اسلام آباد (رحمت محسود سے) اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے کہا ہے کہ حکومت بالواسطہ ٹیکس عاید نہیں کرسکتی کیوں کہ شریعت میں اس کی اجازت نہیں ہے اوریہ اسلامی تعلیمات کے خلاف بھی ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی نے نیوز لینز پاکستان سے خصوصی انٹرویو میں کہا:’’ بالواسطہ ٹیکس گاہکوں پر براہِ راست اثرانداز ہوتے ہیں اور ایسا کوئی بھی اقدام جس سے گاہکوںاور مستحقین کو سہولت حاصل نہ ہو، اسلام میںاس کی ممانعت ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ سادہ لفظوں میں اسلامی معاشی نظام میں ذخیرہ اندوزی یا دولت کے ارتکاز کی اجازت نہیں ہے۔
نیوز لینز پاکستان کی ایک خبر کے مطابق گزشتہ برس انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف) کی شرائط کے پیشِ نظر وزیرِ خزانہ اسحاق ڈارنے 40ارب روپے کے ٹیکس عاید کیے ، اس قدام کو ’’منی بجٹ‘‘ کے طور پر دیکھا گیا۔
 مذکورہ منی بجٹ کے باعث اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر رکن عاطف اکرم شیخ یہ خبردار کرنے پر مجبور ہوئے کہ نیا بجٹ نہ صرف ٹیکسوں کے ڈھانچے کو متاثر کرے گا بلکہ غربت اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوگا۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے دائرہ اختیار کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 230-Aکے تحت اسلامی نظریاتی کونسل سے جب قومی و صوبائی اسمبلی یا کسی بھی قانون ساز ادارے کی جانب سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ مجوزہ قانون اسلامی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں تو وہ مشورہ دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ کونسل کو پہلے سے قائم قوانین کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تجاویز دینے کا اختیار حاصل ہے۔‘‘
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آبا دکے شعبۂ معاشیات سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال نے رابطہ کرنے پر کہا کہ عوامی معاشیات میں یہ متنازعہ سوال ہے کہ آیا بالواسطہ یا بلاواسطہ ٹیکسز کو ٹیکسوں کے ڈھانچے میں ترجیح دی جائے یا نہیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’ بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں کے فوائد بھی ہیں اور مضمرات بھی جس کے باعث ٹیکسوں کے ایک اچھے نظام کو دونوں طرح کے ٹیکسوں کا مجموعہ ہونا چاہیے۔‘‘
لیکن مولانا محمد خان شیرانی کہتے ہیں:’’ اسلام میں بالواسطہ ٹیکس عاید کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ٹیکس گاہکوں کی بجائے تاجروں اور صنعت کاروں پر عاید کیے جائیں۔‘‘
 انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس سے منسلک ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید نے نیوز لینز پاکستان کو ای میل پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ترقی پذیر ممالک جیسا کہ پاکستان بلاواسطہ کی بجائے بالواسطہ ٹیکسوں پر زیادہ انحصار کرتے ہیں کیوں کہ وہ صاحب ِ ثروت طبقے سے ٹیکس وصول کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک تجزیہ کار حامد خان کہتے ہیں کہ بالواسطہ ٹیکس کے منفی اثرات براہِ راست گاہکوں پر مرتب ہوتے ہیں جنہیں افراطِ زر کے اس دور میں مزید دبائو کا شکار نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ اگر حکومت کے سامنے بالواسطہ ٹیکس عاید کرنے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے تو اسے چاہیے کہ ریونیو حاصل کرنے کے لیے ٹیکس نیٹ کا دائرہ کار بڑھانے کے لیے مناسب حکمتِ عملی تشکیل دے۔‘‘
حامد خان نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کے اس بیان سے ملک میں قائم ٹیکسوں کے پیچیدہ نظام کے حوالے سے نئی بحث شروع ہوگی جس کے باعث بڑے کاروباری حضرات تو ٹیکس دینے سے بچ جاتے ہیں جب کہ چھوٹے تاجروں پر بھاری ٹیکس عاید کیے جاتے ہیں۔
عام لوگ اور گاہک پہلے ہی ٹیکسوں کے حوالے سے اپنی بھرپور تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔منی بجٹ کے اعلان کے بعد روزمرہ استعمال کی اشیاء میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ کو حکومت کا ایک طاقت ور نمائندہ خیال کیا جاتا ہے اور ان کی فکر کو نہ صرف حکومت بلکہ نجی شعبہ بھی یکساں اہمیت دیتا ہے۔
