تھرپارکر، سندھ (ذوالفقار کنبھر) ایک چھوٹے کاشت کار منو مال کوہلی اپنی بیٹی کی شادی کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔اُن کا تعلق ایک ہندو خاندان سے ہے، جو پاکستان کی سب سے بڑی اقلیت ہے، یہخاندان طویل عرصہ بعد خوشی کا یہ لمحہ منا رہا ہے کیوں کہ تھرپارکر میں چار برسوں تک قحط سالی رہی ہے۔
یہ بارشوں کے مرہونِ منت ممکن ہوپایا ہے اور ننگر پارکر میں زندگی کے رنگ ایک بار پھر نظر آنے لگے ہیں جس کے باعث مقامی کاشت کار پیازکی بڑی فصل حاصل کرنے کے قابل ہوئے۔
منو کوہلی کا تعلق سندھ کے جنوبی ضلع اور پاکستان کے سب سے بڑے صحرا تھرپارکر کی تحصیل ننگر پارکر سے ہے۔
رواں برس پیاز کی فصل زیادہ ہونے کے باعث بہترآمدن ہوئی ہے اور یوں منو کوہلی اپنی پیاری بیٹی کی شادی پہ ایک بڑی رقم خرچ کرنے کے قابل ہوگئے ہیں۔
انہوں نے نیو زلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میرا پورا خاندان بہت خوش ہے۔ وہ سب یہ چاہتے ہیں کہ اسے زیور ات سے لادیں، شاندار روایتی ملبوسات گھاگھرا اور چولی سلوائیں اور جہیز دیں۔‘‘ان کی آنکھوں میں خوشی کی جھلک نمایاں تھی، انہوں نے مزید کہا:’’ اگر فصل پیدا نہ ہوتی تو ہم اس طرح کی تقریب کے انعقاد کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔‘‘
کوہلی اور ان کے پانچ بھائیوں پر مشتمل مشترکہ خاندان آٹھ ماہ طویل کاشت کاری، فصلوں کی پیکنگ اور ان کی فروخت کے بعد اب فارغ ہوا ہے، انہوں نے گزشتہ برس اگست میں کام کا آغاز کیا جو رواں برس مارچ میں ختم ہوا۔ یہ خاندان کاسبو، ننگر پارکر کے گائوںرڑکو میں آباد ہے جس نے پانچ ایکڑ اراضی پر پیاز کاشت کیے۔ کوہلی کے خاندان نے حالیہ برسوں کے دوران بہتر پیداوار کے باعث پیاز کی کاشت بڑھائی۔
منو کوہلی نے کہا:’’ہم نے چار برس قبل دو ایکڑ اراضی پر پیاز کاشت کیے تھے جس سے سات سو من فصل پیدا ہوئی۔ رواں برس ہم نے پانچ ایکڑ اراضی پر فصل کاشت کی جس سے 12سو من پیاز پیدا ہوا اور یوں ہم تقریباً چھ لاکھ روپے بچانے کے قابل ہوئے ہیں۔‘‘
رڑکو میں صرف ان کا خاندان ہی خوشی کا یہ لمحہ نہیں منا رہا، اس گائوں کی آبادی دو ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور کاشت کاروں کے تین سو خاندان آباد ہیں۔ رڑکو گائوں اور گرد و نواح کے علاقوں میں کاشت کاری کا رجحان بڑھا ہے جوتھرپارکر کے خشک علاقوں میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے اور اس کے بہتر استعمال کے باعث ممکن ہوا ہے ۔
ننگر پارکر کے اوآن گائوں کے رہائشی رام مال میگھوار کی کہانی بھی ایسی ہی ہے‘ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ چھ برس قبل تین ایکڑ اراضی پر فصل کاشت کی تھی۔رواں برس 22ایکڑ اراضی پر فصل کاشت کی جس سے سات لاکھ روپے بچانے کے قابل ہوا ہوں۔‘‘
انہوں نے مستقبل قریب کے منصوبوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں اپنے گھر کو بہتر بنانے کا منصوبہ بنا رہا ہوں۔ ‘‘ وہ مٹی اور گھاس پھوس سے بنے اپنے دو کمروں کے گھر کو بہتر بنانے کے علاوہ اپنے بچوں کو سکول جاتے اور تعلیم حاصل کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ رام مال میگھوار نے کہا:’’ میرے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ زراعت کے باعث چوں کہ خوشحالی نہیں رہی جس کی وجہ سے بچوں کو تعلیم دلانا ممکن نہیں تھا۔‘‘
