آپریشن ضربِ عضب کا ایک برس مکمل‘عسکریت پسندی کے تدارک کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت

0
4088

: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzaiپشاور ( اظہار اللہ سے) پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے مطابق جون 2014ء میں آپریشن ضربِ عضب شروع ہونے کے ایک برس بعداب تک تقریباً2763دہشت گرد مارے جاچکے ہیں۔
خطے اور پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والے عسکریت پسندوں کے لیے محفوظ تصور کیے جانے والے شمالی وزیرستان میں ہونے والے اس آپریشن کے باعث تقریباً10لاکھ افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔
آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر اس بارے میں لکھا:’’ (آپریشن کو) ایک برس مکمل ہوچکا ہے‘ فاٹا اور خاص طور پر شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی جاچکی ہیں۔ (عسکریت پسندوں کے) ٹھکانوں کو کلیئر کیا جاچکا ہے۔‘‘ 
پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی کے خلاف امریکہ کا اہم ترین اتحادی ہے۔ جنوبی ایشیاء میں دہشت گردی سے متعلق معلومات، اعداد و شمار، تنقید جائزوں اور تجزیوں پر مبنی دہلی کی ایک ویب سائٹ ساؤتھ ایشین ٹیررازم پورٹل کے مطابق 2003ء سے اب تک پاکستان بھر میں 26ہزار سے زائد شہری و سکیورٹی اہل کار دہشت گردی کے مختلف واقعات میں ہلاک ہوئے ہیں۔ 
شورش کا شکار صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں دسمبر 2014ء میں سکول کے بچوں کا قتلِ عام ہوا جب فوج کے زیرِانتظام ایک سکول پر طالبان نے دھاوا بول دیا جس میں 134بچوں سمیت 149افراد شہید ہوئے۔
آپریشن ضربِ عضب کے ایک برس کے دوران حاصل ہونے والی کامیابیوں پر فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے اپنے سرکاری ٹوئٹراکاؤنٹ پر کہا کہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر اب تک نو ہزار آپریشن کیے جاچکے ہیں جن میں ہزاروں ’’دہشت گرد‘‘ اور ان کے سہولت کار گرفتار کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا:’’آپریشن کے دوران شہروں میں 218دہشت گردہلاک ہوئے (جب کہ) 347فوجی افسروں اور اہل کاروں نے موت کو گلے لگایا۔‘‘
آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں کے 837ٹھکانے تباہ کیے جانے کے علاوہ 253ٹن دھماکہ خیز مواد بھی برآمد کیا گیا ہے۔
ساؤتھ ایشین ٹیررازم پورٹل کے مطابق ملک بھر میں دہشت گردی کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ جون 2014ء سے جون 2015ء تک 1522شہری اور 439سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ‘ یہ تعداد 2013-2014ء کی نسبت کم ہے جب 2252شہری اور 603سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
ویب سائٹ کی جانب سے مختلف اخباروں کی مدد سے مرتب کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق جون 2013ء سے جون 2014ء کے دوران 1299دہشت گرد مارے گئے جب کہ جون 2014ء سے جون 2015ء کے دوران یہ تعداد بڑھ کر 3863ہوگئی۔
شمالی وزیرستان میں ہونے والے آپریشنِ ضربِ عضب کی تفصیل بیان کرتے ہوئے عاصم باجوہ نے کہا کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے 1808ہیوی و لائٹ مشین گنز، سنائپر رائفلیں، راکٹ لانچرز اور اے کے 47ضبط کی گئی ہیں۔
آئی ایس پی آر آپریشن ضربِ عضب میں مارے جانے والے دہشت گردوں کی تعداد بتانے کے علاوہ یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے علاقے سے دہشت گردوں کو پسپا کر دیا ہے جس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔ تجزیہ کار رضا رومی کے مطابق وہ علاقہ جہاں پر آپریشن ہورہا ہے ‘ مقامی میڈیا کے لیے تاحال ’’نوگوایریا‘‘ ہے۔ تاہم وہ آپریشن ضربِ عضب کو پاکستان کے لیے ایک فیصلہ کن موڑقرار دیتے ہیں۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ آپریشن ضربِ عضب کے نتائج کے ضمن میں اہم ترین مسئلہ یہ درپیش ہے کہ مقامی میڈیا اس حوالے سے رپورٹنگ نہیں کرسکتاجس کے باعث آپریشن کے نتائج کی مکمل طور پر تصدیق نہیں ہوسکتی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان کے ایک بڑے حصے سے دہشت گردوں کو پسپا کیا جاچکا ہے اور تحریکِ طالبان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کے باعث’’ دہشت گرد گروہوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے جو برسوں سے ان علاقوں میں فعال تھے۔‘‘
