لاہور (احسان قادر سے) واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کی داغدار شہرت کے حامل افسر انوارالحق ، جو کہ کروڑوں روپے کے سکوک بانڈز کے سکینڈل میں ملوث ہیں، کو وزیر پانی و بجلی عابد شیر علی کی مہربانی سے واپڈا کے ایکٹ 1958ء کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ممبر(فنانس) تعینات کر دیا گیاہے۔
نیوز لینز کو دستیاب ہونے والی دستاویزات کے مطابق حکومت نے 1958ء میں واپڈا کو نیم خودمختار ادارے کے طور پر قائم کیا تھا۔ یہ ادارہ ملک میں ہائیڈل توانائی اور مختلف آبی منصوبے شروع کرنے کا ذمہ دار ہے۔
واپڈا اپنے روزمرہ کے اخراجات اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے درکار فنڈز حاصل کرنے کے لیے عوام کو بانڈز جاری کرکے اپنی ضرورت پوری کرتا رہا ہے۔ 2005ء میں واپڈا نے سرمایہ کاروں کو سکوک سرٹفیکیٹ جاری کرکے آٹھ ارب روپے حاصل کیے۔ واپڈا بانڈ سیل (ڈبلیو بی سی) نے نیشنل فرٹیلائزر کمپنی کو 750ملین روپے کی سرمایہ کاری پر تین سو سرٹفیکیٹ جاری کیے جن کے عوض واپڈا نے این ایف سی کو اکتوبر 2008ء تک منافع اداکیا۔ 2009ء میں کچھ سکوک سرٹفیکیٹ سوئفٹ انجینئرنگ سلوشن (ایس ای ایس) کو فروخت کر دیئے گئے جس کے باعث واپڈا کو 180ملین روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نقصان کے ذمہ دار سید محمد نقی ریاض تھے جو کہ واپڈا میں اکاؤنٹس افسر کے طور پر کام کر رہے تھے‘ وہ واپڈا بانڈ سیل کے متعلقہ افسروں کی مجرمانہ غفلت کے باعث بیرونِ ملک فرار ہوگئے۔
انوار الحق 2009ء میں اس وقت جنرل منیجر (فنانس) اور فرسٹ سکوک کمپنی کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہے تھے جب یہ ساری جعل سازی ہوئی۔جنرل منیجر سنٹرل (پاور) اور ڈائریکٹر جنرل (انشورنس) نجیب طارق کی قیادت میں ہونے والی ایک انکوائری میں انوارالحق کو ذمہ دارٹھہرایا گیا اور واپڈا کے نظم و ضبط کے قوانین کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ انوارالحق اس وقت واپڈا میں جنرل منیجر فنانس(پاور) کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے‘ ان کی ایک برس کے لیے ڈائریکٹر جنرل (بی پی ایس20) کے عہدے پر تنزلی کردی گئی اور وہ جنرل منیجر (فنانس) پاور کے عہدے سے ڈائریکٹر جنرل (فنانس) بن گئے جو کہ ان کو دی جانے والی ایک بڑی سزا تھی۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے علاوہ ڈی جی (ایکسٹرنل آڈٹ) نے بھی فرسٹ سکوک کمپنی میں جعلی سازی کی نشان دہی کی جس کی بنیادی وجہ انوارالحق کی غیر ذمہ داری اور غیر سنجیدہ مینجمنٹ تھی جو اس وقت ڈائریکٹر کے عہدہ پر فائز تھے۔
نیوزلینز کو حاصل ہونے والی واپڈا کی چھ جون 2012ء کی خفیہ انکوائری رپورٹ کے مطابق جنرل منیجر (فنانس) انوارالحق پر قواعد و ضوابط پر عمل نہ کرنے اورغیرذمہ داری کا مرتکب ہونے کی فردِ جرم عاید کی گئی تھی کیوں کہ واپڈاکو سکوک بانڈز کے باعث 180ملین روپے کا نقصان ہوا تھا جب کہ موصوف نے اس مجرمانہ غفلت کے مرتکب شخص کا نام بھی بروقت ظاہر نہیں کیا جس کے باعث اس کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل نہیں کیا جاسکا‘ یوں وہ ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا‘ چناں چہ انوارالحق پر 13مئی 2010ء میں فردِ جرم عاید کی گئی۔
جنرل منیجر انوارالحق کی جانب سے عدالت میں ریکارڈ کروائے گئے بیان کے مطابق انہوں نے نقی ریاض کا پاسپورٹ ضبط کرنے کے زبانی احکامات جاری کیے تھے۔ باعثِ دلچسپ اَمر یہ ہے کہ 5اگست 2009ء کو فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے جمع کروائی گئی ایف آئی آر میں وہ خود شکایت کنندہ تھے۔