تحصیل ایڈمنسٹریٹر ننگر پارکر غلام یٰسین پنہور کے مطابق رواں برس دو ہزار ایکڑ اراضی پر پیاز کی فصل کاشت کی گئی جو 2012ء میں ایک ہزار ایکڑ اراضی سے بھی کم پر کاشت کی گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا:’’ اگرچہ اس کی قیمت سیزن بھر میں پانچ سو سے ایک ہزار روپے فی من تک رہی ہے لیکن اس کی اوسط قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے تھی۔‘‘ غلام یٰسین پنہور کا کہنا تھا:’’بارش کے پانی کے بہتر استعمال کے باعث ننگرپارکر کے نواحی علاقوں جیسا کہ کرن جھار، کاسبو اور ادھی غام وغیرہ میں سبزیوں کی کاشت بڑھی ہے۔‘‘
ننگر پارکر سندھ کے جنوب مشرق میں اور صوبائی دارالحکومت کراچی سے 530کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ننگر پارکر کی آبادی 80ہزار نفوس پر مشتمل ہے جو انتہائی غربت کی زندگی بسر کررہے ہیں جیسا کہ 90فی صد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
حکومتِ سندھ ننگر پارکر کو ایک ایسا علاقہ قرار دیتی ہے جہاں آب پاشی کا نظام موجود نہیں ہے لیکن وہ اسے ’’ ڈیموں کی تعمیر کے لیے موزوں تصور کرتی ہے تاکہ بارش کے پانی کے استعمال سے فصلیں اُگائی جاسکیں۔‘‘
سماجی کارکن بھارومل عمرانی کہتے ہیں:’’تھرپارکر کے انتہائی زرخیز اور ریتلے کھیت پیاز کی کاشت کے لیے انتہائی موزوں ہیں کیوں کہ ان کے لیے کم پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘ یہ یقین پایا جاتا ہے کہ تھرپاکر دنیا کا زرخیز ترین صحرا ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ پیازوں کی کاشت کے علاوہ ان کھیتوں میں حکومتی سرپرستی میں آلو، زیرہ اور ٹماٹر بھی کاشت کیے جانے چاہئیں کیوں کہ ان کو کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے نہ صرف غربت زدہ کاشت کاروں کی معاشی حالت بہتر ہوگی بلکہ تازہ سبزیاں بھی دستیاب ہوں گی جس کے باعث قحط سے پیدا ہونے والی غذائی قلت ختم ہوسکے گی۔‘‘
بھارومل عمرانی نے کہا:’’ یہ یقین پایا جاتا ہے کہ ننگر پارکر میں کاشت کیے جانے والے نسرپوری پیاز سندھ میں کاشت ہونے والی پیازوں کی دیگر اقسام سے زیادہ عرصہ تازہ رہتے ہے۔‘‘
حکومتِ سندھ کے اعداد و شمار کے مطابق:’’ دستیاب ڈیٹا کی بنیاد پر ننگرپارکر کے مختلف علاقوں میں سالانہ ہونے والی اوسطاً بارش 1926ء سے 2009ء کے درمیان 340ملی میٹریا 13.4انچ رہی۔ سرکاری اعداد و شمار سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ گزشتہ چار برسوں 2012ء سے 2015ء تک رہنے والی خشک سالی کے دوران ننگرپارکر میں بالترتیب 365، 741، 155اور 350ملی میٹر سالانہ بارش ہوئی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ خشک سالی پر قابو پانے کے لیے بارشوں سے حاصل ہونے والے پانی کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جانا چاہیے کیوں کہ خشک سالی سے یہ علاقے متاثر ہورہے ہیں۔ یہ علاقہ گزشتہ تین دہائیوں سے مستقل طور پر خشک سالی کا سامنا کررہا ہے۔
علاقے میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم بانھ بیلی کے نمائندے خان محمد مری کہتے ہیں:’’ تھرپارکر میںبارش یا پھر زیرِ زمین پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اندازہ مرتب کیا گیا ہے کہ ان برسوں کے دوران جب بارشیں مناسب مقدار میں ہوں، صحرا تھرپارکر میں کاشت کاری کے لیے زیادہ سے زیادہ دستیاب پانی 12لاکھ لوگوں اور 40لاکھ مویشیوں کے سال بھر استعمال کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اضافی پانی کو ڈیڑھ لاکھ ایکڑ اراضی پر کاشت کاری کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔‘‘
