بجلی کے بلوں میں اضافہ نہ رُک سکا، صارفین میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی

0
2860
: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzai
A view of the Nasty cables of the electricNasty Cables, Electric, Human Right Matiullah Achakzai Copyright © News Lens Pakistan

لاہور (سمیرا علی سے) بجلی کے صارفین کو اس وقت ایک اور برقی دھچکا لگاہے جب نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ حکومت نے پہلے سے ہی دبائو کا شکار ٹیکس دہندگان پر سرچارج اور ایڈیشنل سرچارج کی مد میں اضافی معاشی بوجھ ڈالا ہے جس سے حکومت کا گڈ گورننس پر مبنی پالیسیوں کا ایک اور دعویٰ غلط ثابت ہوا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 70فی صد صارفین کے گھروں میں نصب بجلی کی قیمتوں کا تعین کرنے والے میٹر درست طور پر کام نہیں کر رہے اور ناکارہ ہوچکے ہیںجس کے باعث بہت سے صارفین کوبجلی کی وہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جب یا تو اس کا استعمال انتہائی کم ہورہا ہوتا ہے یا جب مناسب مقدار میں استعمال ہورہی ہوتی ہے۔ بجلی کی تاریں اور کھمبے بھی غیر معیاری ہیں جو بجلی کے تعطل میں اضافے کی ایک اور اہم وجہ ہیں جس کے باعث بجلی کی فراہمی کا وہ معیار نہیں ہے جو کہ ہونا چاہیے۔
نیپرا اور وزارتِ پانی و بجلی میں اب بجلی کی بلاتعطل فراہمی کے علاوہ بجلی کے بلوں میں اضافے اور زیادہ بل وصول کرنے کے معاملے پر سرد جنگ شروع ہوچکی ہے۔
اطراف سے الزامات کی اس دو طرفہ جنگ کا آغاز اس وقت ہوا جب نیپرا نے اپنی پرفارمنگ سٹینڈرڈز (ڈسٹری بیوشن) رولز( پی ایس ڈی آر) -رپورٹ برائے 2014-15ء جاری کی۔ رپورٹ میں تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے معیارات ظاہر کیے گئے ہیں‘ رپورٹ کے مطابق یہ کمپنیاں اپنی مکمل اہلیت کے مطابق کام نہیں کررہیں جس کے باعث غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ مشاہدہ بھی کیا گیا کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اور کے الیکٹرک پرفارمنس سٹینڈرڈز (ڈسٹری بیوشن) کے رول 5کو اہمیت نہیں دے رہی۔ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی اکثریت کی جانب سے مسائل اس لیے پیدا ہورہے ہیں کیوں کہ وہ قابلِ اعتماد معیار پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہیں۔
وزارتِ پانی و بجلی کے ڈپٹی سیکرٹری زریاب خان نے نیو زلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ رپورٹ نامکمل ہے اور جامع رپورٹ فی الحال حکام کو ارسال کی جانی ہے۔ ان کا کہنا تھا:’’ میں ایک نامکمل رپورٹ کے اجرا کے پس پردہ ومحرکات کا ادراک کرنے میں ناکام رہا ہوں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا: ’’مذکورہ رپورٹ سے صرف سات ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی کارکردگی ظاہر ہوتی ہے جب کہ اس وقت ملک میں 10ڈسٹری بیوشن کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔نیپرا کی ٹیموں کی جانب سے جن ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا دورہ کیا گیا ‘ ان میں اسلام آباد (آئیسکو)، فیصل آباد (فیسکو) اور قبائلی علاقوں کی ڈسٹری بیوشن کمپنی (ٹیسکو)شامل نہیں ہے۔
 زریاب خان نے دن کے مختلف اوقات میں بجلی کے ریٹ متعین کرنے والے ٹی او آر میٹرز کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ سہولت مجموعی آبادی کے صرف تین اعشاریہ سات فی صد حصے کو حاصل ہے جیسا کہ آئیسکو اور فیسکو کے صارفین ہی یہ میٹر استعمال کر رہے ہیں۔
کے الیکٹرک سے بات کرتے ہوئے نیوز لینز پاکستان کے ترجمان اسامہ قریشی نے بھی نیپرا کی رپورٹ کو رَد کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ کے الیکٹرک ہمیشہ اپنی کارکردگی رپورٹ جمع کروانے کے حوالے سے مستعد رہی ہے۔
انہوں نے کھمبوں کی ناگفتہ بہ صورتِ حال کے باعث بجلی کے تعطل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کے الیکٹرک 65سو مربع کلومیٹر کے علاقے میں بجلی فراہم کرتی ہے اور کھمبوں کی مرمت کے ضمن میں پیشہ ورانہ کوتاہی کے حوالے سے کسی بھی قسم کی نرمی نہ برتنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا:’’ نیپرا نے کراچی میں ہونے والے سروے کے کوئی نمونے ارسال نہیں کیے۔‘‘ انہوں نے اس دعوے کو بھی رَد کیا کہ کے الیکٹرک مجموعی پیداواری صلاحیت سے کم67.5فی صد بجلی پیدا کر رہی ہے۔
اسامہ قریشی کا کہنا تھاکہ کے الیکٹرک دستیاب اہلیت کے مطابق بجلی پیدا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا:’’ ہم اگلے چند ہفتوں میں نیپرا کی رپورٹ پر اپنا ردِعمل ظاہر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘
انہوں نے نیپرا کے صارفین سے زائد بلوں کی وصولی کی تردید بھی کی۔
نیپرا کی رپورٹ کے مطابق انجینئرز پر مشتمل ایک دو رُکنی ٹیم ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے متعین کردہ معیار کا جائزہ لینے کے لیے بھیج دی گئی ہے۔ گھریلو، کاروباری اور صنعتی بی ٹو صارفین متعین کی گئی حد سے زیادہ بجلی استعمال کر رہے ہیں۔
دو بڑے ہاتھی بُری طرزِ حکمرانی کی وجہ سے ایک دوسرے کے خلاف دست و گریباں ہیں‘ صارفین ہی وہ بدبخت مخلوق ہے جو زیادہ بل ادا کرکے اور شفاف نظام نہ ہونے کے باعث بڑے پیمانے پر معاشی نقصان برداشت کر رہے ہیں۔
 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here