بنوں (احسان داوڑ سے) سلیم زاہب طویل عرصہ تک وزیرستان کے سرحدی علاقوں میں شاعر کی حیثیت سے معروف رہے۔ وہ ہنوز شاعرہیں لیکن اب ان کی شاعری کے موضوعات تبدیل ہوگئے ہیں۔
40برس کے سلیم زاہب برسوں تک اپنی پرجوش رومانی شاعری کی بنا پر معروف رہے‘انہوں نے شاعری کی مختلف اور پیچیدہ اصناف میں محبت اور جیون کے احساس کو اجاگر کیا۔ جب ان کی شاعری شاعروں کی نشست یعنی مشاعروں میں پڑھی جاتی یا موسیقی کی مدھر دھنوں سے ہم آہنگ ہوتی تو یہ محبوب سے وصل کے آرزومند عشق کے دلربا مرض کا شکار نوجوان نسل کی آواز بن جاتی۔
انہوں نے برسوں قبل یہ شعر کہا تھا:’’ اے بادِ صبح! جب میری محبوبہ کو چھونا‘اس سے یہ کہناکہ تم میری زندگی اور روح ہو۔‘‘انہوں نے یہ اشعار تخلیق کیے:’’ اس کی زلفیں پریشاں ہیں ‘ جب وہ محوِ خواب ہوتی ہے تو تم اسے جگاتے ہو۔ اس کی مجھ سے قرب کی خواہش کس قدر شدید ہوتی ہے جب وہ میری منتظر ہوتی ہے۔ اور اس کا یہ دُکھ آہ!جب وہ میری کمی محسوس کرتی ہے۔‘‘
وہ یہ شاعری اچھے وقتوں میں کیا کرتے تھے۔ سلیم زاہب اب پاک افغان سرحد سے متصل دوسرے پشتون شاعروں کی طرح صرف ایسی شاعری تخلیق کرتے ہیں جن میں دُکھ اور درد کا احساس جاوداں ہے۔ محبت اور زندگی کا جنوں اب یاس میں تبدیل ہوچکا ہے کیوں کہ ان کی شاعری میں عسکریت پسندی، دہشت گردی اور لوگوں کی مشکلات کے باعث گریہ زاری کا دنیاوی رنگ غالب آگیا ہے ۔
سلیم زاہب نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’پشتون اکثریتی سرحدی علاقوں کے باسیوں کا جیون زہرآلود ہوچکا ہے۔ ہر شعب�ۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ متاثر ہوئے ہیں‘ خواہ وہ کاروبار کرتے تھے یا ثقافتی و سماجی سرگرمیوں میں نمایاں تھے۔شاعروں کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ ہم اس سماج کا حصہ ہیں اور ہماری شاعری اور فکر اس دھرتی کی خوشیوں اور دُکھوں کی نمائندہ ہے۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ میں ہوا میں پھیلی بارود کی باس کو محسوس کرسکتا ہوں‘ سڑکوں کے کناروں پر مسخ شدہ لاشے دیکھتا ہوں۔ میں نے اپنا گھر چھوڑا اور میری کوئی غلطی نہیں تھی۔ میں نے اپنے پیاروں کی آخری رسومات میں شرکت کی جو بے گناہ مارے گئے تھے۔ میں دیکھتا ہوں کہ میرے علاقے کے نوجوان مارے جارہے ہیں یا عسکریت پسند بن رہے ہیں اور یہ سب نہایت ارزاں ہوچکا ہے۔ میں روز دیکھتا ہوں کہ ہمارے سکول بم دھماکوں سے تباہ کیے جارہے ہیں۔ میَں کس طرح گلابی ہونٹوں ، لہراتی زلفوں اور محبت کی بات کرسکتا ہوں جب میری محبوبہ دربدر ہوچکی ہے۔‘‘
اُردو اور پشتو کے 76برس کے شاعر ، مصنف اور نقاد سلیم رازکہتے ہیں کہ شاعر اور مصنف سماج کے سب سے زیادہ حساس لوگ ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ ایک سماج معروضی حالات سے جس طرح متاثر ہوتا ہے‘ اس کا اثر ہماری تحریروں اور ادب پر بھی ہوتا ہے۔ادیب اور شاعر عام لوگوں سے قبل تبدیل ہوتے ہوئے حالات کا ادراک کرلیتے ہیں۔‘‘
پاکستان کے شہری علاقوں میں بسنے والے تخلیق کاروں کی نسبت شورش زدہ قبائلی معاشرے کا حصہ ہونے کے باعث ان علاقوں کے شاعروں پر اردگرد کے حالات بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔
سلیم راز نے کہا:’’پشاور اور کسی بھی دوسرے علاقے سے بہت پہلے قبائلی علاقوں میں پشتو شاعری کا آہنگ تبدیل ہوگیا تھا۔‘‘
