سندھ میں سیاسی عدم دلچسپی کے باعث تعلیمی نظام مسائل کا شکار

0
4467

: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzaiکراچی (تہمینہ قریشی سے) سندھ پاکستان کا اولین صوبہ تھا جس نے تعلیم کے حصول کو نہ صرف بلامعاوضہ کیا بلکہ لازمی بھی قرار دیالیکن اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ سندھ تعلیمی شعبہ میں ملک کے دوسرے علاقوں سے کہیں پیچھے رہ گیا ہے کیوں کہ صوبے کے نصف سے زائد طالب علم سکول نہیں جارہے جب کہ باقی نصف کھلے آسمان تلے یا اساتذہ کے بغیر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ 
الف اعلان کے تحت کروائے جانے والی مختلف سروے رپورٹوں کے مطابق سندھ میں پانچ سے16برس تک کی عمر کے مجموعی طور پر 12ملین بچوں میں سے نصف سے زائد یعنی 6.1ملین بچے سکول نہیں جاتے۔دوسری جانب محکمۂ تعلیم سندھ کے مطابق وہ بچے جو کسی نہ کسی طرح سکول جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں‘ان کو فراہم کی جانے والی تعلیمی سہولیات ناقص ہیں کیوں کہ 77فی صد سکولوں کی حالتِ زار ’’غیراطمینان بخش‘‘ ہے۔
الف اعلان سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سکولوں کی حالتِ زار کا اندازہ اس اَمر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ کے سات میں سے صرف ایک سکول کی بیرونی دیوار ہے اور ان میں سے تقریباً نصف میں بیت الخلا کی سہولت تک دستیاب نہیں۔
دو برس قبل چھ مارچ 2013ء کو سندھ حکومت نے بلامعاوضہ اور لازمی تعلیم کا ایکٹ منظور کیا تھا جس کے تحت پانچ سے 16برس کی عمر تک کے ہر بچے کو تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ دار ریاست ہے۔ تاہم مذکورہ بالا اعداد و شمار سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ صوبہ اس تاریخی قانون سازی پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہا ہے۔ 
ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظام
حکومتِ سندھ کے محکمۂ پلاننگ و ڈویلپمنٹ سے منسلک شیریں ناریجو کہتی ہیں کہ صرف کراچی میں ضلع بھر کے تمام بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے 32ہزار مزید کلاس روم قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر پورے صوبے کی بات کی جائے تو ان 60لاکھ بچوں کو، جو تعلیم حاصل نہیں کرپائے، تعلیم دینے کے لیے لاکھوں مزید کلاس روم قائم کرنا ہوں گے۔
تاہم شیریں ناریجو یہ یقین رکھتی ہے کہ یہ مسئلہ صرف ساختیاتی نوعیت کا ہی نہیں ہے۔ سندھ میں تعلیمی شعبے پر اثرانداز ہونے والے عوامل کا بڑی حد تک تعلق نظام میں موجود خامیوں سے بھی ہے۔ انہوں نے کہا:’’ سب سے پہلے تو صوبے میں مڈل اور ہائی سکولوں کی تعداد ناکافی ہے۔ دوسرا، 82فی صد ایسے بچے جوجماعت اول میں زیرِتعلیم ہیں‘ وہ جماعت دہم میں پہنچنے کے بعد اپنا تعلیمی سلسلہ ترک کردیتے ہیں اور ان میں سے 40فی صد سے زائد ایسا جماعت پنجم یا ششم میں کرتے ہیں۔‘‘
مزیدبرآں سندھ کے سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر فضل اللہ پچوہو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ صوبے میں چھ ہزار سکول کام نہیں کر رہے جب کہ تقریباً40ہزار’’گھوسٹ‘‘ اساتذہ خدمات انجام نہیں دے رہے۔ 
معروف ماہرِ تعلیم اور نجی یونیورسٹی شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی صد شہناز وزیر علی کہتی ہیں کہ انفراسٹرکچر کی تباہ حالی کے علاوہ ایک اہم مسئلہ تعلیمی نظام کی ناقص مینجمنٹ کا بھی ہے۔
وہ یہ یقین رکھتی ہیں کہ تعلیمی پالیسیاں درست نہیں ہیں کیوں کہ ان کو تشکیل دیتے ہوئے حقائق کو پیشِ نظر نہیں رکھا گیا۔ 
انہوں نے کہا:’’وہ لوگ جو ان اَمور کے نگران ہیں‘ جب پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں تو زمینی حقائق سے آگاہ نہیں ہوتے کہ ان کے کیا مضمرات برآمد ہوسکتے ہیں۔ تعلیمی منصوبہ سازی کی مرکزیت کا نتیجہ اس کی بدانتظامی کی صورت میں نکلاہے۔ اس وقت مختلف محکموں کے درمیان بہتر رابطہ کاری اور تعاون جب کہ مختلف اعداد و شمار کو مناسب انداز سے یکجا کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس جانب قطعی طور پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔‘‘
