پشاور( اظہار اللہ سے) پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد ارشاداُردو زبان کے ایک اخبار میں کام کرتے ہیں‘ وہ نیند میں خلل کی بیماری کا شکار ہیں۔ محمد ارشاد رات کے پچھلے پہر جاگ جاتے ہیں اور جب فیلڈ میں کام کررہے ہوتے ہیں تو تھکن محسوس کرتے ہیں۔
محمد ارشاد کہتے ہیں کہ کام کی زیادتی اور تقریباً ہر دوسرے روزپرتشدد واقعات کی کوریج کرنے کے باعث ان کی نیند میںیہ خلل پیدا ہوا ہے۔
وہ ایسے واحد صحافی نہیں ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخواسمیت پاکستان بھر میں صحافی دہشت گردی کے واقعات کی کوریج کے باعث ذہنی تناؤ کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔2001ء سے اب تک 45ہزار سے زائد افراد بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں مارے جاچکے ہیں۔
ساؤتھ ایشیاء ٹیررازم پورٹل (ایس اے ٹی پی) کی جانب سے یکجا کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق صوبہ خیبرپختونخوا میں2015ء (15فروری تک) میں دہشت گردی کے واقعات میں 36شہریوں، 15دہشت گردوں اور سکیورٹی فورسز کے چاراہل کاروں سمیت مجموعی طور پر55افراد ہلاک ہوگئے۔ 2014ء میں اس عرصہ کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد 156تھی جن میں 103شہری، سکیورٹی فورسز کے41 اہل کار اور 12دہشت گرد شامل تھے۔ یہ اَمر انتہائی پریشان کن ہے کہ 2014ء کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کا بدترین سانحۂ پشاور پیش آیا جس میں سکول میں زیرِتعلیم 138بچے شہید ہوگئے۔
دہشت گردی کے ان واقعات کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو کوئی وقفہ ملا اور نہ ہی ان کے اداروں کی جانب سے معاونت فراہم کی گئی جب کہ ان کی شخصیت سے ذہنی تناؤ کی علامتوں کا واضح اظہار ہورہا تھا۔اسی ذہنی تناؤ کے باعث محمد ارشاد کا روزمرہ کا معمول اور کارکردگی متاثرہوئی ہے۔
انہوں نے کہا:’’ میں روزانہ پانچ خبریں فائل کیا کرتا تھا لیکن اب مجھ سے دو بھی نہیں ہو پاتیں۔‘‘
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ماہرِ نفسیات پروفیسر ڈاکٹر رضوان تاج نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات ان لوگوں پر نفسیاتی اثرات مرتب کرتے ہیں جو ان کامشاہدہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافی چوں کہ فیلڈ میں بم دھماکوں کے واقعات کا مشاہدہ کرتے ہیں جس کے باعث وہ ذہنی تناؤ اور مختلف نفسیاتی مسائل جیسا کہ ڈپریشن اور تھکان کا شکار ہوسکتے ہیں۔
ڈاکٹر رضوان تاج پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد کے شعبۂ نفسیات کے سربراہ ہیں‘ وہ کہتے ہیں:’’ دہشت گردی اور ایسے ہی دوسرے المناک واقعات کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ملک میں امن و امان کے ابتر حالات کے باعث پاکستان بحرانی دور سے گزر رہا ہے جس کے باعث تشویش، ذہنی تناؤ، نیند میں خلل اور شیزوفرینیا جیسے نفسیاتی عارضے عام ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر رضوان تاج نے مزید کہا:’’ خیبرپختونخوامیں دہشت گردی کے واقعات ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہورہے ہیں جس کے باعث صوبہ کے باسیوں میں نفسیاتی عارضوں کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘
محمد ارشاد گزشتہ دو ماہ سے یونیورسٹی آف پشاور میں صحافیوں کے لیے قائم ٹراؤما سنٹر (سی ٹی سی جے) سے ذہنی تناؤ کا علاج کروا رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مذکورہ ٹراؤما سنٹر سے دو ماہ پر مشتمل تھراپی مکمل کی ہے۔ ان کواپنے نفسیاتی علاج کے لیے مزید ایک ماہ تھراپی کروانی ہے لیکن وہ اب قدرے بہتر محسوس کررہے ہیں۔
محمد ارشاد کہتے ہیں:’’ میں نے جب سے علاج کے لیے مذکورہ سنٹر جانا شروع کیا ہے‘ اس روز سے خودکو پرسکون محسوس کررہا ہوں۔ میرا تمام تر معمول تبدیل ہوچکا ہے۔ میں قبل ازیں نیند میں خلل اور ذہنی تناؤ کا سامنا کررہا تھا لیکن اب طبیعت قدرے بحال ہوئی ہے۔‘‘
دہشت گردی کے واقعات کی کوریج کیے جانے کے باعث پیدا ہونے والے ذہنی دباؤ سے نمٹنے کے لیے گزشتہ برس نومبر میں خیبرپختونخوا اور فاٹا کے صحافیوں کے علاج کے لیے مذکورہ سنٹر قائم کیا گیا تھا۔ یہ سنٹر یونیورسٹی آف پشاور کے شعبۂ صحافت اور شعبۂ نفسیات کا مشترکہ منصوبہ ہے۔
جرمنی کے عالمی میڈیا کی ترقی کے معروف ترین ادارے ڈوئچے ویلے اکیڈمی‘ یونیورسٹی آف پشاور کے ساتھ کی جانے والی مفاہمتی یادداشت (ایم او یو) کے تحت اس منصوبے کو تین برس تک معاشی اور تکنیکی معاونت فراہم کرے گی۔
شعبۂ صحافت کے سربراہ پروفیسر عطاء اللہ خان نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے والے صحافی تشدد اور خطرات سے متاثرہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ اس سنٹر کا قیام وقت کی ضرورت تھا۔ اس منصوبے کے پس پردہ صحافیوں کی مدد کا خیال کارفرما تھا تاکہ ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں اور ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں اور کیریئر متاثر نہ ہو۔‘‘
انہوں نے کہا کہ مذکورہ سنٹر میں صحافیوں کو بلامعاوضہ نفسیاتی معاونت فراہم کی جارہی ہے۔
یونیورسٹی آف پشاور کے شعبۂ نفسیات میں قائم کیے گئے اس سنٹر میں اب تک 20صحافی خود کو رجسٹرڈ کروا چکے ہیں جن میں سے چھ کی تھراپی مکمل ہوچکی ہے۔
یونیورسٹی آف پشاور کے شعبۂ نفسیات کی سربراہ ڈاکٹر ارم ارشاد نے کہا کہ چھ صحافی سنٹر میں رجسٹرہونے کے بعد سے اب قدرے بہتر محسوس کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سائیکو تھراپی میں بڑا مسئلہ مریضوں کو یہ ادراک کروانا ہوتاہے کہ وہ نفسیاتی عارضے کا شکار ہیں۔
ڈاکٹر ارم ارشاد اس سنٹر کی سربراہ بھی ہیں‘ وہ کہتی ہیں:’’ ظاہر ہے کہ صحافیوں میں ذہنی تناؤ کی وجوہات میں سے ایک ان کی جانب سے پرتشدد واقعات کی کوریج کرنا بھی ہے۔ہم صبر کے ساتھ ان (صحافیوں) کا علاج کررہے ہیں تاکہ وہ ایک بہتر اور خوشگوار جیون بسر کرسکیں۔‘‘
ڈوئچے ویلے اکیڈمی کی کنٹری ڈائریکٹر کیرن شیلڈر نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تنظیم پاکستان میں صحافیوں کی فلاح اور ان میں پیشہ ورانہ رموز اجاگر کرنے کے لیے کام کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں مذکورہ سنٹر صحافیوں کی نفسیاتی و سماجی مدد کے لیے قائم کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ ڈوئچے ویلے اکیڈمی ایسا ہی ایک سنٹر بلوچستان میں بھی قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔‘‘