اسلام آباد کے ایک ریستوران کے مالک احمد تقی نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز کو ان کی روح کے مطابق متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے الزام عاید کیا کہ حکومت بالواسطہ ٹیکسوں یا منی بجٹ کے ذریعے معاشرے کے پسماندہ طبقے کو نشانہ بناتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا:’’ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ کا مؤقف سنے اور ان کی تجاویز پر عمل کرے۔‘‘
فیڈرل بورڈآف ریونیو کے ایک سینئر افسرنے، نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس منی بجٹ یا بالواسطہ ٹیکس عاید کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
تاہم انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ کے بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جنہوں نے بالواسطہ ٹیکسوں کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آبادی کا صرف 0.3فی صد حصہ ہی انکم ٹیکس ادا کرتا ہے اور یہ شرح دنیا بھر میں سب سے کم ہے۔
مذکورہ افسر نے مزید کہا کہ ملک کے 70لاکھ افراد انکم ٹیکس ادا کرنے کے اہل ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ نے کہا:’’صرف تنخواہوں پر ہی ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ گاہکوں سے اشیاء خریدنے پر ٹیکس وصول نہیں کیا جاسکتا۔ بڑے تاجروں اور صنعت کاروں پر ٹیکس عاید کیا جائے کیوں کہ وہ اپنی اشیاء فروخت کرتے ہیںاور دولت کماتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صاحبِ ثروت پاکستانی ٹیکس ادا نہیں کرتے جس کے باعث غریب اور عام پاکستانوں پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔
مولانا محمد خان شیرانی نے یہ بھی کہا کہ کاغذوں کی کرنسی کو سونے سے تبدیل کیا جانا چاہیے جو ایک قابلِ قبول اور طاقت ور میڈیم ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ کاغذ کی کرنسی کی طاقت کا دارو مدار ریاست کی طاقت پر ہے ورنہ اس کی کوئی اہمیت نہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ڈالر اس لیے طاقت ور کرنسی ہے کیوں کہ امریکہ ایک طاقت ور ملک ہے ورنہ ڈالرصرف کاغذ کا ایک ٹکرا ہے جس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں دنیا سونے کی کرنسی پر منتقل ہوجائے۔
محکمۂ انکم ٹیکس سے منسلک ایک سینئر افسر نے، نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر، کہا کہ 36لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 10لاکھ سے زائد لوگوں نے اپنے مالی گوشوارے جمع کروائے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالرشید کہتے ہیں:’’ پاکستان میں ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے ریونیو کی ایک بڑی شرح بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بلاواسطہ ٹیکس جیسا کہ انفرادی انکم ٹیکس، کارپوریٹ انکم ٹیکس، ویلتھ و پراپرٹی ٹیکس دوسروں پر عاید نہیں ہوسکتے۔
ڈاکٹر عبدالرشید نے کہا کہ بالواسطہ ٹیکسوں کے گاہکوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں کیوں کہ اشیاء مہنگی ہوجاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلواسطہ ٹیکسوں کے نفاذ کے باعث سماج میں دولت، آمدن کی تفریق میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ بلاواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے دولت کی منصفانہ تقسیم میں مدد حاصل ہوتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالرشید نے کہا:’’ میری تحقیق کے مطابق پاکستان میں ٹیکس ادا نہ کرنے کے باعث زیرِزمین معاشی سرگرمیوں کے بارے میں معلوم نہیں ہوپاتا اور اس قسم کی سرگرمیاں پاکستان میں بڑھ رہی ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت پاکستانیوں کی جانب سے قائم کی جانے والی آف شور کمپنیوں کے حوالے سے شورو غوغا برپا ہے جنہوں نے ٹیکس ادا نہیں کیا۔ڈاکٹر عبدالرشید نے کہا:’’ چناں چہ مسئلہ ان لوگوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ٹیکس کا کرپٹ نظام ان مسائل کی وجہ ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here