2007ء میں حکومتِ سندھ کے محکمۂ آبپاشی نے سندھ سمال ڈیمز آرگنائزیشن ( ایس ڈی او) قائم کی جس نے تھرپارکر میں چھوٹے ڈیم اور پانی کے ذخیرے بنانا شروع کیے۔
ایگزیکٹو انجینئر ننگر پارکر خالد نواز داہر کے مطابق پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے سات بندرن پور بند، خرورو بند، مالجی بند، بھودے سر بند، ٹانک بند، ٹوبریو بند اور لخی جو واڈیو بند مکمل ہوچکے ہیں جب کہ چار منصوبوں پر کام جاری ہے۔
حکومت کے علاوہ کچھ غیر سرکاری تنظیمیں بھی ننگر پارکر اور گرد و نواح کے علاقوںمیں پانی کے ذخیرے قائم کرنے کے لیے کام کرر ہی ہیں۔ کرن جھار پہاڑیوں کے گرد و نواح کے علاقوں میں 13چھوٹے ڈیم تعمیر کیے گئے ہیں جن میں سے چار بانھ بیلی نے بنائے ہیں۔محمد خان مری نے کہا:’’ تھرپارکر کا 85فی صد زیرِزمین پانی کھاراہے۔ کرن جھار پہاڑیوں کے اردگرد قائم ڈیم زیرِزمین پانی کی سطح بڑھانے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں جس کے باعث بارش کے پانی پر انحصار بڑھ جاتا ہے۔‘‘ سماجی کارکنوں کے مطابق گزشتہ برس ہونے والی بارشوں کے باعث کرن جھار میں کنویں بھر گئے تھے اور ڈیموں کی سطح بلند ہوئی تھی۔
اسی طرح اس علاقے میں کام کرنے والی ایک اورغیر سرکاری تنظیم تھردیپ رورل ڈویلپمنٹ پروگرام ( ٹی آر ڈی پی) نے 2012ء اور 2013ء میں ننگر پارکر کے دیہاتوں کاسبو، سکھ پور اور سابوسان میں تین ڈیم تعمیر کیے تھے۔
ٹی آر ڈی پی کے نمائند ے علی جونیجو کہتے ہیں:’’ گزشتہ دو برسوں کے دوران ان کے ادارے کی جانب سے قائم کیے گئے ڈیموں کے گرد ونواح کے علاقوں میں زیرِزمین پانی کی سطح بہتر ہوئی ہے، اگرچہ اس عرصہ کے دوران بہت زیادہ بارشیں نہیں ہوئیں۔‘‘
رام مال میگھوا ر،علی جونیجو اور محمد خان مری کے نقطۂ نظر سے متفق ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ سات برس قبل زیرِزمین پانی کی سطح 70فٹ گہرائی میں تھی۔ گزشتہ بارشوں کے باعث اب یہ کنواں بھر چکا ہے۔‘‘
سیاسی و انتظامی حکام بارشوں کے پانی کے استعمال سے کاشت کاری کوفروغ دینے کے تصور کی حمایت نہیں کرتے۔ صوبائی تھرپارکر ریلیف کمیٹی، جولوگوں کوپانی، صحت اور بنیادی سہولیات فراہم نہ کرنے کے باعث تنقید کی زد پر ہے، کے کوارڈیٹنیر اور برسرِاقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر حکومت کی جانب سے علاقے کے لوگوں کو بارش کے پانی کے استعمال کے ذریعے بڑے پیمانے پر کاشت کاری کے لیے انفراسٹرکچر فراہم نہ کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں:’’ بارشوں کے پانی کو استعمال میں لاتے ہوئے کاشت کاری کرنا مستقل حل نہیں ہے کیوں کہ بارشوں کا پانی آب پاشی کا مستند ذریعہ نہیں ہے۔ان کے مطابق تھرپارکر میں زیرِزمین پانی کم نہیں ہے جس کے باعث کھارے پانی سے کاشت کاری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر تاج حیدر کا مزید کہنا تھا:’’ ہم نے اسلام کوٹ(تھرپارکر کی ایک اور تحصیل ) میں کھارے پانی سے کاشت کاری کو کسی حد تک کامیاب ہوتے دیکھا ہے۔ ہمیں اس پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ طریقۂ کار کامیاب ہوچکا ہے۔‘‘
پیازوں کی بہتر فصل پیدا ہونے کے باعث کرن جھار اور گرد ونواح کے علاقوں سے نقل مکانی کم ہوئی ہے۔ منو کوہلی کہتے ہیں:’’ رڑکو سے اب نقل مکانی نہیں ہور رہی۔ لوگ سندھ کے زرخیز اضلاع کی جانب نقل مکانی کیاکرتے تھے جہاں وہ کھیتوں میں مزارع کے طور پر کام کرتے۔‘‘