تقسیمِ ہندکے باعث بچھڑنے والے خاندان‘ ملاقات ایک خواب بن کر رہ گئی

0
1535
: Photo By News Lens Pakistan / Amar Guriro
A woman in Ther Desert : Photo By News Lens Pakistan / Amar Guriro

عمر کوٹ( اللہ بخش آریسر سے) تقسیم کے المیے کو برسوںبیت چکے جب کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ کئی دہائیوں سے حالات عدم استحکام کا شکار رہے ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان صحرائے تھرمیں طویل سرحد بھی اطراف میں بسنے والے تقسیم شدہ خاندانوں کے مابین محبت اور خلوص کو مٹانے میں ناکام رہی ہے۔وہ ایک دوسرے سے ملاقات کے لیے بے چین ہیں لیکن سخت قوانین اور انڈین حکومت کی جانب سے سرحدی اضلاع میں جانے پرپابندی اور غربت کے باعث ان کی اس خواہش کے پورا ہونے کاکوئی امکان باقی نہیں رہا۔
سندھ اور راجستھان کے صوبوں میں بسنے والی آبادی کی ایک دوسرے سے قریبی رشتے داری ہے۔ بہت سوں کا تواپنے پیاروں کوایک بار دیکھنے اور آپس میں رشتہ داریاں کرنے کا خواب بھی تشنہ رہ گیا‘ وہ ایک دوسرے کی شادی بیاہ کی تقریبات اور آخری رسومات میں بھی شرکت نہ کرسکے۔
عمر کوٹ کے ایک محنت کش کی اہلیہ مان بائی کے مطابق اس کی شادی صرف 15برس کی عمر میں کر دی گئی تھی اور اب وہ 51برس کی ہیں۔ وہ شادی کے فوراً بعد پاکستان آگئیں جس کے بعد وہ کبھی اپنے والدین سے دوبارہ نہیں مل سکیں۔ وہ بچوں کی پیدائش، اپنے پیاروں کی وفات اور خوشیوں میں شریک تک نہیں ہو پائیں۔ انہوں نے مزید کہا:’’15برس قبل جب بھی کبھی کوئی واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارت جاتا تو وہ آڈیو کیسٹ پراپنا پیغام ریکارڈ کرکے سرحد کے اس پارارسال کر دیا کرتیں جس کے جواب میں کئی ماہ بعد خط موصول ہوتا۔‘‘
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میَں سماجی میڈیا کی ترقی کی شکر گزار ہوں کیوں کہ اب میرا بیٹا مجھے رشتہ داروں کی تصاویر و ویڈیوز دکھا سکتا ہے اور ان سے واٹس ایپ پر بات کروا سکتا ہے لیکن میَں ان سے ملاقات کرنے سے قاصر ہوں کیوں کہ میرا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے اور میرے خاوند محنت کش ہیں۔‘‘
اگرچہ کھوکھرا پار مونابائو ٹرین سروس شروع کی گئی تھی لیکن بھارت کے چار سرحدی شہروں، جن میں بارمر،بھوج،جیسلمیر اور پالن پور شامل ہیں، میں پیرائو کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور مان بائی کے رشتہ داران اضلاع میں ہی رہتے ہیں۔ وہ اپنے پیاروں سے جیون میں ایک بار ملاقات کرنے کی خواہاں ہیں جو قریب ہوتے ہوئے بھی دور ہیں۔
عمر کوٹ کی رہائشی ایک اور خاتون امنات کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں ہے ۔اس کی شادی 15برس کی عمر میں ہوئی جس کے بعد اس کا خاوند اسے پاکستان لے آیا۔اس وقت وہ 60برس کی ہیں۔ان کے خاوند کی 23برس قبل وفات ہوگئی تھی۔ انہوں نے کہا:’’ میرے والد عبدالکریم نے بھی راجستھان سے عمر کوٹ ہجرت کی تھی۔ ‘‘ اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک تو یہ تھی کہ ان کی بیٹی سندھ میں رہتی تھی۔ ان کے والد نے اسے پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی خونیں جنگوں کی داستانیں سنائیں اور کہا کہ بھارتی فوج نے سرحدی علاقوںکے مسلمانوں کو نہ صرف لوٹا اور ہراساں کیا بلکہ ان کا قتلِ عام بھی کیا جس کے باعث انہوں نے اس اذیت سے بچنے کے لیے مسلمان ملک پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے یادوںکے دریچوں میں جھانکتے ہوئے کہا کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران بہت سے سرحدی دیہات خالی کروا لیے گئے تھے۔ ایک سرحدی گائوں کپٹرائو میں بھارتی فوج نے چار افراد کو اس الزام پر قتل کر دیا کہ وہ خفیہ طو رپر پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔
ایک معروف مصنف ارباب نیک محمد نے نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 24اکتوبر 2013ء کوضلع بارمر کے گائوں امیانی کارہائشی 50برس کا ایک بھارتی شہری أبوبکر سرحد عبورکرکے قریبی گائوں گدھروآگیا۔ اس سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ اس نے گرفتاری یا زخمی ہونے کے خوف کے باوجود کس طرح خاردار تاروں کو پھلانگا تو اس نے جواب دیاکہ اس کا اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کی خواہش پر قابو نہیں رہا تھا جو اس کے گائوں سے کچھ ہی فاصلے پر رہتے ہیںاور اس کے پاس یہ سفر کرنے کے لیے کرایے تک کی رقم نہیں تھی جس کے باعث وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوا۔
مان بائی کے والد محمد سلیم کے مطابق (جن کی صاحب زادی عمر کوٹ میں رہتی ہیں) ، وہ ایک بھارتی گائوں مٹے کاٹلہاضلع بارمر کے رہائشی ہیں‘ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے فون پر اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے کہاکہ جب خاندان کا کوئی رُکن چل بستا ہے تو وہ اپنے دماغ کو یہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ اب اس دنیا میں مزید نہیں رہا لیکن اپنی اولاد کوبھولناآسان نہیں ہے جو زندہ اور صحت مند ہولیکن جنہیں سرحد پر لگی خار دار تاروں اور فاصلے نے ایک دوسرے سے دور کر رکھا ہو۔
انسانی حقوق کے کارکن اور غیر سرکاری تنظیم رائٹس آف ایکسپریشن ، اسمبلی ایسوسی ایشن اینڈ ٹھاٹ (REAT)کے سربراہ کرشن شرمانے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ تقسیم کے برسوں بعد اور پاکستان و انڈیا کے درمیان کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان موجود سرحد صحرائے تھر کے اطراف میں بسنے والے خاندانوں کو الگ نہیں کرسکی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یہ انسانی تاریخ کی ایک بہت بڑی ہجرت تھی جب لاکھوں ہندوئوں (تاجروں)، سکھوں اور جین مت کے پیروکاروں نے انڈیا ہجرت کی۔ سندھ اور راجستھان کے درمیان سرحد نے ان خاندانوں کو تقسیم کردیا جس کے باعث ان کو سماجی، ثقافتی اور تاریخی جبر کا شکار ہونا پڑا۔
کرشن شرما نے مزید کہا کہ یہ اَمرباعثِ حیرت اور باعثِ تشویش بھی ہے کہ ان لوگوں کے لیے دو کلومیٹر کا فاصلہ اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کرنے کے لیے دو سو کلومیٹر پر طویل ہوجاتا ہے کیوں کہ سرحد پرخاردار تاریں نصب ہیں۔ مشرف دورِ اقتدار کے دوران کھوکھرا پار ٹرین روٹ کھولا گیا اوریوں ہزاروں خاندان اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کرنے کے قابل ہوگئے۔