کوئٹہ (عبدالمالک اچکزئی سے) بلوچستان میں لہلہاتے زیتون کے جنگلات کے معدوم ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے کیوں کہ مقامی آبادی زیتون کی لکڑی کا استعمال ایندھن، گھروں کی تعمیر اور مویشیوں کے چارے کے لیے کررہی ہے۔
زیتون کے قدرتی جنگلات کا شمار غیر مرطوب خشک جنگلات میں ہوتا ہے جوسطؤ سمندر سے 450سے 15سو میٹر تک کی بلندی پرپائے جاتے ہیں اور ان علاقوں میں لہلہاتے نظر آتے ہیں جہاں بارش موسمِ سرما اور موسمِ گرما کے دوران مجموعی طور پر250سے 750ملی میٹر تک برستی ہے۔ بلندی اور اترائی کے علاقوں میں زیتون کے جنگلات مختلف اقسام سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق بلوچستان میں صوبے کے 0.2فی صد رقبے پر زیتون کے جنگلات پائے جاتے ہیں جن میں سے 80فی صد مقامی آبادی اور 20فی صد حکومت کی ملکیت ہیں۔ موسمیاتی اعتبار سے یہ جنگلات ان علاقوں میں ہیں جو مون سون رینج کی حدود میں آتے ہیں جہاں سالانہ اوسطاً 250سے 750ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔
قانون دان اورضلع ژوب کے باسی سلام خان مندوخیل نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان علاقوں کے لوگ غریب ہیں اور ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی متبادل ذریعہ نہیں کہ وہ زیتون کی لکڑی جلا کر خود کو موسم کی شدت سے محفوظ رکھ سکیں اور نہ ہی مویشیوں کو چارہ کھلانے کے لیے ان جنگلات کے علاوہ کوئی اور ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا:’’ ضلع کی مقامی آبادی نے حلف اٹھایا تھا کہ وہ درختوں کی کٹائی نہیں کریں گے لیکن وقت گزرا اور معاشی دباؤ بڑھاتو علاقے کی انتہائی غریب آبادی نے لکڑی کاٹ کر محفوظ کرنا شروع کر دی تاکہ سرد موسم میں خود کو گرم رکھ سکیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اہل کار یا تو غیر حاضر ہوتے ہیں یا ان کا تعلق مقامی آبادی سے ہے جس کے باعث وہ ’’جنگلات کی کٹائی‘‘ کے عمل میں مداخلت نہیں کرتے اور اگر وہ ایسا کریں توان کا یہ اقدام قبائلی تصادم کی وجہ بن سکتا ہے۔
ژوب ڈویژن کے ڈپٹی چیف کنزرویٹر علی عمران نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ یہ جنگلات اپنی متنوع خصوصیات کے باعث مقامی آبادی کے لیے انتہائی اہم ہیں کیوں کہ ان سے اُن کی بہت سی ضروریات پوری ہوتی ہیں ( مویشیوں کے لیے چارے اور جلانے کے لیے لکڑی کی فراہمی وغیرہ)، حفاظتی نقطۂ نظر سے بھی ان کاکردار اہم ہے( جیسا کہ ماحولیات ، حیاتیاتی تنوع اور زمینی کٹاؤ کی حفاظت) یا زیتون کے یہ جنگلات توازن قائم رکھنے کے حوالے سے بھی انتہائی اہم ہیں ( جیسا کہ بارشی پانی کے دریا یا جھیل تک بہاؤ میں توازن قائم رکھنا) ،‘‘
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ یہ ایک المیہ ہی ہے کہ ہم صرف ان چیزوں کو دیکھتے ہیں جو نظروں کے سامنے ہوتی ہیں جب کہ دیگر عوامل کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ زیتون کے جنگلات کی افادیت بڑھانے کے لیے ماحولیات پر انسانی اثرات (ایندھن کے حصول کے لیے درختوں کا کٹاؤ یا مویشیوں کے چارے کے لیے جنگلات پر غیر معمولی انحصار)کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جس کے لیے عوام میں یہ شعور بیدار کرنا ناگزیرہے کہ وہ ان جنگلات سے اپنی ضروریات تو پوری کریں لیکن ان کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔‘‘
ماحولیات پر انسانی اثرات کو پیشِ نظر رکھاجائے تو مقامی آبادی کے لیے زیتون کے یہ درخت ایندھن کی ضرورت پورا کرنے، چارہ کاٹنے اور مویشیوں کے لیے چراگاہ کا کام دیتے ہیں۔ اس کا بیج نہ صرف مفید بلکہ کھانے کے قابل بھی ہوتا ہے جس کا مقامی طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اگرچہ فطری طور پر زیتون کے ان درختوں کی افزائش کی رفتار غیرمعمولی ہے لیکن یہ عمل ان جنگلات کے بڑے پیمانے پرمویشیوں کے لیے چراگاہ کے طور پر استعمال ہونے کے باعث متاثر ہوا ہے۔
علی عمران نے کہا:’’ ماضی میں جنگلی زیتون اور قابلِ کاشت یورپی زیتون سے ایک نئی نسل پیدا کرنے کی کچھ کوششیں کی جاچکی ہیں لیکن میرے اور تکنیکی کمیونٹی کے خیال میں ایسا کرنا نہ صرف موزوں نہیں تھابلکہ ممکن بھی نہیں تھا کیوں کہ ایک جانب تو یہ حیاتیاتی تنوع میں تبدیلی کا باعث ہوتا تو دوسری جانب اس کی اس قدر افزائش نہ ہوتی کیوں کہ یورپی زیتون کو باقاعدہ کاشت کیا جاتا ہے۔‘‘
