پشاور (شیراز اکبر سے) سردار سنتوک سنگھ خوش ہیں کیوں کہ تقریباً70برس پر محیط طویل انتظار اب ختم ہوچکا ہیں۔ گوردوارہ بھائی بیبا سنگھ کے باہر کھڑے ہوئے ، جہاں وہ عبادت کے لیے آئے ہوئے تھے،جب پشاور کے اس تین سو برس قدیم سکھ گوردوارے کے بارے میں بات کررہے تھے تو ان کے چہرے پر خوشی رقصاں تھی جو ان کی بڑی بڑی روشن آنکھوں اور ان کے الفاظ سے جھلک رہی تھی۔
سردار سنتوک سنگھ نے کہا:’’ ایک ایسے مقام پر عبادت کرنا، جہاں ہمارے آبائو اجداد آیا کرتے تھے، ایک شاندار لمحہ تھا۔‘‘ وہ تقریباً 30برس کے ایک نوجوان ہیں۔ ان کے اردگرد نوجوان اور ادھیڑ عمر افراد رنگ برنگ پگڑیاں پہنے کھڑے تھے، جن کے باریش چہروں پر سردار سنتوک سنگھ کی طرح خوشی کی جھلک دیکھی جاسکتی تھی، وہ سب اس لمحے کی شادمانی سے سرشار تھے جو پشاور کے سکھوںکے لیے تاریخی ہونے کے ساتھ ساتھ مقدس بھی تھا۔
گوردوارہ بھائی بیبا سنگھ کے خاموش ہال اور محرابیں بھجن اور عبادات کی آواز سے گونج رہی تھیں جو 31مارچ کو تقریباً70برس کے بعد ایک بار پھر کھولا گیاتھا۔1947ء میں تقسیم کے دوران ہونے والے مذہبی تشدد کے باعث جب مقامی سکھ آبادی پنجاب کے شہروں کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئی تو اس گوردوارے میں عبادات کا سلسلہ متروک کر دیا گیا۔ کچھ سکھ خاندانوں نے افغانستان سے متصل سرحد کے اردگردپھیلے ہوئے قبائلی علاقوں کا رُخ کیا اور وہ قبائلی اضلاع خیبر، کرم اور اورکزئی میں پشتون قبائل کے ساتھ آباد ہوگئے جنہوں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قبائلی شناخت اختیار کرلی۔
گوردوارے کے باہر عبادت کے لیے جمع ہوئے سکھوں کے ہجوم میں شامل ایک ادھیڑ عمر سکھ منموہن سنگھ نے بات کرتے ہوئے کہا:’’ اس وقت حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی ہم آہنگی بڑھی ہے۔‘‘
ان گزرے برسوں کے دوران گوردوارے کی شاندار عمارت محکمۂ اوقاف کی عملداری میں رہی جو مذہبی مقامات کے تحفظ کا ذمہ دارہے۔ اگرچہ محکمۂ اوقاف کی عملداری کے باعث یہ قبضہ گروپوں کی دسترس میں آنے سے محفوظ رہالیکن استعمال اورمرمت نہ ہونے کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ طویل عرصہ سے مقامی لوگ یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ یہاں پر کوئی گوردوارہ ہی نہیں ہے کیوں کہ اس کو کسی نے کبھی استعمال ہوتے ہوئے نہیں دیکھا تھالیکن سکھ کمیونٹی اس تمام عرصہ کے دوران اسے نہ صرف بحال کرنے بلکہ کھولنے کا اصرار بھی کرتی رہی۔اوقاف ٹرسٹ پراپرٹی بورڈ ( ای ٹی پی بی) کے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر آصف خان کے مطابق جب گوردوارے کو کھولنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس کی مرمت اور تزئین و آرائش پر 11لاکھ روپے خرچ کیے گئے۔
ای ٹی پی بی کے چیئرمین صدیق الفاروق نے گوردوارے کو رسمی طور پر 31مارچ کو صوبائی وزیر اقلیتی امور اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے خصوصی مشیر برائے اقلیتی امور سردار سوران سنگھ کی موجودگی میں کمیونٹی کے حوالے کیا۔
صدیق الفاروق نے نیوز لینزپاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ تقریباً سات دھائیوں تک بند رہنے والے گوردوارے کو ازسرِ نو کھولا جانا مختلف مذاہب کے پیروکاروں میںپیدا ہونے والی مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘
پشاور کے ہشت نگری بازار کی قدیم سکھ آبادی جوگی وارہ محلہ میں قائم یہ گوردارہ عظیم سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ نے تعمیر کروایا تھا۔ وہ برصغیر میں سکھ سلطنت کے بانی تھے ، رنجیت سنگھ نے لاہورپر تقریباً50برسوں ،1799ء سے 1849ئ،تک حکومت کی۔ پنجاب سے سکھ اقتدار اس وقت ختم ہوا جب 1849ء میں برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے اس کا انڈیا کے ساتھ الحاق کردیا۔
پشاور کی سکھ کمیونٹی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد سے پشار میں آباد ہے جن کی سلطنت میں صوبہ خیبر پختونخوا بھی شامل تھا۔
منموہن سنگھ نے کہا کہ وہ اس عمارت میں ارداس (روحانی دعائوں) اور گورو گرنتھ ، سکھوں کی مذہبی کتاب، کی تلاوت پر خوشی ہیںجو گزشتہ کئی دہائیوں سے خالی پڑا تھا۔
انہوں نے کہا:’’ میں اس بات پر خوش ہوں گا اگر یہ تاریخی عمارت صرف گوردوارے کے طور پر ہی استعمال نہ ہو بلکہ سکھ اور غیر سکھ خواتین کے لیے پیشہ ورانہ تربیت کے مرکز کے طور پر استعمال ہو جیسا کہ یہ ماضی میں ہوا کرتا تھا۔‘‘
82برس کی خاتون شفقت آرا 1954ء سے گوردوارے میں رہائش پذیرہیں۔ انہوں نے ای ٹی پی بی سے ایک چھوٹا سا کمرہ کرایے پر لیا تھا اور وہ ان تمام برسوں کے دوران گوردوارے کی عمارت کی دیکھ بھال کرتی رہی ہیں۔ شفقت آرا صوبے میں قائم ہونے والے پیشہ ورانہ تربیت کے محکمے کی اولین سربراہ تھیں جس نے ان کی ملازمت کے دوران لڑکیوںـ کے 14تربیتی سکول قائم کیے تھے۔
شفقت آرا نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ مجھے خوشی ہے کہ اس گوردوارے کوسکھ کمیونٹی کے لیے کھولا جاچکا ہے۔ یہاں ایک بار پھر رونق ہوگی اور میں مزید تنہا نہیں رہوں گی۔‘‘
اقلیتوں کے نمائندہ صوبائی وزیر سوران سنگھ نے کہا کہ وہ ایک سکھ کی حیثیت سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے شکرگزار ہیں جنہوں نے گوردوارے کو بحال کرنے کے لیے کوششیں کیں۔
سوران سنگھ نے کہا:’’ آج قائد آعظم محمد علی جناح کا اس ملک کو اقلیتوں کے لیے محفوظ بنانے کا خواب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔‘‘
گوردوارے کے سامنے کتابوں کے دکاندار محمد علی نے اس مقام کے تحفظ کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیاکہ گوردوارے کو ازسرِ نو کھولے جانے سے علاقے میں ’’ سکیورٹی کے مسائل‘‘ پیدا نہیں ہوں گے۔
محمد علی نے مزید کہا:’’ میری گوردوارے کو کھولے جانے سے متعلق پریشانی کی واحد وجہ سکیورٹی سے متعلق ہے۔‘‘
پاکستان میں اقلیتوں پر دہشت گرد اور پُرتشدد حملے عام ہیں۔ اس نوعیت کا آخری حملہ 27مارچ 2016ء کو ہوا جب ایک خود کش بمبار نے لاہور کے ایک پارک میں خود کو اُڑا لیا تھا‘ دہشت گردی کے اس واقعہ میں 72افراد جاں بحق ہوئے جن میں 26بچے بھی شامل تھے۔اس بم دھماکے کا مقصد ایسٹر کی خوشیاں منانے میں مصروف مسیحیوں کو نشانہ بنانا تھا۔
پاکستانی فوج نے اس دہشت گرد حملے کے بعد پنجاب میں اُن عسکریت پسندوں اور طالبان کے خلاف کارروائی شروع کی جنہوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