پاک چین کاریڈورکے راستے میں مبینہ تبدیلی کے خلاف حزبِ اختلاف کا احتجاج

0
4090

کوئٹہ (مالک اچکزئی سے)سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی کے کارکن بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں پاکستان اور چین کے درمیان قائم ہونے والی ’’معاشی راہداری‘‘ میں مبینہ تبدیلی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی بندرگاہ گوادر اور چین کے مغربی شہر کاشغر کو سڑک اور ٹرین کے ذریعے آپس میں ملانے والے دو ہزار کلومیٹرطویل راستے کو ’’معاشی راہداری‘‘ کا نام دیا گیا ہے ‘یہ منصوبہ چینی حکومت 46ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری سے مکمل کرے گی جس سے انفراسٹرکچر کی تعمیر اور روزگارکے مواقع کی دستیابی کے باعث خطے میں خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔
کریڈٹ ریٹنگ کی ایک بڑی عالمی ایجنسی موڈی انویسٹر سروسز کے مطابق یہ منصوبہ پاکستان کے لیے معاشی اعتبار سے مثبت نتائج کا حامل ثابت ہوگا جب کہ اس سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بھی بڑھے گی کیوں کہ اس منصوبے کے باعث ہونے والی معاشی ترقی سے حکومتی آمدن میں اضافہ ہوگا۔
اگرچہ اس منصوبے پر فی الحال کام شروع ہونا ہے لیکن یہ اس سے قبل ہی تنازعات کی زد پر آگیا ہے۔حزبِ اختلاف کے رہنما ء معاشی راہداری کے راستے میں مبینہ تبدیلی پر احتجاج کررہے ہیں جو منصوبے کے مطابق کم ترقی یافتہ صوبوں خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے گزرے گی۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے سیاست دانوں اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کی جانب سے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہاہے کہ اس معاشی راہداری کو پنجاب سے بھی جوڑا جائے گاجس کے خلاف متعدد مظاہروں، سیمینارز اور عوامی اجتماعات کا انعقاد کیا جاچکا ہے۔
اسلام آباد میں پاک چین معاشی راہداری پر ہونے والی کل جماعتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے کہا:’’ راہداری اور رابطہ سڑکوں میں فرق ہوتا ہے۔ وہ(حکومت) خیبرپختونخوا، فاٹا اور بلوچستان میں رابطہ سڑکوں کی تعمیر کے بارے میں بات کرتی ہے کیوں کہ درحقیقت یہ راہداری (پاک چین معاشی کاریڈو)اس خطے سے نہیں گزرتی۔ وفاقی حکومت صرف پنجاب کو ہی پاکستان کے طور پر دیکھتی ہے جب کہ پسماندہ علاقوں اور عوام کی جانب کوئی دھیان نہیں دیاجاتا۔ہم ایک دوستانہ وفاق کے خواہاں ہیں جو تمام فریقوں کے ساتھ یکساں سلوک کرے۔‘‘
انہوں نے کہا:’’معاشی کاریڈور کے راستے میں اس تبدیلی کو پشتون اور بلوچ عوام ایک اور کالا باغ ڈیم تصور کرے گی۔‘‘
دوسری جانب برسرِاقتدار جماعت مسلم لیگ (نواز) کئی مواقع پر اس منصوبے کی وضاحت کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔
اسلام آباد میں گوادر سے متعلق ہونے والے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا:’’ پاک چین معاشی کاریڈور پر دو مرحلوں میں کام ہونا ہے ‘ پہلے مرحلے میں لاہور سے پشاور تک قائم موٹروے کو لاہور تا کراچی موٹروے سے جوڑا جائے گا جب کہ ملک کے جنوبی و شمالی حصوں کو مختلف موٹرویز قائم کرکے ایک دوسرے سے منسلک کیا جائے گا۔‘‘