رضا رومی نے کہاکہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے سویلین اداروں جیسا کہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کے تحت پولیسنگ اور انٹیلی جنس روابط کو فروغ دینے کی ضرورت ہے لیکن اس ادارے کے لیے نہ صرف نامناسب فنڈز مختص کیے گئے ہیں بلکہ یہ اس قدر اثر ور سوخ کا حامل بھی نہیں ہے۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) سعد محمد نے کہا کہ آپریشن ضربِ عضب کے دوران پشاور سکول میں قتلِ عام ہوا، کوئٹہ میں فرقہ ورانہ تشدد اور کراچی میں اسماعیلی کمیونٹی پر حملہ ہوا۔
انہوں نے کہا:’’ ان کارروائیوں کے ذریعے عسکریت پسندوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ہنوزکہیں بھی دہشت گردی کی بڑی کارروائیاں کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔‘‘
بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) سعد محمد آپریشن ضربِ عضب کو فی الوقت کامیاب قرار دیتے ہیں‘ وہ کہتے ہیں:’’ جی بالکل! آپریشن کے بعد ملک میں امن و امان کے حالات بہتر ہوئے ہیں اور ہم اسے فی الوقت حکومت کی ایک بڑی کامیابی قرار دے سکتے ہیں جو سکیورٹی فورسز کے ذریعے حاصل کی گئی ہے اور خطے سے دہشت گردوں کو پسپا کیا جاچکا ہے لیکن شمالی وزیرستان کے انتظامی امور ہنوز سویلین حکام کو منتقل نہیں کیے گئے۔‘‘
انہوں نے نشاندہی کی کہ عسکریت پسندوں کے ’’ سہولت کار‘‘ پنجاب کے شہری علاقوں میں فعال ہیں جس کے باعث حکومت کو دہشت گردی کے تدارک کے لیے شہروں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوگی۔
بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) سعد محمد نے کہا کہ پاکستانی فوج حکومت کو شہری علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے کہہ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ حکومت شہری علاقوں میں عسکریت پسندی پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ ہے یا نہیں اور نہ ہی وہ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد سے مطمئن ہیں۔
انہوں نے سوات آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وادئ سوات میں چھ برس قبل فوجی آپریشن کیا گیا تھا لیکن سکیورٹی فورسز ہنوز خطے کو سکیورٹی فورسز کی مدد کے بغیر منتظم نہیں کرسکتیں۔انہوں نے کہا:’’ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب کے بعد بھی اسی قسم کے حالات کا سامنا ہے۔‘‘
عاصم باجوہ نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان سے خوف و دہشت کی فضا ختم کرنے کے لیے خطے میں دہشت گردی کے تدارک کے لیے کارروائی جاری رہے گی۔ انہوں نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بعد آنے والی مثبت تبدیلیوں کی جانب بھی اشارہ کیا جیسا کہ ملک میں امن و امان کے حالات بہتر ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ چینی صدر اور دیگر اعلیٰ شخصیات کے دورے، پاکستان زمبابوے کرکٹ سیریز اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے ملک میں امن و امان کے حالات بہتر ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔قوم پاکستان سے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے یکجا ہوچکی ہے۔ میڈیا اور سول سوسائٹی نے اس حوالے سے مثبت کردار ادا کیا ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here