خیبرایجنسی: باڑہ میں ایک دہائی تک جاری رہنے والی عسکریت پسندی کے بعد سکول کھلنے لگے

0
4162

: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzai

باڑہ، خیبر ایجنسی ( اشرف الدین پیرزادہ سے) ایک دہائی سے جاری رہنے والی تباہ کن عسکریت پسندی کے باعث صوبہ خیبرپختونخوا میں انفراسٹرکچر بڑی حد تک تباہ ہوگیا ہے‘ لیکن اس قدر طویل عرصہ گزرنے کے بعد اب پاک افغان سرحد سے متصل قبائلی اضلاع میں سرکاری سکول و کالج کھلنے لگے ہیں۔ 
ایجنسی کے تعلیمی حکام کے مطابق تحصیل باڑہ میں 10 برس تک جاری رہنے والی عسکریت پسندی کے دوران لڑکے اور لڑکیوں کے مجموعی طو رپر 102سکول تباہ ہوئے۔ باڑہ تحصیل میں تقریباً چار سو سکول اور کالج ہیں۔ایک اندازے کے مطابق64ہزار طالب علموں کو اپنا تعلیمی سلسلہ ادھورا چھوڑنا پڑا‘جس کی وجہ یہ تھی کہ عسکریت پسندی کے باعث انہوں نے محفوظ مقامات کا رُخ کیا یا پھر باڑہ میں ان کے دیہاتوں میں قائم سکول تباہ ہوگئے تھے۔ 
خیبر ایجنسی پاک افغان سرحد سے متصل سات قبائلی ایجنسیوں میں سے ایک ہے اور یہ 2001ء سے عسکریت پسندی کا سامنا کر رہی ہے۔ شورش، عسکریت پسندی اور خیبر ایجنسی کے راستے افغانستان جانے والی نیٹو سپلائز پر حملوں کے باعث حالیہ مہینوں کے دوران عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے باعث ہزاروں لوگوں نے ایجنسی سے نقل مکانی کی۔
سکولوں کو ازسرِ کھولنے کا فیصلہ حکام کے اس دعوے کے بعد کیا گیا ہے کہ انہوں نے علاقے کو متعدد فوجی کارروائیاں کرکے نہ صرف عسکریت پسندوں سے خالی کروا لیا ہے جب کہ خطے میں امن اور حکومتی رِٹ بھی بحال ہو گئی ہے۔ 
خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ ان علاقوں میں سے ایک ہے جو عسکریت پسندی سے بدترین طریقے سے متاثر ہوئے ہیں۔ باڑہ میں سینکڑوں سرکاری سکولجن میں پرائمری، مڈل، ہائی، ہائر سکینڈری سکول اور کالجز شامل تھے ‘شورش کے باعث حکومت کی جانب سے کی گئی کارروائیوںیا پھر سکولوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں کے باعث بند کر دیے گئے۔ 
لڑکیوں کے سکولوں سمیت درجنوں تعلیمی اداروں کو بم دھماکوں سے تباہ کر دیا گیا جن کی ذمہ داری عسکریت پسندوں نے قبول کی یایہ تعلیمی ادارے سکیورٹی فورسز کی جانب سے علاقے میں طالبان اور ریاست مخالف عناصر کے خلاف جاری کارروائیوں کے باعث تباہ ہوئے۔ 
اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ (اے پی اے) ناصر خان، جو تحصیل میں تعلیم سمیت تمام محکموں کے انتظامی نگران ہیں، نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت قمبرخیل باڑہ میں متعدد سکول کھول چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ عملہ جو عسکریت پسندی کی وجہ سے مختلف علاقوں میں تعینات کیا گیا تھا‘ ان کو آگاہ کر دیا گیا ہے کہ وہ تحصیل باڑہ میں اپنے سکولوں میں حاضری یقینی بنائیں۔
ناصر خان نے کہا کہ تمام ٹیچنگ و غیر ٹیچنگ سٹاف کو ایک ہفتے کے اندر اندر حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے ‘ دوسری صورت میں ان کے خلاف نظم و ضبط کی پابندی نہ کرنے پر تادیبی کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا:’’ ہم باڑہ کے متاثرہ اور تباہ ہونے والے 80فی صد سکولوں کو خیمے اور دیگر ساز و سامان فراہم کرچکے ہیں تاکہ وہ سکولوں کی تعمیر مکمل ہونے تک اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ باڑہ کے اُن علاقوں میں کچھ سکول ہنوز بند ہے جو عسکریت پسندوں سے خالی نہیں کروائے جاسکے۔
سابق وفاقی وزیر اور معروف تبائلی رہنما ملک وارث خان آفریدی نے باڑہ میں امن و امان کے قیام کے لیے سکیورٹی فورسز اور سرکاری محکموں کی کاوشوں کو سراہا لیکن انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندی کے باعث بند اور تباہ ہونے والے تمام سکولوں کو کھولنے کے لیے وقت درکار ہوگا۔