پاکستانی ہندوئوں کے مقدس مقامات (تیرتھ یاترا) بھارت میں ہیں جس کے باعث ان کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی میںمشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تجزیہ کاریہ یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین پائی جانے والی غلط فہمیوں کے باعث سرحد کے اطراف میں بسنے والے لاکھوں لوگوں میں تذبذب اور خوف پیدا ہوا ہے۔ تقسیم نے تھر،عمر کوٹ، بدین، سانگھڑ، رحیم یار خان اور بہاولپور کے عوام کودو مختلف ملکوں کا شہری بنا دیا۔ تجارت اور عوام کے لیے آمدو رفت پر پابندی ختم کرنے سے نہ صرف راجستھان اور گجرات بلکہ دیگر علاقوں پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی اس سے تھر (سندھ) اور راجستھان (بھارت)کے عوام کے لیے معاشی مواقع کے نئے در وا ہوسکتے ہیں۔
ایک سماجی کارکن عبدالحکیم سومرو کے مطابق سرحد کے اطراف میں مختلف میلے ٹھیلے لگتے ہیں۔ وہ مذہبی تہوار جیسا کہ دیوالی اور عید مناتے ہیں اور خوشی کے مواقع جیسا کہ شادی بیاہ اور سالگرہ کی تقاریب کے علاوہ دکھ و رنج کے لمحات جیسا کہ وفات وغیرہ کی رسومات ادا کرتے ہیں۔یہ ان خاندانوں کی بدقسمتی ہی ہے کہ اس تقسیم کی وجہ سے یہ اپنے پیاروں کی خوشیاں اوردُکھ و غم کے لمحات ایک ساتھ نہیں مناسکتے۔ 1971ء کی جنگ کے دوران میر پور خاص ڈویژن کے لوگ انڈیا کی جانب ہجرت کر گئے تھے ‘ وہ اپنی جائیداد چھوڑ گئے جو اب دشمن کی جائیداد کے طور پر جانی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ ہم ان کے اپنے عزیزوں کے لیے جذبات ، ان کے سپنوں، تقسیم سے پیدا ہونے والی افراتفری اور ان کے نقصان کو کسی آلہ پیما سے نہیں ناپ سکتے۔‘‘ عبدالحکیم سومرو کا کہناتھاکہ کے صحرا کے لوگ مٹی کے ٹیلوں پر رہتے ہیں جہاں سرحد نے ان کو نہ صرف طبعی طورپر بلکہ ثقافتی اور سماجی طور پر بھی تقسیم کر دیا ہے۔ کوئی سرحد بھی ان خاندانوں کو جدا نہیں کرسکتی۔ وہ ڈھولک کی تھاپ پر مسحور ہوسکتے ہیں اور شادی پر گائے جانے والے شادمانی کے گیت سن سکتے ہیں لیکن تقریبات میں شریک نہیں ہوسکتے۔ وہ مساجد میں لائوڈ سپیکر کے ذریعے وفات کا اعلان کرتے ہیں تاکہ اپنے رشتہ داروں کو آگاہ کرسکیں کیوں کہ سرحد کے باعث وہ بہ ظاہر ایک دوسرے سے الگ ہوچکے ہیں۔
فروغ امن کے لیے سرگرم کارکن بینا سرور نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کے حکومتوں اور عسکری ہیئتِ مقتدرہ کے حوالے سے تحفظات ہوں لیکن اس کے باوجود وہ ’’سرحد کے اس پار‘‘ کے حوالے سے بہت زیادہ پرجوش ہیں اور خاص طو رپر نوجوان بھارت جانا چاہتے ہیں تاکہ وہاں کے کھانوں، ثقافت اور موسیقی سے روشناس ہوسکیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک نے ایسی ویزا پالیسی تشکیل دے رکھی ہے کہ لوگوں کے لیے سرحد کے اس پار جانا ممکن نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ تصور بھی نہیں کرسکتیں کہ دنیا کے دیگر پڑوسی ملکوں میں بھی اس طرح کا رویہ روا رکھا جاتا ہے…جیسا کہ مختلف شہروں کے سفر پر پابندیاں، ایک دوسرے کے ملک میں داخل ہونے اور واپس آنے کے مخصوص مقامات، پولیس میں رپورٹ درج کرواناوغیرہ شامل ہیں اور یہ تمام اقدامات دونوں ممالک کے درمیان آمدورفت کو روکنے کے لیے کئے گئے ہیں۔

 

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here