کراچی (تہمینہ قریشی سے)حکام کے مطابق ملک کی مصروف ترین دہشت گردی کی عدالتوں میں شواہدکو محفوظ رکھنے کے لیے کوئی جگہ مخصوص نہیں کی گئی۔
عدالت کے ایک افسر محمد ناصر نے کہا:’’ تفتیشی افسروں کو ہر سماعت کے بعد فائلوں کے ڈھیر اور مقدمے سے متعلقہ شواہد اپنے ساتھ پولیس سٹیشن واپس لے کر جانا ہوتے ہیں جن میں اکثر و بیش تر دھماکہ خیز مواد اوررقوم شامل ہوتی ہیں ۔ اس سے نہ صرف وقت کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ متعلقہ اہل کار نہ صرف ڈکیتی کا شکار ہوسکتے ہیں بلکہ اگر وہ شواہد کا تحفظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو مارے بھی جاسکتے ہیں۔‘‘
بیرسٹر صلاح الدین احمد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کا قیام 1998ء میں اس وقت عمل میں آیا تھا جب انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997ء نافذ ہوا جس کا مقصد ہولناک جرائم کے مقدمات کا فوری فیصلہ سنانا تھا۔ لیکن ان عدالتوں کے قیام کے بعد شواہد کو محفوظ رکھنے کے لیے کوئی مقام مخصوص نہیں کیا گیا جو دوسرے لفظوں میں مال خانہ کہلاتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ شواہد کو محفوظ بنانا انتہائی اہم ہے کیوں کہ اگر کسی بھی وقت فیصلہ تبدیل یا رَد یا تفتیش نئے سرے سے شروع کی جاتی ہے تو استغاثہ کی جانب سے شواہدنئے سرے سے ترتیب دیے جانے کے علاوہ ان میں تبدیلی بھی کی جاسکتی ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین احمد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ رواں ماہ کے اوائل میں محکمۂ داخلہ کی جانب سے ایک نئی تفتیشی ٹیم تشکیل دی گئی تھی جس نے کراچی کی بلدیہ ٹاؤن کی ایک فیکٹری میں لگنے والی آتشزدگی کی ازسرِنو تفتیش کرنا تھی جس میں اڑھائی سو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔مذکورہ ٹیم تمام شواہد کا ازسرِنو جائزہ لے گی جس سے تفتیش کے رُخ کا تعین ہوگا۔ فرض کرتے ہیں کہ اگر کوئی ان دستاویزات میں رَدوبدل کرنے میں کامیاب رہتا ہے تو اس سے تفتیش کا رُخ یکسر تبدیل ہوجائے گا۔‘‘
انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں ایک پرانی عمارت میں قائم ہیں جو کسی دور میں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ریسٹ ہاؤس کے طور پر استعمال ہوتی تھی‘ اس عمارت کا رُخ کرنے سے مزید پریشان کن انکشافات ہوئے۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کے احاطہ میں پرانی اور زنگ آلود کاریں کھڑی تھیں جو مختلف مقدمات میں انتہائی اہم شواہد ہیں یا تھے۔
بدنامِ زمانہ شاہ رُخ جتوئی کی سرمئی رنگ کی کرولا داخلی راستے کے بالکل ساتھ کھڑی تھی جس نے نوجوان شاہ زیب کو قتل کیا تھا جو دسمبر 2012ء میں اپنی بہن کی شادی سے گھر واپس جارہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی شاہ زیب کی نیلے رنگ کی کار کھڑی تھی جس میں گولیاں لگنے سے ہونے والے چھید نمایاں تھے جو زنگ لگنے کے باعث مزید بڑے ہوگئے تھے۔
مزیدبرآں، شاہ زیب کی کار کے ساتھ ایک سیاہ اور پیلے رنگ کی ٹیکسی کھڑی تھی جس کے ڈرائیور کو رینجرز کے اہل کاروں نے جولائی 2013ء میں اس وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب وہ گھر واپس جارہا تھا۔ مقتول ٹیکسی ڈرائیورکے ساتھ اس کا چار برس کا بیٹا بھی ٹیکسی میں سوار تھا‘ اس نے رینجرز کے اہل کاروں کی جانب سے رُکنے کے اشارے پر دھیان نہیں دیا جنہوں نے فوری طور پر گاڑی پر گولیاں برسا دیں۔
سپیشل پبلک پراسیکیوٹر نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اور دیگر اہم مقدمات کے شواہد یوں کھلے آسمان تلے رکھے گئے ہیں جو نہ صرف چوری ہوسکتے ہیں بلکہ موسم کی وجہ سے ان کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان شواہد کو نقصان پہنچنے کے خدشات کے علاوہ ان کاروں کے احاطے میں کھڑے ہونے کی وجہ سے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں کام کرنے والے عملے کی زندگی بھی خطرات کی زد پر ہے۔سپیشل پبلک پراسیکیوٹر نے مزید کہا:’’ یہ بم نصب کرنے کے لیے ایک مثالی جگہ ہے۔ ان بوسیدہ کاروں کو کوئی بھی دوسری بار دیکھنے کا خیال بھی ذہن میں نہیں لائے گا جس کے باعث ہم نے محکمۂ داخلہ سے بارہا مال خانہ قائم کرنے کی درخواست کی ہے۔‘‘
یہ مال خانہ اس خالی پلاٹ پر آسانی کے ساتھ تعمیر کیا جاسکتا ہے جہاں پر حکومت کی جانب سے مذکورہ کاروں کو ٹھکانے لگایا گیا ہے۔ سپیشل پبلک پراسیکیوٹر نے مزید کہا:’’ محکمۂ داخلہ کی جانب سے ہر بار یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی جانب سے اس ضمن میں جلد اقدامات کیے جائیں گے لیکن آخری وعدہ کیے بھی دو برس بیت چکے ہیں۔‘‘
ستمبر 2013ء سے رینجرز اور سندھ پولیس کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف مشترکہ آپریشن کرر ہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر چھاپے مارے جارہے ہیں اور گرفتاریاں کی جارہی ہیں جس کے باعث انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کی مصروفیت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب منشیات کے مقدمات کی سماعت کے لیے قائم خصوصی عدالتیں (Iاور II) بالترتیب 2000ء اور 2003ء میں قائم ہوئیں۔ ان دونوں عدالتوں میں بھی کوئی مال خانہ قائم نہیں ہے جس کے باعث پولیس ، کسٹم، انسدادِ منشیات فورس اور کوسٹ گارڈز کو ہر سماعت پر قبضہ میں لی گئی منشیات عدالت میں لانی اور واپس لے کر جانی ہوتی ہیں۔
حال ہی میں اس وقت سٹی کورٹس کے قریب ایک کریکر پھٹ گیا جب شواہد کوایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جارہا تھا۔ کراچی بار ایسوسی ایشن کے رُکن خالد ممتاز کا کہنا تھا:’’اس سے حکام کم از کم اس چھت کی مرمت کی جانب ضرور متوجہ ہوئے جو کئی برس قبل منہدم ہوگئی تھی۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