بنوں (احسان داوڑ سے) شمالی وزیرستان سے فوجی آپریشن ضربِ عضب کے بعد اندرونِ ملک نقل مکانی کرنے والے قبائلیوں کے لیے بنوں میں رہنا ایک خوشگوار یا پھر ایک تلخ تجربہ ہوسکتا ہے جس کا انحصار ان خاندانوں کے گردو پیش کے حالات پر ہے۔
عبداللہ خان کے لیے یہ اَمر حیران کن تھا جب اس نے اپنی آٹھ سالہ بھتیجی ثمینہ کو اپنی سہیلیوں سے مروت لہجے میں بات کرتے ہوئے سنا۔ عبداللہ اور ان کا خاندان گزشتہ برس جون سے بنوں میں رہائش پذیرہے جب وہ آئی ڈی پی کے طور پر اپنی دھرتی چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔
عبداللہ خان نے کہا:’’ ایک برس سے بھی کم عرصہ کے دوران ان کے خاندان کے تمام بچوں نے نہ صرف مقامی لہجوں میں بات کرنا شروع کردی ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی مروت معاشرے کی اور بھی بہت سی روایات اختیار کرلی ہیں جو شمالی وزیرستان کے باسیوں کے لیے قطعی طور پر اجنبی ہیں۔‘‘
ظاہر ہے کہ ثمینہ وہ واحد بچی نہیں ہے جو مقامی طرزِ زندگی اختیار کرچکی ہے۔ بہت سے والدین اپنے بچوں میں آنے والی اس تبدیلی پر پریشان ہیں‘ یہ واضح رہے کہ شمالی وزیرستان کے 10لاکھ اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں جنوبی وزیرستان کے باسی نقل مکانی کرکے بنوں میں آباد ہوئے۔ وہ ایک ایسی ثقافت اختیار کرنے جارہے ہیں جوآنے والے برسوں میں قبائلی علاقوں کا حصہ بن جائے گی‘ یہ وہ سوال ہے جو ان دنوں والدین اور ماہرینِ عمرانیات کی جانب سے اکثر و بیش تر پوچھا جارہا ہے۔
بہت سے ایسے آئی ڈی پیز بھی ہیں جو اس تبدیلی کو مثبت خیال کرتے ہیں جب کہ ان آئی ڈی پیز کی تعداد بھی کم نہیں ہے جو اس نقل مکانی کے منفی اثرات سے پریشان ہیں جس کے باعث مقامی ثقافت اور روایات خطرات کی زد پر آگئی ہیں۔ موخرالذکرفکر کے حامل گروہ کا یہ خیال ہے کہ ان کی ثقافت پر اثرانداز ہونے والے تمام تر عوامل ناپسندیدہ نوعیت کے ہیں کیوں کہ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ملک بھر میں قبائلی علاقوں میں ہی لوگوں نے قدیم روایات اور رسومات کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
شمالی وزیرستان کی ضلعی انتظامیہ کے رُکن اور عمرانیات کے سابق طالب علم شریف اللہ خان نے کہا کہ ثقافت ایک تجریدی اصطلاح ہے جس کی تشریح دانش وروں اور مصنفین نے مختلف طور پرکی ہے۔ اور کسی بھی تجریدی نظریے کی طرح مختلف فکری دھارے اس کی تعریف اپنے معروضی حالات کے مطابق کرتے ہیں۔ثقافت کی وہ تعریف جو بڑے پیمانے پر قبول کی جاتی ہے‘ اس کے مطابق وہ تمام تر تصورات اور سرگرمیاں جن پر مشترک روایات کے حامل لوگ عمل کرتے ہیں‘ اوراس گروہ یا سماج کی جانب سے نہ صرف ان روایات کو فروغ دیاجاتا ہے بلکہ وہ اپنی روزمرہ زندگی بھی ان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بسر کرتے ہیں۔ بہت سے ماہرین کی جانب سے اسے ’’وقت کے ایک خاص دھارے میں ایک خاص تہذیب ‘‘ سے منسوب کیا جاتا ہے۔
شریف اللہ خان نے کہا کہ دنیا میں غالباًکوئی ایسی قوم نہیں ہے جو اس حوالے سے کسی قسم کا نظریہ نہ رکھتی ہو لیکن اس کی شدت کا انحصار ثقافتی تبدیلی پرہوتا ہے۔