ضلع ژوب کے ایک نواحی گاؤں کے رہائشی شریف الدین نے نیوز لینز پاکستان سے با ت کرتے ہوئے کہا کہ تین یا چار دہائیاں قبل اس علاقے میں ہر جانب زیتون کے جنگلات لہلہاتے تھے، جب آبادی میں اضافہ ہوا اور آلات کا استعمال ہونے لگا تو ہر لہلہاتادرخت، جن میں جنگلی زیتون بھی شامل ہے، کاٹ دیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا:’’ میَں آگاہ ہوں کہ جنگلات کی کٹائی سے مستقبل قریب میں موسم اور ماحول پر اثرات مرتب ہوں گے لیکن میَں کیا کرسکتا ہوں‘ بزرگوں نے ہمیشہ یہ نصیحت کی کہ اپنے رشتہ داروں کے مقابلے میں زیاددہ سے زیادہ درخت کاٹو۔ اس وقت ان جنگلات کی موجودگی کی اہمیت کا کوئی ادراک نہیں تھا، قبائلی تنازعات اور برادریوں کے مابین مسابقت بازی کی فضا زیتون کے جنگلات کی بقاء کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔‘‘
آئی یو سی این بلوچستان شاخ کے پروگرام منیجر فیض کاکڑ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ اگرحکومت اور کمیٹیاں ان جنگلات کاخیال نہیں رکھتیں تو ہم شدید نوعیت کی ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہوتی دیکھیں گے اور جیسا کہ ہم موسمِ گرما میں حدت اور موسمِ سرما میں سردی کی شدت کا مشاہدہ کرچکے ہیں جو مقامی طور پر موجود حیاتیاتی اور نباتاتی انواع کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔‘‘
فیض کاکڑ کے مطابق محکمۂ جنگلات کونگرانی کے زیادہ بہتر آلات فراہم کرنے کی ضرورت ہے‘ مقامی آبادی کو چولہے جلانے کے لیے متبادل ایندھن جیسا کہ میتھین گیس وغیرہ فراہم کی جائے جب کہ جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے قوانین میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت زیتون کے وہ جنگلات بہترین حالت میں ہیں جو حکومت کی نگرانی میں ہیں‘ حکومت کے تحت منتظم کیے جانے والے زیتون کے جنگلات (بلوچستان کے شمالی علاقوں میں) محکمۂ جنگلات کی عملداری میں آتے ہیں۔
ڈپٹی چیف کنزرویٹر ژوب ڈویژن علی عمران نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم حکومت کے زیرِانتظام جنگلات کی حالت رفتہ رفتہ بہتر بنا رہے ہیں۔جنگلات اُگانا اور پھر ان کی دیکھ بھال کرنا ایک طویل المدتی عمل ہے اور نتائج کے برآمد ہونے کے لیے ایک وقت درکار ہوتا ہے۔‘‘
معاشی مشکلات کے باعث مقامی آبادیوں کا ان جنگلات پر انحصار بڑھ گیا ہے۔ علی عمران نے کہا:’’ موسمیاتی تبدیلیاں اور انسانوں کا ماحول پر دو طرفہ دباؤ ( ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کے لیے درختوں کی کٹائی اور جنگلات کا بطور چراگاہ استعمال) بھی بڑھاہے جب کہ غربت کے باعث بھی جنگلات کی کٹائی کے عمل میں تیزی آئی ہے۔‘‘
ایک قبائلی بزرگ70برس کے جمعہ رحیم مندوخیل کہتے ہیں کہ مقامی آبادی کی جانب سے درختوں کے کاٹنے کی بنیادی وجہ پیسہ کمانا ہے تاکہ عدالتوں میں زیرِسماعت قبائلی تنازعات کے مقدمات کے لیے وکیلوں کو ان کا معاوضہ ادا کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا:’’ مقامی آبادی کے لیے معاشی وسائل حاصل کرنے کے لیے ذرائع ناکافی ہیں، اس علاقے کے بہت سے نوجوان متحدۂ عرب امارات اور سعودی عرب میں ملازمت کررہے ہیں تاکہ اپنے خاندانوں کی کفالت کرسکیں۔ قبائلی عمائدین جنگلات کی کٹائی کے معاملے کے حوالے سے عدالت سے رجوع کرچکے ہیں۔‘‘
علی عمران کے خیال میں ان جنگلات کو مستقل بنیادوں پر منتظم کرنے کے لیے سب سے پہلے تو ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ہم مقامی آبادی کو معاشی طو رپر مستحکم بنائیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے تعلیم کی فراہمی ناگزیر ہے جس کے بعد مقامی آبادی کو ان جنگلات کو منتظم کرنے کے عمل میں شامل کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ قدرتی وسائل کی بنا پر اپنی بقا کی جنگ لڑنے والی آبادیوں کا اپنے وسائل کے حوالے سے تفصیلی اور گہرائی کے ساتھ باعلم ہونا ضروری ہے کیوں کہ اس کا تعلق براہِ راست ان کی بقاء سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان جنگلات کو محفوظ بنانے کے لیے مقامی آبادی پر انحصار سب سے اہم ہے جس سے ہم علاقے میں مقامی وسائل کی تباہی کی موجودہ وجوہات کا ادراک کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں اور سماجی و تکنیکی طور پر قابلِ قبول حل بھی تلاش کرسکتے ہیں۔