حکومت کے گڈگورننس کے دعوئوں کا پول کھُل گیا… آئی پی پیز کوآڈٹ کے بغیر ہی 480ارب روپے کی ادائیگی

0
1866
Ministry-of-Finance, Islamabad-office : Photo by News Lens Pakistan
Ministry-of-Finance, Islamabad-office : Photo by News Lens Pakistan
Finance-Ministry-paid-Rs-480-b-2
Finance-Ministry-paid-Rs-480-b-2
Finance-Ministry-paid-Rs-480-b
Finance-Ministry-paid-Rs-480-b
Audit-Finding-Executive-Summary-Finance-Ministry-paid-Rs-480-b
Audit-Finding-Executive-Summary-Finance-Ministry-paid-Rs-480-b

لاہور ( سمیرا ریاض سے) اس حقیقت میں شک و شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ پاکستان توانائی کے بحران کا سامنا کر رہا ہے اور گزشتہ حکومتوں کی ناکامیوں، بُری طرزِ حکمرانی اور کرپشن کے باعث لوگ اس عفریت سے اب تک جان نہیں چھڑا سکے ۔ نیوز لینز پاکستان کو دستیاب ہونے والی دستاویزات سے یہ منکشف ہواہے کہ وہ لاعلم ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی برسرِاقتدار حکومت کسی بھی قسم کے آڈٹ اور مناسب دستاویری کارروائی کیے بغیرعوام کے ٹیکسوں سے ہی حاصل ہونے والے 480ارب روپے توانائی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ادا کرچکی ہے۔
سابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان بلند اختر رانا کی جانب سے 2014ء میں تیار کی گئی آڈٹ رپورٹ میںاعتراض کیا گیا تھا کہ حکومت انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) اور آئل کمپنیوں، جیسا کہ پاکستان سٹیٹ آئل، کو ادائیگی کے متعین ضابطۂ عمل کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رقوم کی ادائیگی کرچکی ہے ۔ رپورٹ میں ان چند پریشان کن تفصیلات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جن میں آئی پی پیز کو رقوم کی ادائیگی میں مبینہ نااہلی کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ حکومت نے پی پی آر اے ( پبلک پروکیورمنٹ ریگولیریٹی اتھارٹی) کے ضابطوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کسی بھی قسم کے آڈٹ کے بغیر آئی پی پیز کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کے ذریعے 480ارب روپے کی ادائیگی کی۔
سابق اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیو طاہر محمود ، جنہوں نے اس رپورٹ کو تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا، نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئی پی پیز کی جانب سے ارسال کی جانے والی فوٹو کاپیوں کی بنا پر اخراجات، ایکسٹرا سرچارج اور واجب الادا رقوم ادا کی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ آئی پی پیز کو 190ارب روپے جرمانے جب کہ 18ارب روپے بوگس فوٹوکاپیوں کی بنا پراضافی ادا کیے گئے۔‘‘
 طاہر محمود نے کہا کہ انہوں نے اس بڑے پیمانے پرہونے والی بے ضابطگیوں کے معاملے پر وزیرخزانہ اسحاق ڈار سے جون 2013ء میں بات کی تھی۔ طاہر محمود نے مزید کہا:’’وزیرخزانہ نے وعدہ کیا کہ وہ بجٹ کے بعد اس معاملے کا جائزہ لیں گے لیکن انہوں نے اس قدر بڑی جعلسازی کو یکسر نظرانداز کر دیا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا:’’ بعدازاں سٹیٹ بنک آف پاکستان کو ہدایت کی گئی کہ وہ آئی پی پیز کووفاقی خزانے سے 480ارب روپے ادا کردے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ سی جے آرڈیننس 5Bکے تحت اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی تمام ادائیگیوں کا قبل از وقت آڈٹ کرے۔
طاہر محمود نے کہا:’’ میں نے اس وقت سٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر اشرف واتھرا کو خط لکھا جس میں یہ حوالہ دیا کہ قومی خزانے سے رقوم کی ادائیگی اس وقت تک نہیں کی جاسکتی جب تک آڈیٹر جنرل آف پاکستان اس کا آڈٹ نہ کرلیں۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر نے اس بارے میں اس وقت کے آڈیٹر جنرل آف پاکستان بلند اختر رانا سے وضاحت طلب کی جنہوں نے، ظاہر ہے، کہ میری تشویش اور اقدامات کی توثیق کی۔ بعدازاں آڈیٹر جنرل نے سٹیٹ بنک آف پاکستان کے ذریعے آئی پی پیز کو ادا کی گئی رقوم کی ادائیگی کے تفصیلی آڈٹ کرنے کے احکامات جاری کیے۔
طاہر محمود نے مزید انکشاف کیا کہ یہ تمام ادائیگیاں وزیرِ خزانہ اسحق ڈار کی اجازت سے کی گئیں جب کہ اسد امین کی جانب سے کوئی اعتراض نہیں کیا گیا جو اِس وقت آڈیٹر جنرل آف پاکستان ہیں۔
یہ بھی منکشف ہوا ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کی متعدد شقوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ معاہدے کے تحت حکومت کی جانب سے آئی پی پیز کو 28روز میں رقوم کی ادائیگی کی جانی تھی لیکن اس میں اس بنا پر تاخیر کی گئی تاکہ جرمانے کی شق عاید ہو جائے۔ تاہم آئی پی پیز پر جرمانہ عاید نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کیوں کہ بجلی کی بلا تعطل فراہمی کی شرط ختم کر دی گئی تھی۔
انہوں نے وثوق سے کہا:’’آئی پی پیز کی جانب سے ہرجانے کی مد میں واجب الادا 22.9ارب روپے معاف کردیے گئے لیکن آئی پی پیز پر بجلی کی بلا تعطل فراہمی یقینی نہ بنائے جانے پر 23ارب جرمانہ وصول کرنے کی بجائے آئی پی پیز کو دائیگیوں میں تاخیر کے عذر پر 32ارب روپے ادا کر دیے گئے۔‘‘