پاکستان کے شمال مغرب کا قبائلی معاشرہ روایتی طور پر ثقافتی کلیت پر یقین رکھتا ہے۔ ان علاقوں میں آباد پشتون آبادی خطے میں بسنے والے کسی بھی دوسرے ثقافتی گروہ کی نسبت اپنی ثقافتی اقدار یعنی پشتونولی پرعمل کرنے کے معاملے میں کوئی کمپرومائز نہیں کرتی۔
شریف اللہ خان نے کہا:’’ لیکن اب تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے ‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اگر کوئی گروہ اس تبدیلی کو قبول کرنے پر تیارہے یا نہیں۔‘‘
قبائلی معاشرے اور خاص طور پر وزیرستان کے باسی ان گروہوں میں شامل ہیں جو ثقافتی تبدیلی کے نام پر تلملا اٹھتے ہیں۔ ماضی میں جب شمالی وزیرستان میں پہلی بار ٹریکٹر متعارف ہواتو کسان ان کو اپنے کھیتوں میں استعمال کرنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار تھے۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک ٹریکٹر ڈرائیور محمد اکبر نے کہا:’’میرے دادا کہا کرتے کہ بیلوں کا ہل چلانے سے ’’رحمت‘‘ کا نزول ہوتا ہے جو ٹریکٹروں کے ٹائروں کے ذریعے ممکن نہیں۔ان کا کہنا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے دادا کی اگلی نسل کاشت کاری کے لیے ٹریکٹر، تھریشر اور دیگر مشینری استعمال کر رہی ہے۔
ان علاقوں میں جب بجلی فراہم کی گئی تواس وقت بھی حالات کچھ مختلف نہیں تھے۔ جب حکومت نے پہلی بار بجلی کی فراہمی کے لیے کھمبے اورتاریں نصب کیں تو لوگ اس کی راہ میں مزاحم ہوئے اور یہ استدلال پیش کیا کہ اس سے وہ کاہل ہوجائیں گے۔ لیکن بالآخر رفتہ رفتہ اس تبدیلی کو بھی قبول کر لیا گیا اور وہ لوگ جنہوں نے کبھی بجلی کی فراہمی کی اس حد تک مخالفت کی تھی کہ سوئچ کو ہاتھ تک نہیں لگاتے تھے‘ انہوں نے بجلی کی طویل دورانیے کی بندش کے خلاف احتجاج تک کیا تاکہ ان کی کاروباری سرگرمیاں متاثر نہ ہوں۔
ان تمام اختراعات کی قبل ازیں مخالفت کی گئی کیوں کہ اس سے قبائلی ثقافت میں تبدیلی آسکتی تھی۔ شریف اللہ خان نے کہا:’’ لیکن یہ تبدیلی آئی اور قبائلیوں کا روایتی معاشرہ نسبتاً تعلیم یافتہ اور جدیدیت پر مبنی اقدار کو قبول کرچکا ہے‘ اگرچہ ملک کے بڑے شہروں کی نسبت یہ تبدیلی محدود پیمانے پر آئی ہے۔‘‘
قبائلی علاقوں میں صدیوں قدیم ثقافت، تہذیب اور روایات کا مجموعہ رائج ہے۔ قبائلی کہتے ہیں کہ وہ کئی صدیوں تک بغیر کسی حکومت یا حکمرانوں کے پُرامن طور پر رہتے رہے ہیں جس کی وجہ ان کا اپنی تہذیب اور روایات پر سختی سے عمل کرنا تھا۔
وہ اس اصول پر عمل کرتے ہیں کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان۔
شریف اللہ خان نے کہا:’’ افغانستان پر سوویت یونین کی جارحیت کے بعد حالات بڑی تیزی سے خراب ہونا شروع ہوئے‘ بعدازاں سانحہ 9/11کے باعث قبائلی معاشرے میں تیزی کے ساتھ تبدیلی آئی۔ کوئی بھی اس وقت یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ قبائلی عوام اس سے کس قدر متاثر ہوئے۔‘‘
سوویت یونین کا افغانستان پر حملہ اس اعتبار سے ہولناک نتائج کا حامل تھا کہ اس نے تندمراج قبائلیوں میں کلاشکوف اور بعدازاں ڈرگ کلچر یعنی ہیروئن کو فروغ دیا جس نے قبائلیوں کی ایک پوری نسل کو تباہ کر دیا۔
