معلومات تک رسائی کے قانون میں ترمیم،حزبِ اختلاف کی تنقید

0
4857

پشاور (انعام اللہ سے)خیبرپختونخوا میں نافذ معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2013ء کا دائرہ کار محدود کرنے کے لیے اس میں ایک ترمیم کی گئی ہے جس کے باعث اب اس قانون کا اطلاق صوبائی اسمبلی پر نہیں ہوگا۔ یہ ترمیم اُس وقت اسمبلی میں پیش کی گئی جب حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے خیبرپختونخوا کے سالانہ معاشی بجٹ پر اعتراضات کے باعث اس کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ اس ترمیم کو متفقہ طور پر 23جون کو ایک ہی روز میں منظور کرلیا گیا جس کے تحت اب خیبر پختونخوا اسمبلی اس قانون سے مستثنیٰ قرار دے دی گئی ہے۔
خیبرپختونخوا کے سابق وزیراطلاعات میاں افتخار حسین نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’یہ قانون سازی اور ترمیم ضابطے کی واضح خلاف ورزی ہے جس کے باعث یہ ناقابلِ قبول اور غیر قانونی ہے۔ ہم سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی اور نہ ہی نئی ترمیم منظور کرنے کے لیے اسمبلی میں کوئی بحث ہوئی اور یہ عمل قانون سازی کی روح کے منافی ہے۔‘‘
خیبرپختونخوا اسمبلی نے معلومات تک رسائی کا ایکٹ اکتوبر 2013ء میں منظور کیا تھا تاکہ شہریوں کی عوامی دستاویزات اور ریکارڈز تک رسائی ممکن ہوسکے۔ مذکورہ قانون کے تحت سرکاری اداروں کی دستاویزات، کابینہ کے فیصلوں کی تجاویز، قومی معیشت کے انتظامی امور، قانون کے نفاذ اور عوامی تحفظ، ایجنسیوں کی جانب سے جرائم کی کھوج اور روک تھام کے لیے کی گئی تفتیش کی رپورٹس، ٹیکسوں کی وصولی اور ان کا تہمینہ اور کسی بھی تفتیشی عمل کے دوران موصول یا حاصل ہونے والی معلومات تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت میں صوبے میں برسرِاقتدار حکومت معلومات تک رسائی کاقانون نافذ کرکے ملک کی اولین صوبائی حکومت بن گئی تھی جس نے ایسا جرأت مندانہ اقدام کیا تھا۔اس قانون کے باعث سرکاری حکام اور قانون سازوں کی بدعنوانیوں کا عوامی چھان بین کے باعث پوشیدہ رہنا ممکن نہ رہا۔ تاہم اب اسمبلی کی کارروائی کو عوامی چھان بین کے عمل سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کے باعث سیاسی و سماجی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے حکومت کی اس پالیسی پر خدشات سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔
معلومات تک رسائی کا کمیشن بھی مذکورہ ترمیم کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے اوراس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اس سے غلط روایات کو فروغ حاصل ہوسکتا ہے۔
معلومات تک رسائی کے کمیشن کے انفارمیشن کمشنر پروفیسر کلیم اللہ نے کہا:’’ آنے والے دنوں میں دیگر اداروں جیسا کہ گورنر ہاؤس سیکرٹریٹ یا پھر وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ بھی اس طرح کی مستثنیات کا مطالبہ کریں گے۔‘‘
انہوں نے اس ترمیم کو خیبرپختونخوا حکومت کا ایک نامناسب فیصلہ قرار دیتے ہوئے استدلال پیش کیا کہ ٹیکس دہندگان کو حکومت سے سوال کرنے کا حق حاصل ہے۔ ان کو یہ استفسار کرنے کا حق بھی حاصل ہے کہ حکومت جواقدامات کر رہی ہے تو وہ ایسا کیوں کر رہی ہے؟ قانون ساز عوام کے روبرو جواب دہ ہیں اور اسمبلی کی کارروائی کو عوام سے پوشیدہ رکھنا معلومات تک رسائی کے قانون کے ساتھ ایک مذاق ہے۔
معلومات تک رسائی کے کمیشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نیوز لینز پاکستان سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کی ذاتی درخواست پر یہ ترمیم منظور کی گئی ہے۔
مذکورہ افسر نے کہا:’’ وہ (اسد قیصر)سپیکر چیمبر کے امور سے متعلق معلومات فراہم کرنے کے حوالے سے مختلف درخواست گزاروں اور کمیشن کی جانب سے ارسال کی جانے والے درخواستوں پر عمل کرنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار تھے۔‘‘
اسد قیصر نے میڈیا میں اس ترمیم کی حمایت کرتے ہوئے کہاتھا:’’ مقامی حکومتوں کو اختیارات کی منتقلی کے بعد صوبائی اسمبلی کے ضابطوں یا قانون سازوں کے طرزِ عمل کے بارے میں معلومات کے حصول کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔‘‘