12مئی 2014ء کو انوارالحق کا تبادلہ کر دیا گیا اور ان کو جنرل منیجر (فنانس) تعینات کیا گیا۔ نیوز لینز کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق جنرل منیجر ( کورس اینڈ ٹریننگ) انوارالحق کو 2مئی 2014ء کو ممبر (فنانس) کا اضافی چارج دیا گیا۔ ان کی یہ تعیناتی واپڈا کے ایکٹ 1958ء کی خلاف ورزی تھی جس کے باعث تمام متعلقہ حلقوں میں سنجیدہ نوعیت کے تحفظات پیدا ہوئے۔
نیوز لینز سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے واپڈا کے جنرل منیجر (پینشنز) ،جو کہ واپڈا سکوک بانڈز کے سکینڈل میں انکوائری افسر بھی رہ چکے ہیں، نے کہا کہ کرپٹ افسروں نے واپڈا کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے لیکن یہاں پر ایسا کوئی نہیں جو ان کے خلاف کارروائی کرسکے۔انہوں نے کہا: ’’ میں بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہوگیا تھاکیوں کہ انوارالحق کے خلاف انکوائری کرنا آسان نہیں تھا۔ میں نے سیکنڈ سکوک بانڈز کے اجرا پر بھی شدید ترین دباؤ کا سامنا کیا۔ ایک ایسا افسر ممبر(فنانس) کس طرح بن سکتا ہے جس پر جرم ثابت ہوچکا ہو؟ لیکن حکومت ایسے افسروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے زور دیا کہ چیئرمین واپڈا اس معاملے کا خود جائزہ لیں۔
جنرل منیجر کی سطح کے ایک اور افسر نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر واپڈا میں کرپٹ افسروں کی تعیناتی پر کڑی تنقید کی۔ انہوں نے وزیرپانی وبجلی عابد شیر علی پر کرپٹ افسر انوارالحق کو ممبر (فنانس)تعینات کرنے کا الزام عاید کیا۔ انہوں نے مزیدکہا:’’ عابد شیر علی نے ان کو ممبر (فنانس) اور جنرل منیجر ( فنانس) کے عہدے پر تعینات کیا ہے۔ کوئی دوسرا شخص ان کو اس عہدے پر تعینات نہیں کرسکتا اور نہ ہی ہٹا سکتا ہے۔‘‘
تاہم انوارالحق نے نیوز لینز سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے اپنے مؤقف کا دفاع کیا اور کہا:’’ واپڈا میں اعلیٰ عہدے پر فائز ایک شخص کی وجہ سے مجھے زبردستی تین برس کی سزا سنائی گئی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قبل ازیں مجھے ایک برس کی سزا سنائی جاچکی تھی۔ ‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ اب موصوف واپڈا سے ریٹائر ہوچکے ہیں اور ایک ایمان دار افسر نے واپڈا کے سربراہ کا عہدہ سنبھالاہے۔ انہوں نے اپنے ہم خیال ایک ایمان دار افسر(یعنی مجھے) کو اس عہدے پر تعینات کیا جس کا میں حق دار تھا اور یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔‘‘
جب انوارالحق کی توجہ اس نکتے کی جانب دلائی گئی کہ ان کی تعیناتی خلافِ قانون ہے تو انہوں نے فوری طور پر جواب دیا:’’ میں ممبر (فنانس) نہیں ہوں۔ میں نے ممبر(فنانس) کا اضافی عہدہ سنبھالا ہے جو خلافِ قانون نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے عابد شیر علی کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کی تردید کی اور کہا:’’ میں نے کوئی کرپشن نہیں کی اور ماضی میں میرے ساتھ ناانصافی کی جاچکی ہے۔ میں نے یہ عہدہ میرٹ پر حاصل کیا ہے۔‘‘
واپڈا کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے ایک افسر جنہوں نے اپنا تعارف عابد کے نام سے کروایا‘ راقم سے رابطہ کیا اور کہا: ’’انوارالحق ایک ایمان دار افسر ہیں۔اس معاملے کو میڈیا میں اچھالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
وزیرپانی و بجلی عابد شیر علی سے رابطہ نہیں ہوسکا ‘ حتیٰ کہ راقم نے ٹیلی فون پر ان سے ان کا مؤقف جاننے کے لیے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش بھی کی۔