انہوں نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا تھا:’’پاک چین معا شی کاریڈور کی تعمیر کے دوسرے مرحلے میں ترقیاتی منصوبوں کی رفتار اور ٹریفک کے بہاؤ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے گوادر کو بلوچستان کے دیگر علاقوں اور خیبرپختونخوا سے جوڑا جائے گا۔ چین کے تعاون سے قراقرم ہائی وے حویلیاں تک بہتر بنائی جارہی ہے اور این 85پر کام بھی تین ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا جو طویل عرصہ سے التوا کا شکار ہورہا تھا‘ یہ شاہراہ گوادر کو رتوڈیرو سے ملائے گی۔ اس شاہراہ کی تعمیر سے نہ صرف فاصلے کم ہوجائیں گے بلکہ پاکستان بھر سے گوادر تک رسائی آسان ہوجائے گی جس کے باعث گوادر میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔‘‘
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے رکن سینیٹر عبدالرؤف خان نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ معاملہ کچھ یوں ہے کہ منصوبے کے تحت گوادر کاشغر راہداری کو بسمہ، خضدار، قلات، اور کوئٹہ سے ژوب، ڈی آئی خان، حسن ابدال سے ہوتے ہوئے کاشغر تک پہنچنا تھا لیکن اس کا رُخ تبدیل کرکے بسمہ، رتوڈیرو اور پنجاب کی جانب کر دیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اب یہ بلوچ اور پشتون علاقوں سے نہیں گزرے گی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا، فاٹا اور بلوچستان کے پشتون اور بلوچ علاقوں میں معاشی ترقی اور خوشحالی سے عسکریت پسندی میں نمایاں کمی آئے گی۔ انہوں نے مزید کہا:’’وفاق کی جانب سے فیصلے مسلط کیے جانے کے باعث پشتون اور بلوچ آبادی میں بے گانگی کا احساس پروان چڑھ رہاہے۔ معاشی راہداری میں تبدیلی کا مطلب ہر معاشی سرگرمی کو پنجاب منتقل کرنے کے علاوہ دوسرے علاقوں کو نظرانداز کرنا بھی ہے۔‘‘
بلوچستان ریپبلکن پارٹی کے ترجمان شیر محمد بگٹی نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی کا بلوچستان پر جبری اور غیرقانونی قبضے کا نقط�ۂ نظر واضح ہے۔ انہوں نے کہا:’’ ایک قابض ریاست کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسری ریاست کے ساتھ بلوچ سرزمین کے حوالے سے کوئی معاہدہ کرے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو بلوچستان ریپبلیکن پارٹی ہر فورم پر اس کی مذمت کرے گی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ بلوچ دھرتی پر شروع کیے جانے والے پاکستان ، چین اور ایران کے درمیان منصوبوں پر عملدرآمدکے لیے ہونے والے معاہدوں کی بلوچ قوم کی نظر میں کوئی وقعت نہیں‘ تاوقتیکہ اس میں ان کی منشا شامل نہیں کی جاتی۔شیر محمد بگٹی کا کہنا تھا:’’ ہوسکتا ہے کہ بلوچ قوم کمزور ہو لیکن ہم ہر فورم پر احتجاج کریں گے۔‘‘
الاسی تحریک (پیپلز موومنٹ) کے سربراہ سعید عالم محسود کہتے ہیں:’’ یہ واضح ہوچکا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور ان کی ٹیم معاشی راہداری کا راستہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاناتو پھر احسن اقبال کیوں کر ڈیرہ غازی خان، رتوڈیرو، خضداراور گوادر روٹ کی بات کرتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حسن ابدال، فتح جنگ، داؤد خیل (میانوالی)، ڈیرہ اسماعیل خان، ژوب، کوئٹہ اور گوادر سے گزرنے والا گوادر کاشغر روٹ فاٹا،خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے عوام کی قسمت بدل ڈالے گا۔ موٹرویز، فاسٹ ٹریک ریلوے، فائبر آپٹک لائن، آئل و گیس کی پائپ لائنوں، آزادانہ تجارت اور صنعتی زون کی تعمیر معاشی راہداری کے بنیادی اجزا میں شامل ہے ‘ یہ منصوبے خوشحالی کی جانب پیش قدمی کا باعث بنیں گے۔