لاہور ( شفیق شریف سے) سنٹرل پولیس آفس (سی پی او) سے منسلک ایک اعلیٰ افسر نے انکشاف کیا ہے کہ پنجاب پولیس فنڈز کی کمی کے باعث پولیس ریکارڈ اینڈ آفس مینجمنٹ سسٹم (پی آر او ایم آئی ایس) اور پاکستان آٹومیٹڈ فنگر پرنٹ آئیڈنٹیفیکیشن سسٹم (پی اے ایف آئی ایس) بند کرنے پر مجبور ہوگئی ہے‘ مذکورہ افسر پی آر او ایم آئی ایس سے منسلک رہے ہیں۔
انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، کیوں کہ وہ اس بارے میں میڈیا میں کوئی معلومات نہیں دے سکتے ، کہا کہ پنجاب پولیس کے حکام نے ایک نجی کمپنی ، جس کی خدمات وفاقی حکومت کی جانب سے حاصل کی گئی تھیں، کی معاونت سے2011ء میں پی آر او ایم آئی ایس کو شروع کیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا:’’ یہ سسٹم دو برسوں تک کامیابی سے چلتا رہا جس کے باعث حکام نے پائلٹ پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد اس کا دائرہ کار لاہور اور پنجاب کے سو سے زائد پولیس سٹیشنوں تک پھیلا دیا۔‘‘
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ دو برس بعد ناقص ہارڈویئر کے باعث سسٹم میں خرابی پیدا ہوگئی۔مذکورہ پولیس افسر نے کہاکہ پی آر او ایم آئی ایس کو اضلاع کی حدود میں ایک دوسرے سے جوڑنے کے لیے وائی میکس جب کہ اضلاع کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے لیے فائبر آپٹک ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ مختلف پولیس سٹیشنوں میں وائی میکس کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے لیے اس کے انٹینوں کو 30فٹ کی بلندی پر نصب کیا گیا جب کہ اس کی شرط کم از کم 70فٹ تھی۔اس کے ساتھ ہی متعلقہ افسروں کی غفلت کے باعث کمپوٹرز، فیکس مشینیں اور پرنٹرز خراب ہوگئے۔ مزید برآں 2013ء میں وفاقی حکومت کی جانب سے اس سسٹم کے اخراجات کی ادائیگی روکی گئی تو حکام اسے بند کرنے پر مجبور ہوگئے۔
پی آر او ایم آئی ایس کی سربراہ اور ایڈیشنل ڈائریکٹر کمپیوٹرز شاہینہ خالد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی آر او ایم آئی ایس دو برس سے زائد عرصہ تک کامیابی سے کام کرتا رہا ہے لیکن اس وقت مسائل پیدا ہونا شروع ہوئے جب وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز کی ادائیگی روک دی گئی۔
انہوں نے کہا:’’ ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر نجی کمپنی ڈائیلاگ براڈ بینڈ(ڈی بی بی) کی جانب سے فراہم کیے گئے تھے جنہوں نے ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں رکھا اور پولیس افسروں کو اس سافٹ ویئر کو ٹھیک یا مرمت کروانے کی اجازت نہیں دی گئی‘ اس کمپنی کا انتخاب نیشنل پولیس بیورو اور وزارتِ داخلہ اسلام آباد نے کیا تھا۔‘‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ کمپنی کی جانب سے اس کے نقائص دور کرنے کے لیے بہت زیادہ قیمت طلب کی گئی جو پنجاب پولیس ادا کرنے میں ناکام ہوگئی۔ شاہینہ خالد نے دعویٰ کیا:’’ کمپنی نے پنجاب پولیس کو نقائص کے باوجود پراجیکٹ کا دائرہ کار مختلف پولیس سٹیشنوں تک بڑھانے کے لیے ہر بارنئے ہارڈ ویئر کی خریداری کی تجویز ہی پیش کی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان آٹومیٹڈ فنگر پرنٹ آئیڈنٹیفیکیشن سسٹم کبھی پنجاب پولیس کے کنٹرول میں نہیں رہا۔ ان کا کہنا تھا:’’ پولیس کے عملے کی پاس ورڈز تک بھی رسائی نہیں ہے کہ اگر کمپیوٹر ٹرپنگ کی وجہ سے بند ہوجائیں تو وہ اسے دوبارہ آن کرسکیں۔‘‘
