لاہور (شہریار ورائچ سے)مختلف اداروں کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس کی ایک اہم وجہ ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی بھی ہے۔
بہت سے ممالک میں سائبر کرائمز ایکٹ تشکیل دیے جاچکے ہیں جن کے تحت ہراساں کیا جاناایک سنجیدہ نوعیت کا جرم ہے اور اس کے تدارک کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں حالات مایوس کن حد تک مختلف ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق پاکستان میں برسرِاقتداررہنے والی مختلف حکومتوں نے اس مسئلے کوکبھی اہم تصور نہیں کیاکہ اس حوالے سے کوئی اقدامات کیے جاتے ۔ اس وقت ملک میں کوئی سائبر قوانین نافذ نہیں ہیں جن کے تحت تواتر کے ساتھ رپورٹ ہونے والے واقعات کی روک تھام کے لیے مدد حاصل کی جاسکے۔
عورت فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ برس کے دوران مختلف میڈیا نیٹ ورکس اور غیر سرکاری تنظیموں میں 150سے زائد واقعات رجسٹرڈ ہوئے جن میں سے بیش تر کا سائبر ٹیکنالوجی سے متعلقہ قوانین سے براہِ راست تعلق تھا۔غیر سرکاری تنظیم ادارہ استحکام شراکتی ترقی کے ریجنل سربراہ سلمان عابد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’اگرچہ برقی جرائم سے تحفظ کے آرڈیننس (پیکو) 2009ء کی شق 13 کے تحت سائبر ورلڈ پر ہراساں کرنا ایک جرم ہے جس کی سزا سات برس تک قید ہے لیکن نئے قوانین کی تشکیل کے ذریعے اسے مزید واضح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کا تدارک کیا جاسکے۔‘‘
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عثمان انور نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پیکوکے تحت ایف آئی اے کو بہت زیادہ اختیارات تفویض کیے گئے ہیں کہ وہ سائبرورلڈ پر ہرساں کیے جانے، چکمہ دینے اور غیر ضروری پیغامات ارسال کیے جانے کی روک تھام کے لیے اقدامات کرے۔ مزیدبرآں اس قانون کے تحت فحش نگاری بھی ایک سنجیدہ نوعیت کا جرم ہے جس کی سزا دس برس قید ہے لیکن مذکورہ قانون کی اثرپذیری وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں اور خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بہت زیادہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ خواتین کو ہراساں کیے جانے سے متعلق کچھ واقعات ہمارے علم میں آئے ہیں لیکن جب ہم نے ان(خواتین) سے رابطہ کیا تو انہوں نے تعاون نہیں کیا۔سائبر ورلڈپر ہونے والے جرائم سے متعلق آگاہی کے فقدان اور واضح قوانین نہ ہونے کے باعث اس نوعیت کے فوجداری جرائم کے تدارک میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
صوبائی وزیربرائے ترقی نسواں حمیدہ وحیدالدین نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پنجاب حکومت اس ضمن میں قانون سازی کرنے میں گہری دلچسپی رکھتی ہے جیسا کہ حکومت نے حالیہ برسوں کے دوران خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کی روک تھام کے لیے متعدد قوانین متعارف کروائے ہیں۔
صوبائی کمیشن آن دی سٹیٹس آف وومن خواتین کے خلاف ہونے والے سائبر کرائمز کی روک تھام کے لیے ایکٹ کا ڈرافٹ تشکیل دے رہا ہے۔ فوزیہ وقار نے نیوز لینزپاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ کمیونیکیشن انڈسٹری کے ترقی کرنے کے باعث خواتین کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہراساں کیے جانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم اکثر ایسی ویڈیوز اور تصاویر دیکھتے ہیں جن میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا جارہا ہوتا ہے‘ اس رجحان پر سخت سزاؤں کے ذریعے قابو پایا جانا چاہیے اور ہم ایسے قوانین کی تشکیل کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے ممالک میں سائبر ورلڈپر ہراساں کیا جانا مختلف قوانین کی رو سے ایک فوجداری جرم ہے۔ سائبر ورلڈپر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے فوجداری ایکٹ کو اس نوعیت کی دیگر سرگرمیوں سے الگ کرنے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔ فوزیہ وقار نے کہا:’’ سائبرورلڈپر خواتین تک رسائی حاصل کرنے کے ضمن میں ان پر غلط الزامات عائد کرتا، بدنام کرنا،بدگوئی و توہین کرنا، غلط شناخت ظاہر کرنا، جنسی سرگرمیوں میں شریک ہونے کی ترغیب دینا اور ہراساں یا خوفزدہ کرنے کے لیے کوائف اکٹھا کرناشامل ہیں جب کہ مذکورہ قانون میں بنیادی توجہ جنسی سرگرمی کے لیے ترغیب دینے، خواتین سے متعلق معلومات حاصل کرنے اور ان کو ہراساں کیے جانے کے مختلف طریقوں کی روک تھام پر مرکوز کی گئی ہے۔‘‘
اس وقت ایف آئی اے وہ بنیادی ادارہ ہے جو سائبر کرائمز کی روک تھام کرتا ہے۔ رکنِ پنجاب اسمبلی عظمیٰ بخاری نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ایکٹ ایک قانون کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے تو ایف آئی اے ہی خواتین کو ہراساں کیے جانے کے مقدمات کی تفتیش کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا:’’اس کے ساتھ ہی ہم ایف آئی اے کو اس ضمن میں مزید اختیارات دینے پر غور کررہے ہیں تاکہ اس نوعیت کی سرگرمیوں کا سختی کے ساتھ تدارک کیا جاسکے۔ خواتین کو اس بل اور ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے لیے مہم بھی چلائی جائے گی۔‘‘