پشاور (شیراز اکبر سے)صوفیہ جاوید خیبرپختونخوا کی پہلی خاتون باکسر ہیں اور وہ ان تین پاکستانی خواتین باکسرز میں شامل تھیں جنہوں نے رواں برس فروری میں ہونے والی جنوبی ایشیائی کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ان کے لیے قومی باکسنگ ٹیم کے لیے کوالیفائی کرنا، جس نے عالمی چیمپئن شپ میں حصہ لیا، ایک مشکل ٹاسک تھا۔
انہوں نے کہا:’’ سہولیات کے فقدان کے باوجود میں کوالیفائی کرنے اور ایک عالمی ٹورنامنٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے قابل رہی۔‘‘ انہوں نے ایک اور خاتون باکسر رخسانہ پروین کے ساتھ مل کر بھارتی شہروں گواہاٹی اور شیلونگ میں ہونے والے کھیلوں میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔
21 برس کی صوفیہ جاوید کا تعلق پشاور سے ہے۔ اگرچہ وہ خود کو ایسی خواتین میں شمار کرتی ہیں جنہوں نے روایات کو چیلنج کیا لیکن انہوں نے اپنی انتخاب کردہ فیلڈ میں کامیابی حاصل کرکے ایک مثال قائم کی ہے جو ان کے لیے آسان نہیں تھا۔صوفیہ جاوید نے کہا کہ ابتدا میں میرے والدین نے مخالفت کی تھی اور مجھے اس مشکل کھیل میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دے رہے تھے لیکن میں ان کو قائل کرنے میں کامیاب رہی۔
خیبرپختونخوا باکسنگ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل سید کمال خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ خیبر پختونخوا کی خواتین مختلف کھیلوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں لیکن باکسنگ ایک مشکل کھیل ہے اور خواتین عموماً اس کھیل کا انتخاب نہیں کرتیں۔ تاہم اب رجحان تبدیل ہورہا ہے۔ اس وقت ایسوسی ایشن کی فہرست میں 24سے زائد پرجوش خواتین باکسرز شامل ہیں۔‘‘
اگرچہ صوفیہ جاوید اس کھیل میں نئی ہیں لیکن انہوں نے رواں برس کے اوائل میں ہونے والی جنوبی ایشیائی کھیلوں میں کانسی کا تمغہ جیتا۔
وہ کہتی ہیں کہ خواتین باکسرز کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے اور نہ ہی ان سے تعاون کیا جاتا ہے۔
صوفیہ جاوید کہتی ہیں:’’قیوم سپورٹس سٹیڈیم پشاور میں صرف ایک باکسنگ رنگ ہے جو ’’مردوں کے لیے مخصوص‘‘ ہے۔تربیت تو ایک جانب خواتین کو رنگ میں داخل ہونے کی اجازت بھی نہیں ہے ۔ وہ سٹیڈیم کے جمنیزیم ہال میں تربیت کرتی ہیں جہاں باکسرز کے لیے بنیادی سہولیات تک دستیاب نہیں ہیں۔‘‘
صوفیہ جاوید کی اس تشویش کا اظہار خیبرپختونخواکے محکمۂ کھیل کی ڈائریکٹر جنرل راشدہ غزنوی بھی کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ خواتین کو مردوں کے باکسنگ رنگ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے تاکہ کوئی ’’ناخوشگوار واقعہ‘‘ رونما نہ ہو۔
انہوں نے کہا:’’ یہ ہماری پشتون روایات کے خلاف ہے کہ خواتین اور مرد ایک ہی مقام پر پریکٹس کریں۔ ہم نے اس بنا پر ہی خواتین کو جمنیزیم ہال استعمال کرنے کی اجازت دی ہے جہاں تمام متعلقہ سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔‘‘
صوفیہ جاوید نے کھیلوں کے انتخاب میں تنوع کا اظہار کیا ہے۔ وہ 2011ء سے مارشل آرٹس جیسا کہ جوڈو، ووشو، کراٹے اور جیوجٹسوکے علاوہ سائیکلنگ کی تربیت بھی حاصل کرتی رہی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے مختلف کھیلوں میں نصف درجن سے زائد میڈل حاصل کیے ہیں جس کے باعث ان کے اعتماد میں غیر معمولی اضافہ ہواہے۔ تاہم اگر ان کو ان کھیلوںمیں اپنی اہلیت ثابت کرنی ہے تو اس کے لیے معاشی معاونت کی ضرورت ہے۔
ایک پدری معاشرے میں جہاں عورت کے لیے نقل و حرکت بھی انتہائی مشکل ہوتی ہے، وہ ٹیکسی پر سٹیڈیم جاتی ہیں۔ ان کا تعلق چوں کہ ایک غریب خاندان سے ہے جس کے باعث وہ آٹھ ارکان کے اپنے خاندان کی جانب سے معاونت سے محروم ہورہی ہے کیوں کہ ان کا بھائی ہی خاندان بھر کا واحد کفیل ہے۔
انہوں نے کہا:’’ مجھے اخراجات بچانے کے لیے اپنے گھر کی چھت پر پریکٹس کرنا پڑتی ہے۔ میرے کوچ سید کمال بہت زیادہ مددگارثابت ہوئے ہیں ، وہ باقاعدگی سے میرے گھر پہ باکسنگ کے سازوسامان کے ساتھ آتے ہیں تاکہ پریکٹس میں میری مدد کرسکیں۔‘‘
راشدہ غزنوی نے کہا کہ حکام صوبہ بھر میں کھیلوں کی سہولیات کو بہتر بنانے پر ایک بڑی رقم خرچ کررہے ہیں جس کے باعث کھلاڑیوں کو انعامی رقم کی ادائیگی میںتاخیر ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ صوبے کے مختلف شہروں میں چھ باکسنگ رنگ بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں اور ’’یوںخواتین اور مردوں کو الگ الگ باکسنگ رنگ فراہم کرنے میں مدد حاصل ہوگی۔‘‘
صوفیہ جاوید کے کوچ سید کمال کہتے ہیں کہ وہ پاکستان باکسنگ فیڈریشن کی جانب سے رواں ماہ قازقستان میں ہونے والی خواتین کی ورلڈ باکسنگ چیمپئن شپ کے لیے فیورٹ کھلاڑیوں میں شامل ہیں۔ اگر ان کو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں تو وہ (اپنی صلاحیتوں سے) حیران کرسکتی ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی خواتین ان کھیلوں میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کررہی ہیںجن پر کبھی صرف مردوں کی اجارہ داری قائم تھی۔ سید کمال کا مزید کہنا تھا:’’ وہ روایات سے بغاوت کررہی ہیں۔ حکومت کی جانب سے ذراسی توجہ بھی صوفیہ جاوید جیسی خواتین کی حوصلہ افزائی کا باعث بن سکتی ہے جو انتہائی مشکلات کے باوجود کھیلوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کی جستجو کررہی ہیں۔‘‘