شاہینہ خالد نے کہا کہ پی اے ایف آئی ایس کا کنٹرول روم فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کے اسلام آباد میں واقع ہیڈ آفس میں قائم تھا جہاں اس کا مین سرور نصب تھا۔انہوں نے کہا:’’ پنجاب پولیس کے افسروں کی فنگر پرنٹس کے ریکارڈ تک رسائی نہیں تھی۔‘‘
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پنجاب حکومت کے اعلیٰ حکام نے پالیسی کے ایک جزو کے طور پر اس پراجیکٹ کو بند کیا ہے۔ شاہینہ خالد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (پی آئی ٹی بی) کی معاونت سے پنجاب پولیس کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کرنے کے لیے ایک نیا پراجیکٹ تشکیل دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
لاہور پولیس کے لیے پی آر او ایم آئی ایس کے نگران ایس پی کرائم ریکارڈ آفس (سی آر او) عمر ریاض چیمہ نے پی آر او ایم آئی ایس اور پی اے ایف آئی ایس کے بند کیے جانے کی تصدیق کی اور کہا کہ یہ پراجیکٹ کبھی پنجاب یا لاہور پولیس کے زیرِانتظام نہیں رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ لاہور پولیس پی آئی ٹی بی کی مدد سے ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کرنے کے لیے ایک نیا سسٹم تشکیل دے رہی ہے۔عمر چیمہ نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ معاشی بندشیں پی آر او ایم آئی ایس اور پی ایف اے آئی ایس کے بند کیے جانے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہیں۔
نیوز لینز پاکستان کو دستیاب ہونے والی دستاویزات کے مطابق پی آر او ایم آئی ایس کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈنگ کی گئی تھی ‘ اپریل 2005ء میں ایک ارب اور 40کروڑ کی لاگت سے یہ منصوبہ ملک بھر میں شروع کرنے کی اجازت دی گئی۔ نیشنل پولیس بیورو نے اس پراجیکٹ پر عملدرآمد کروانا تھا۔ اس پراجیکٹ کے لیے 2008ء میں ہارڈویئرجب کہ ابتدائی سافٹ ویئر اگست 2010ء میں فراہم کیا گیا۔پی آر او ایم آئی ایس کو پولیس کے ریکارڈ ، جن میں ایف آئی آرز اور دفتر کے انتظامی امور بھی شامل ہیں،کو کمپیوٹرائز کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیاتھا۔
اسے ڈیزائن کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی تاکہ مختلف پولیس سٹیشنوں کو ان کی ضرورت کے مطابق خدمات کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے،جس میں پولیس کی آپریشنل کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ایم آئی ایس کی ڈیزائننگ، پولیس کے لیے انٹرپرائز ریسورس پلاننگ، جس میں معاشی انتظام و بجٹ سازی، اثاثوں اور اکاؤنٹس کا حساب رکھنا، انسانی وسائل،وہیکل مینجمنٹ، تنخواہوں ا ورپروکیورمنٹ وغیرہ شامل ہیں،پولیس کے تربیتی اداروں کو آئی ٹی کی تربیت کے لیے تعاون اور پولیس کی سنجیدہ اور منظم جرائم کے تدارک کے لیے آپریشنل کارکردگی بڑھانے کے لیے محکمۂ پولیس میں ڈیٹا شیئرنگ کی سہولت فراہم کرنا شامل تھا۔
اسی طرح پی اے ایف آئی ایس کی تشکیل قانون نافذ کرنے والے اداروں کی منظم جرائم اور دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے اہلیت میں اضافے، جرائم پیشہ عناصر کی فنگر پرنٹس کے ذریعے فوری شناخت کے لیے انفراسٹرکچر اور نیٹ ورکنگ قائم کرنے،معلومات کی تقسیم اور فنگر پرنٹ کے ماہرین کی تربیت کے لیے عمل میں لائی گئی تھی۔یہ سسٹم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں کے لیے جائے وقوعہ سے حاصل کیے گئے انگلیوں کے نشانات کی جانچ اور ان کی تلاش میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