وزیراعلیٰ کے قانونی امور پر مشیر عارف یوسف نے مذکورہ ترمیم کا دفاع کرتے ہوئے کہاکہ اس ترمیم کا اطلاق صرف تحاریکِ التوااور اسمبلی کی کارروائیوں اور ضابطوں پر ہوتا ہے لیکن اگر کوئی شہری سپیکر چیمبر یا ان کے حلقے سے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کو خوش آمدید کہا جائے گا کیوں کہ ایسی معلومات کے حصول پر کوئی پابندی عاید نہیں کی گئی۔
عارف یوسف نے کہا کہ اس ترمیم کے باوجود لوگ قانون سازوں کے اثاثوں اور صوبائی حکومت کی جانب سے منتخب نمائندوں کو دیئے گئے ترقیاتی فنڈز سے متعلق معلومات تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔اگر یہ فیصلہ غلط ثابت ہوتا ہے تو صوبائی حکومت لازمی طور پراس ترمیم پر نظرثانی کرے گی۔ 
انہوں نے کہا ’’ہم اس فیصلے کے حوالے سے عوامی ردِعمل کا جائزہ لیں گے اور یہ معاملہ کابینہ کے اجلاس میں اٹھایا جائے گا۔ اگر ترمیم پر بہت زیادہ تنقید ہوتی ہے تو ہم اسے منسوخ کردیں گے۔‘‘
سنٹر فار گورننس اینڈ پبلک اکاؤنٹیبلٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر انور نے کہا:’’ صوبائی اسمبلی کی کارروائیوں کومذکورہ ایکٹ سے مستثنیٰ قرار دینا افسوس ناک ہے۔ یہ اقدام پاکستان تحریکِ انصاف کے منشور کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات کے دوران صوبے میں کرپشن پر قابو پانے اور سرکاری حکام کو ان کے غلط اقدامات پرعوام کے روبرو جواب دہ بنانے کے وعدے کیے تھے۔ جب معلومات تک رسائی کا قانون منظور ہوا تو حکومت نے شفافیت اور بہتر طرزِ حکمرانی کے ذریعے کرپشن پر قابو پانے کے عزم کا ازسرِ نو اظہار کیا۔
پاکستان تحریکِ انصاف اس ترمیم کے ساتھ نہ صرف اپنے مؤقف سے پسپا ہوئی ہے بلکہ صوبے سے کرپشن کو ختم کرنے کے اپنے وعدے کو بھی پورا نہیں کیا۔
انور نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ پشاور ہائی کورٹ کوپہلے ہی اس قانون سے مستثنیٰ قرار دیا جاچکا ہے اور اب قانون ساز ادارہ بھی اس قانون کے تحت جواب دہ نہیں رہاجس کے باعث معلومات تک رسائی کے ایکٹ کادائرہ کار ایگزیکٹو، انتظامیہ اور ماتحت عدلیہ تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔‘‘
میاں افتخار نے اس نئی ترمیم پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معلومات تک رسائی کے قانون کو محدود کرنے اور صوبائی اسمبلی کی کارروائیوں کو مستثنیٰ قرار دینے کے باعث یہ بے معنی ہوگیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ مختلف سرکاری محکمے معلومات تک رسائی نہ دینے کے لیے اس ترمیم کو جواز کے طور پر استعمال کریں گے۔ معلومات تک رسائی نہ دینے کی سادہ ترین دلیل یہ ہوگی کہ اس وقت چوں کہ اس معاملے پر اسمبلی میں بحث چل رہی ہے چناں چہ اس بارے میں کوئی معلومات فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔اس ترمیم کے باعث معلومات تک رسائی کا قانون کمزور ہوگیا ہے۔‘‘
میاں افتخار نے پنجاب میں نافذ کیے جانے والے معلومات تک رسائی کے ایکٹ کی تعریف کرتے ہوئے اسے زیادہ شفافیت کا حامل قرار دیا کیوں کہ اس کے دائرہ کار میں ہائی کورٹ اور صوبائی اسمبلی بھی آتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے سپیکر قابلِ مواخذہ ہونے سے بچنے کے لیے معلومات تک رسائی کے قانون کو تبدیل کر رہے ہیں۔ حکومت کو شفافیت کا عمل یقینی بنانے کے لیے یہ ترمیم واپس لینا ہوگی۔
پشاور ہائی کورٹ کے ایک وکیل فرہاد آفریدی نے اس ترمیم کی یہ کہتے ہوئے مذمت کی کہ اس سے یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ قانون ساز اپنی کرپشن کے بے نقاب ہونے کے حوالے سے خوف زدہ ہیں۔
تاہم پشاور ہائی کورٹ کے ایک اور وکیل ارشد علی نے اس ترمیم کو قانونی قرار دیا۔ انہوں نے یہ استدلال پیش کیا کہ حکومت کو دستورِ پاکستان کی شق 19اے کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ معلومات تک رسائی پر ایسی پابندیاں عاید کر سکتی ہے۔ اس شق کا متن کچھ یوں ہے:’’ ہر شہری کو عوامی اہمیت کے حامل ان تمام معاملات سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا حق حاصل ہے جوقانون میں متعین کیے گئے ہیں۔‘‘
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ اگر آئینِ پاکستان شہریوں کی عوامی دلچسپی کے امور کے حوالے سے معلومات تک رسائی کو محدود کرتا ہے تو صوبائی حکومت کو ایسا کرنے کا بہرطور پر حق حاصل ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here