سعید عالم محسود نے کہا:’’اس معاشی راہداری کے اطراف میں معدنیات، جیسا کہ کرومیم، زنک، کاپر، سونا، سنگِ مرمر، لوہے وغیرہ کے ذخائربڑے پیمانے پر موجود ہیں جو استعمال میں آجائیں گے۔اگر حزبِ اختلاف کے مطالبے پر عمل کیا جاتا ہے تواس سے علاقے کامعاشی مستقبل تبدیل ہوجائے گا۔ موٹروے اور ریلوے کی وجہ سے نہ صرف ان علاقوں تک رسائی آسان ہوجائے گی بلکہ یہ علاقے چین، افغانستان اور وسطی ایشیاء کے دوسرے ملکوں سے بھی جڑجائیں گے۔‘‘
نیشنل یوتھ آرگنائزیشن سے منسلک ثناء اعجاز کہتی ہیں کہ اگر روٹ پشتون اور بلوچ علاقوں سے گزرتا ہے تو ’’لازمی طور پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور محدود پیمانے پر کاروبار اور صنعتوں کو فروغ حاصل ہو گا۔‘‘
سماجی کارکن ثناء اعجاز نے کہا:’’ ہمارے علاقے نہ صرف دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں بلکہ احساسِ محرومی میں بھی اضافہ ہواہے۔ اگر ہم خیبرپختونخوا اور پنجاب میں عسکریت پسندی کے تناسب کا جائزہ لیں تو موخرالذکر صوبے میں عسکریت پسندی کے اِکا دُکا واقعات ہی رونما ہوتے ہیں جس کی بنیادی وجہ صوبے کا معاشی ترقی کرنا بھی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایک متحدہ وفاق تصور کیا جانا چاہیے اور محروم پشتونوں اور بلوچوں کو مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ ان کا احساسِ محرومی ختم ہو۔انہوں نے کہا:’’اگر چین معاشی کاریڈور جیسے منصوبوں کی کامیابی کا خواہاں ہیں تو اسے اپنے مجوزہ روٹ یعنی فطری راہداری (بلوچستان، خیبرپختونخوا اور فاٹا) کا انتخاب ہی کرنا چاہیے۔‘‘
ثناء اعجاز نے کہا’’ پشاور اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان ٹرک چلانے والے 95فی صدڈرائیوروں کا تعلق ان علاقوں( فاٹا، خیبرپختونخوا اور بلوچستان ) سے ہے۔ اگر روٹ کا تعین کر لیا جاتا ہے تو یہ لوگ اِدھر ہی کام کریں گے اورکم کام کرکے بھی زیادہ کمانے میں کامیاب رہیں گے۔‘‘
سعیدعالم محسود نے کہا کہ پشتون اور بلوچ علاقوں میں کوئی صنعت ہے اور نہ ہی ان علاقوں کے باسی کوئی تکنیکی علم رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ جب ان علاقوں میں صنعتی اور فری ٹریڈ زون بن رہے ہوں گے تو یہ (پشتون اور بلوچ) لوگ ملازمت حاصل کرنے کے علاوہ اپنا کاروبار شروع کرسکیں گے‘ نئی صلاحیت اور تکنیک سے متعارف ہوں گے‘ ان کے تکنیکی علم میں اضافہ ہوگا اور وہ انتظامی مہارتوں سے مالامال ہوجائیں گے اور بالآخر بڑی کارپوریشنیں قائم کرنے کے قابل ہوسکیں گے جیسا کہ مشرقی چین، امریکہ اور کینیڈا میں معاشی کاریڈورز کی تعمیر کے بعد ہوا۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ اگر حقیقت پسندانہ تناظر میں بات کی جائے تو پاکستان صرف پنجاب تک محدود ہے اور پنجاب ہی درحقیقت پاکستان ہے۔ خدمات کی فراہمی سمیت ریلویز، موٹرویز، نیشنل ہائی ویز، ایئرپورٹس، اریگیشن، بجلی کے کنٹرول سمیت تمام شعبوں کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ پنجاب ایک سلطنت ہے اور باقی خطے مغلوب ہیں یا پھر کالونیاں ہیں۔ ایک جابر ریاست کا رویہ اپنی کالونیوں کے ساتھ ہمیشہ ایک جیسا ہی رہتا ہے۔ یہ ہی وہ بنیادی وجہ تھی جس کے باعث مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here