لیکن ان قبائلیوں کی زندگی میں سب سے بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب پاکستانی سکیورٹی فورسز نے قبائلی علاقوں میں مختلف کارروائیوں کا آغاز کیا جس کے باعث وہ اپنی دھرتی چھوڑکر ایسے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے جن کا ثقافتی ڈھانچہ ان سے یکسر مختلف تھا۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ماہرِ عمرانیات سیف اللہ چیمہ نے کہا:’’ میرے خیال میں یہ ایک مثبت پیش رفت ہے جو اس معاشرے کے باسیوں پرمختلف طور پر اثرانداز ہوگی۔ وہ دنیا میں تیزی کے ساتھ ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ جیون بیتانا سیکھ جائیں گے جو ان کے لیے بندوبستی علاقوں کی جانب نقل مکانی کیے بغیر سیکھنا ممکن نہیں تھا۔ اس نقل مکانی کے باعث قبائلیوں میں مقابلے کا جوش و ولولہ پیدا ہوگا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ خواتین جنہیں قبل ازیں گھروں کی دہلیز سے باہر قدم رکھنے کی اجازت تک نہیں تھی ‘ انہوں نے بھی مختلف سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔
کچھ سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ جب آئی ڈی پیز اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے تو نئی اور پرانی نسل کے مابین ان کے طرزِ زندگی سے متعلق اختلافات پیدا ہوسکتے ہیں۔۔۔ مختلف نسلوں کی فکر میں یہ فرق صدیوں قدیم ثقافت کے لیے خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی مصنفہ اور ماہرِ عمرانیات ملیحہ سید نے کہا کہ یہ تبدیلی منفی نوعیت کی حامل ہے۔
انہوں نے کہا:’’قبائلی ثقافت کی تباہی درست نہیں ہے۔ جب یہ نوجوان واپس لوٹیں گے تو کیا آپ کا خیال ہے کہ ان پر پشاور اور اسلام آباد جیسے شہروں کی طرزِ زندگی اثرانداز نہیں ہوئی ہوگی؟‘‘
انہوں نے ’’فکری تصادم‘‘ پر بھی تشویش کا اظہار کیا جو ان قبائلیوں کے اپنے گھروں کو واپسی کے بعد ان کے علاقوں میں امن و امان کے لیے خطرات کا باعث بنے گا۔
ملیحہ سید نے مزید کہا:’’ نوجوانوں نے نئی اقدار سیکھی ہوں گی لیکن روایت پرست بزرگ ان نئی روایات کو قبول نہیں کریں گے جس سے قبائلی لوگوں کے پُرامن سماج میں افراتفری پیدا ہوگی۔‘‘
ملیحہ سید اور سماجی علوم کے دیگر ماہرین خوف زدہ ہیں جس کی کئی ایک وجوہات ہیں جیسا کہ قبائلی سماج کے بزرگوں اور نوجوانوں کے مابین طرزفکر کا اختلاف، قبائلیوں کی تندمزاج فطرت، ان کا سماجی تبدیلی کو قبول کرنے کے ضمن میں تذبذب اور قدیم تہذیب، روایات اور رسومات سے لگاؤ کے باعث ان کے درمیان اختلافات پیداہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
ان کا خیال ہے کہ اس تناؤ کے باعث معاشرے کی بربادی کا عمل شروع ہوجائے گا اور ہوسکتا ہے کہ بزرگوں کے احترام اور تابعداری کی روایت بھی زد پر آجائے۔
لیکن دیگر ماہرین پرامید دکھائی دیتے ہیں‘ وہ قبائلیوں کے سماجی طرزِ عمل میں اس تبدیلی کو تعلیم و ذہنی شعورکے ارتقاء، مقابلے کی فضاء اورترقی کرنے کی جستجو سے موسوم کرتے ہیں۔
شماجی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک آئی ڈی پی طارق خان نے کہا:’’ میرا خیال ہے کہ جب ہم واپس جائیں گے تو تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتی ہوئی دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر جینا سیکھ جائیں گے۔‘‘