شہناز وزیر علی نے اپنا مؤقف اس مثال سے واضح کیا کہ گزشتہ 30برسوں سے ایجوکیشن مانیٹرنگ انفارمیشن سسٹم حکومت کو متعلقہ اعداد و شمار فراہم کرتا رہا ہے جن کی تشریح کی ضرورت ہے تاکہ ان عوامل کی کھوج کی جاسکے جن کے باعث بچوں کے سکولوں میں داخلوں کی شرح متاثر ہوتی ہے اور ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مختص کیے جانے والے بجٹ سے’’ناقص‘‘ منصوبہ بندی واضح ہوجاتی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ پالیسی سائنسز (آئی-ایس اے پی ایس) کے ایک تجزیے کے مطابق صوبائی تعلیمی بجٹ حقیقی چیلنجوں کا احاطہ نہیں کرتا۔ آئی-ایس اے پی ایس کے پروگرام لیڈر احمد علی نے کہا کہ موجود ہ مالی سال (2014-15ء ) کے دوران تعلیم کے لیے مختص کیے گئے فنڈز(149.5ارب روپے) میں مجموعی طور پر 10فی صد اضافہ کیا گیا۔ 
تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے مختص کیے گئے اس بجٹ میں سے 90فی صد تنخواہوں میں اضافے کی مد میں رکھے گئے جب کہ ترقیاتی بجٹ تقریباً12فی صد کم کر دیا گیا۔ 
سیاسی عدم دلچسپی
کراچی یونیورسٹی کے پاکستان سٹڈی سنٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر جعفر احمد اپنے تحقیقی مقالے بعنوان ’’Post-Devolution Status of Education in Sindh‘‘ میں تعلیمی شعبہ کی ناقص مینجمنٹ کی وجہ سیاسی عدم دلچسپی کو قرار دیتے ہیں۔ 
وہ اپنے تحقیقی مقالے میں یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ صوبوں کی بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کی مناسب اہلیت نہ ہونے کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ صوبائی حکومت ایسا کرنے میں سیاسی طور پر کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ 
پروفیسر ڈاکٹر جعفر احمد کے مطابق کسی بھی طرح کی قانون سازی کے درست طور پر نفاذ کے لیے سماج اور حکومت کو اس کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔ 
2011ء میں پارلیمان سے 18ویں آئینی ترمیم کے منظور ہونے کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبائی عملداری میں آگیا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ہیں کہ صوبائی حکومتیں اور لوگ دونوں اس آئینی ترمیم کے باعث ہونے والی اس تبدیلی کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے جس کے باعث تعلیمی نظام پر سماجی اثر ورسوخ قائم نہیں ہوسکا جس کی ایک وجہ سیاسی عدم دلچسپی بھی تھی۔
انہوں نے مزید کہا:’’ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں میں آئینی ترمیم اور تبدیلی کے حوالے سے جوش و ولولہ پیدا کرے۔ افسرِ شاہی اور حکومت نے صوبے میں بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے حوالے سے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔‘‘
حکومتی ردِعمل
ایک جانب صوبائی وزیرِتعلیم نثار احمد کھوڑو تعلیمی نظام میں خامیوں کو تسلیم کرتے ہیں تو دوسری جانب وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی حکومت ہر وہ اقدام کر رہی ہے جن کے ذریعے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کیے گئے اقدامات کی تفصیل سے وضاحت کی اور کہا کہ وہ بند پڑے سکولوں کو کھولنے اور ’’گھوسٹ‘‘ اساتذہ کی تعیناتی اور تبادلوں پر پابندی کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ حکومت نے نیشنل ٹیسٹنگ سروس کی جانب سے ترتیب دیے گئے ٹیسٹ کو متعارف کروا کر’’گھوسٹ‘‘ اساتذہ کی تقرریوں کی میرٹ پر توثیق کے لیے پالیسی متعارف کروائی ہے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ ان کی نگرانی میں ہونے والی تمام تقرریاں میرٹ پر ہوئی ہیں۔
اساتذہ کی سکولوں میں حاضری یقینی بنانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ انہوں نے تبادلوں اورتقرریوں پر پابندی عاید کر دی ہے اور صرف اسی صورت میں اساتذہ کا مخصوص مقامات پر تبادلہ کیا جائے گا جب بند سکولوں کو کھولنا مقصود ہوگا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بند سکولوں کی تعداد تقریباً نصف رہ گئی ہے جو کہ اب تین ہزار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے طالبات کے لیے بلامعاوضہ کتابوں کی فراہمی کے علاوہ ووظیفہ بھی متعارف کروایا ہے تاکہ ان کی سکولوں میں جانے کے حوالے سے حوصلہ افزائی ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ دیہی و شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والی جماعت ششم سے جماعت دہم تک کی ساڑھے چار لاکھ طالبات کو بالترتیب 35سے 25سوروپے تک ماہانہ وظیفہ دیا جارہا ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ صوبہ بھر کے ان ایک ہز ارسکولوں کی نشاندہی کی جاچکی ہے جہاں پر طالب علموں کی حاضری زیادہ ہے اور ان کی بیرونی امداد سے تعمیر و مرمت کی جائے گی۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here