انہوں نے کہا:’’ میرا نہیں خیال کہ بدترین عسکریت پسندی سے ایک فی صد سکول بھی محفوظ رہے ہیں ‘ عسکریت پسندی کی اس لہر نے ایجنسی کے سماجی و معاشی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ دیہی امن کمیٹیاں علاقے میں امن و امان کے حالات بہتر بنانے کے لیے سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر کام کرتی رہی ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر نے کہا :’’ شاید یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ خیبر ون فوجی آپریشن کے ذریعے عسکریت پسندوں کو پسپا کر دیا گیا ہے کیوں کہ تحصیل باڑہ میں ہنوز فضائی حملے جاری ہیں۔‘‘ 
وارث خان آفریدی نے امید ظاہر کی کہ حکومت خطے سے عسکریت پسندی کا صفایا کرنے اور نقل مکانی کرنے والے قبائلیوں کو واپس ان کے دیہاتوں اور قصبوں میں آباد کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔
ایک مقامی شخص نے سکیورٹی وجوہات کے باعث نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ بر قمبرخیل کے علاقہ میں دو لڑکوں اور ایک لڑکیوں کا سکول کھول دیا گیا ہے‘ یہ باڑہ تحصیل کے ان علاقوں میں سے ایک ہے جن کی سرحد جمرود اور پشاور سے متصل ہے اوریہ عسکریت پسندوں سے خالی کروایا جاچکا ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ بر قمبرخیل میں قائم سکول کسی بھی قسم کی رکاوٹ کے بغیر سینکڑوں بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لڑکوں کے ایک سکول میں علاقے کے پانچ سو بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں جو مقامی آبادی کے لیے حوصلہ افزا اَمر ہے کیوں کہ وہ باڑہ میں امن قائم ہونے کے بعد حال ہی میں اپنے آبائی علاقوں کو واپس لوٹے ہیں۔ 
انہوں نے مزید کہا :’’ برقمبر خیل کی نسبت قمبرخیل، سیپاہ، سپین درنگ، شالوبار اور باڑہ کے نواحی علاقے غیر محفوظ ہیں جہاں سکولوں کی 90فی صد عمارتیں اور تنصیبات بم دھماکوں یا عسکریت پسندوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے باعث تباہ ہوچکی ہیں۔‘‘
پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن باڑہ کے پریس سیکرٹری عارف اللہ آفریدی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ نجی تعلیمی ادارے بھی کھلنا شروع ہوگئے ہیں جو کہ طالب علموں کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ تحصیل باڑہ کے علاقوں اکا خیل، شین درنگ اور ملک دین خیل کے 80فی صد باسی اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں ‘ ان کے مطابق ان علاقوں میں تمام سرکاری اور نجی سکولوں میں تدریسی عمل شروع ہوچکا ہے۔
عارف اللہ آفریدی نے اپنے سکول (أبوبکر پبلک سکول) میں 18جنوری 2015ء تک 780طالب علموں کو داخلہ دیاہے۔ انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندی کی وجہ سے ہزاروں بچوں کا تعلیمی سلسلہ متاثر ہوا ہے۔ ان کے سکول کے سات بچے باڑہ میں عسکریت پسند کارروائیوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن میں شہید ہوگئے۔ 
انہوں نے کہا :’’2009ء سے جاری عسکریت پسندی کے باعث باڑہ کے 72نجی سکولوں میں سے چھ مکمل طور پر تباہ ہوگئے جب کہ 33دیگر سکول جزوی طور پر متاثر ہوئے۔‘‘ عارف اللہ آفریدی نے امید ظاہر کی کہ حکومت ان سکولوں کی تعمیر میں معاونت فراہم کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشن کے باعث عسکریت پسندوں کی پسپائی کے بعد ان کے گاؤں میں قائم سکولوں کو فول پروف سکیورٹی فراہم کی گئی ہے۔
دوسری جانب حکومت نے محکمۂ تعلیم کو ہدایت کی ہے کہ وہ تقریباً ایک دہائی سے بند سکولوں کو کھولے ‘دوسری جانب یہ تحفظات ہنوز پائے جاتے ہیں کہ طالب علم ان سکولوں کا دوبارہ رُخ نہیں کریں گے جو مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں یا اگر ان کو جزوی طور پر بھی نقصان پہنچا ہے۔
جمرود ٹاؤن کے ایک رہائشی، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، نے کہا: ’’ میں ان خدشات کا شکار ہوں کہ وہ طالب علم جنہوں نے اپنے خاندانوں کے ساتھ نقل مکانی کی تھی، باڑہ میں اپنے آبائی گھروں میں واپسی کے بعد خیموں میں قائم سکولوں میں جانا پسند کریں گے یا نہیں۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here