سابق آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کو عہدے سے ہٹائے کی وجہ ہی یہ تھی کہ انہوں نے اس بڑے پیمانے پر ہونے والی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں نے یہ معاملہ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں بھی اٹھایا لیکن اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کو منظرعام پر لانے کی میری کوششوں کی کوئی ستائش نہیں کی گئی جس سے قومی خزانے کو غیر معمولی نقصان ہوا بلکہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین خورشید شاہ کی جانب سے میری بے عزتی تک کی گئی۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ مجھے میرے عہدے سے صرف اس لیے ہٹایا گیا کیوں کہ تمام ذمہ دار محکمے اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ میَں کسی قیمت پر اس رپورٹ کو جاری ہونے سے نہیں روکوں گا۔‘‘
بلند اختر رانا کے دعویٰ کی تصدیق کرتے ہوئے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سابق چیئرمین ندیم افضل چن نے تسلیم کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی سابق اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کے عمل میں شامل رہی ہے کیوں کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کی بے ضابطگیوں کے بہت سے کیس کھول دیئے تھے۔
مئی 2015ء میں وزارتِ خزانہ کی جانب سے ایک نوٹیفیکیشن جاری ہوا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی رپورٹ کے پیشِ نظر بلند اختر رانا نے بہت سے مواقع پر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نظرانداز کیا ہے جس کے باعث ان کو آڈیٹر جنرل کے عہدے سے ہٹایاجاتا ہے۔
بلند اختر رانا کو عہدے سے ہٹائے جانے کا معاملہ اس بنا پر متنازعہ بن گیا کیوں کہ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب پبلک اکائونٹس کمیٹی حکومت کی آڈٹ رپورٹوں کا جائزہ لے رہی تھی جو اربوں روپے کے غلط استعمال اور مبینہ معاشی بے ضابطگیوں سے متعلق تھیں۔
22اکتوبر 2015ء کو آڈیٹر جنرل آف پاکستان اسد امین نے ایک خط لکھاجس میں انہوں نے کہا کہ وہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں مذکورہ رپورٹ کے ساتھ خود پیش ہوں گے۔
اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان اسد امین نے ایسی رپورٹ کی موجودگی کی تصدیق کی لیکن دعویٰ کیا کہ آئی پی پیز کو ادا کیے جانے والے 480ارب روپے کی ادائیگی کے پیرازکا پہلے سے ہی آڈٹ کیا جاچکا ہے۔
مذکورہ خط میں مزید کہا گیا کہ 480ارب کی ادائیگیوں کے پیرازحذف کیے جاچکے ہیںکیوں کہ وہ آڈٹ کیے جاچکے تھے جب کہ چندمزید پیراز میں موجود خامیوں کو درست کرلیا گیا ہے۔ اس دوران خط میں یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ ڈرافٹ رپورٹ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں پیش کی جائے گی۔
تاہم بلند اختر رانا ، اسد امین کے اس دعویٰ کو قطعی طو رپر بے بنیاد قرار دیتے ہیں کہ 480ارب روپے کی ادائیگی کا پہلے سے ہی آڈٹ کیا جاچکا ہے۔ وہ اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور کہتے ہیں:’’ یہ دعویٰ قطعی طور پر درست نہیں ہے، میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آئی پی پیز کو کی گئی 480ارب روپے کی ادائیگیوں کا کوئی آڈٹ نہیں کیا گیا۔‘‘
سینئر تجزیہ کار عامر متین نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزارتِ خزانہ نے وزارتِ پانی و بجلی کی ملی بھگت سے بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں کی ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈارکے خلاف آئین کی شق چھ کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے کیوں کہ ان کا یہ اقدام غداری کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ آئی پی پیز اور آئل کمپنیوں کو حکومت نے گردشی قرضہ ختم کرنے اور اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے فائدہ پہنچایا۔
عامر متین نے کہا: ’’آبزرویشن ہمیشہ آغاز ہوتی ہے جس کے بعد اطراف کے ارکان پبلک اکائونٹس کمیٹی میں پیش ہوتے ہیں، آڈٹ پارٹی اور متعلقہ محکمہ اجلاس کرتا ہے اور ہر پیرا زیرِبحث لایا جاتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ڈرافٹ کوپی اے سی میں کبھی زیرِبحث نہیں لایا گیاجس میں قانونی پہلوئوں کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ اس اعتراض کا جائزہ لینا پبلک اکائونٹس کمیٹی کے دائرہ کار میں آتا ہے یا نہیں۔
 محکمۂ پانی و بجلی کے ترجمان سے جب اس حوالے سے معلومات حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کوئی بھی رائے دینے سے اجتناب برتا اور کہا کہ ادائیگیوں کے پیرے کا پہلے ہی آڈٹ کیا جاچکا ہے اور اب یہ معاملہ ختم ہوچکا ہے۔
عامر متین نے کہا کہ اس سارے معاملے میں ذاتی مفادات نمایاں نظر آتے ہیں۔ موجودہ آڈیٹر جنرل رپورٹ پیش کرنے میں کس طرح غیر جانبدار ہوسکتے ہیں جب وہ خود اس قدربڑے پیمانے پر ہونے والی مالی بدعنوانی کا حصہ رہے ہیں کیوں کہ اُس وقت وہ وزارتِ خزانہ کے مشیر تھے؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here