رومانی روایت سے تعلق رکھنے والے شاعر بہار وزیر نے ایک پشتو گیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جس میں ایک لڑکی اپنے محبوب کو الوداع کرتے ہوئے اس سے اپنے لیے تحفہ لانے کے لیے کہتی ہے:’’اب کوئی محبوبہ اپنے محبوب سے اس خواہش کا اظہار نہیں کرتی کہ وہ پشاور سے واپسی پر اس کے لیے شال لے کر آئے۔اس کے بجائے وہ اسے اس خوف کے باعث جانے سے روکتی ہے کہ کہیں کسی بم دھماکے میں اس کا محبوب اس کو ہمیشہ کی جدائی کا صدمہ نہ دے جائے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ سے قبل پشتو شاعری کا آہنگ اور انداز مختلف تھا۔
بہار وزیر نے کہا:’’ قبل ازیں شاعر پھولوں، باغوں، اپنے محبوب یا محبوبہ کے حسن کا ذکر کرتے تھے لیکن اب شاعری میں یاس کی کیفیت نمایاں ہوگئی ہے کیوں کہ دہشت گردی نے اس خطے میں دوسرے تمام شعبوں کی طرح شاعری کو بھی متاثر کیا ہے۔‘‘
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے شاعر اور ادبی تنظیم وحدت ادبی تولانہ کے صدر جاوید جان نے کہا کہ شاعری زندگی کی عکاس ہوتی ہے‘ اگر جنگ ہورہی ہو تو ایک شاعراس کی ہولناکیوں کا ذکر کرتا ہے اور اگر امن ہو تو شاعر محبت اور جیون کی کتھا لکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں ایک شاعر کے لیے خوشیوں کا گیت لکھنا ممکن نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے کہا:’’ دہشت اور ہولناکی تخیل پر غالب آجاتی ہے۔ میں کسی اور موضوع پر قلم اٹھانا چاہتا ہوں لیکن درپیش حالات اور سوچوں کی رَو میں بہہ جاتا ہوں۔‘‘
دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے سے قبل ان کی شاعری کا انداز مختلف تھی‘ انہوں نے برسوں قبل مارچ کے مہینے میں ایک شعر کہا تھا جب درختوں پر جوبن آیا ہوتا ہے:’’بہار کا موسم ہے اور خوشی کا کوئی احساس نہیں‘ کیا یہ عجیب نہیں؟ میں نہیں جانتا دیوانہ پن کہاں چلا گیا۔‘‘
جاوید جان نے کہا کہ اگر دل جوان ہو تو ہر موسم بہار کا موسم ہوتا ہے۔ لیکن دہشت گردی کی لہر نے شاعر کے تخیل کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ جیسا کہ جاوید جان کہتے ہیں:’’ میرا جنم ایک پشتون گھرانے میں ہوا‘ میرا پھولوں اور موسمِ بہار سے کوئی تعلق نہیں۔ میں اس بارے میں کوئی ادراک نہیں رکھتا‘ اپنے قابلِ فخر آباؤ اجداد کا کیا ذکرکروں۔ بہادری کا کہہ کر مجاہد بنا دیا گیا جب کہ حقیقت میں میرا استحصال ہوا۔ میں ان شہروں کا کیا کروں جب مجھے سیاہ پہاڑوں میں جیون بسر کرنا ہے۔‘‘
خطے میں جاری شورش ادیبوں اور شاعروں کی خطے کے مستقبل کے حوالے سے فکر پر بھی اثرانداز ہوئی ہے۔
سلیم راز پُرامید ہیں۔ وہ پشتونوں کے لیے’’جنگ کی پرچھائیں کے بعد روشن مستقبل‘‘ کی امید رکھتے ہیں۔جاوید جان کہتے ہیں کہ یہ شورش لوگوں کی مطابقت پذیری کی اہلیت میں اضافہ کرے گی۔
انہوں نے کہا:’’ جب ہم اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے تو ایک نئی زندگی شروع کریں گے۔ میں پُرامید ہوں کہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے اور خامیوں پر قابو پائیں گے۔‘‘
سلیم زاہب کا نقطۂ نظر مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’ جب تک ہم تعلیم حاصل نہیں کرلیتے‘ میَں اس سرنگ کے دوسرے کنارے پر روشنی کی کوئی کرن نہیں دیکھتا۔ ہم جرأت اور میزبانی کے نام پر استعمال ہوتے رہیں گے۔ وہ عناصر جو ہمارا استحصال کر رہے ہیں‘ اپنے مقاصدکے لیے ہمارا خون بہا کر اپنے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کرتے رہیں گے۔‘‘
انہوں نے اپنی ایک نظم’’رہنماء کے بغیر ایک قبائلی‘‘ پڑھی:’’ انہوں نے مجھے جنگ کی ہولناکی میں دھکیلا‘ دہشت گرد قرار دے ڈالا ‘ بے دردی سے لہو بہایا اور اپنے الزامات کی بھینٹ چڑھا دیا، کیوں کہ میں ایک ایسا قبائلی ہوں جس کا کوئی رہنماء نہیں۔‘‘