کوئٹہ ( مالک اچکزئی سے)یہ سال کا وہ وقت ہے جب بہت سی اہم شخصیات چارٹرڈ طیاروں پر بلوچستان کا رُخ کرتی ہیں‘ان کے ہمراہ صحرا میں شکار کے لیے موزوں گاڑیاں بھی ہوتی ہیں۔ عقابوں کے بغیر ان کا یہ سفر ادھورا ہوتا ہے جو شکار کی اس مہم میں ان کا ساتھ دیتے ہیں۔
دسمبر میں سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے عرب شہزادے ایک بڑی تعداد میں بلوچستان کا رُخ کرتے ہیں‘ اس وقت صوبہ میں شدید ترین سردی پڑ رہی ہوتی ہے جس کے باعث مہاجر پرندے سائبیریا سے ان خطوں میں بسیرا کرتے ہیں جن میں تلور بھی شامل ہیں‘ ہجرت کرنے والے اس پرندے کی نسل ناپید ہونے کے قریب ہے لیکن عرب شکاریوں کے لیے ان کے شکار کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
گندمی رنگت کے تلور وں کے پنکھ دھاری دار ہوتے ہیں اور وہ موسمِ سرما کے دوران قازقستان، چین اور منگولیاسے ہوتے ہوئے پاکستان کے صحراؤں میں بسیرا کرتے ہیں جہاں بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے مختلف حصوں میں عرب شہزادے ان کا بے دریغ شکار کرتے ہیں۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر(آئی سی یو این) کے ایک اندازے کے مطابق تلوروں کی تعداد 79ہزار ہے لیکن ان میں کمی آ رہی ہے۔ آئی سی یو این کے حکام کہتے ہیں:’’تلوروں کو سب سے بڑا خطرہ شکار( بنیادی طور پر عقابوں کے ذریعے) سے ہے جب کہ سرد موسم بھی بڑی حد تک پرندوں کی بقاء پر اثرانداز ہوتا ہے۔ تلوروں کی ایک بڑی تعداد کو پاکستان اور ایران کے علاقوں سے پکڑ کر سعودی عرب بھیج دیا جاتا ہے جہاں وہ عقابوں کو شکار کے لیے دی جانے والی تربیت میں استعمال ہوتے ہیں۔‘‘
موسمِ سرما آنے پر آئی سی یو این کی ریڈ لسٹ میں شامل یہ پرندہ ، جس کی نسل ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہے، عقاب سے شکار کھیلنے والے ان بے چین عرب شہزادوں کے شوق کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے کیوں کہ اس کے گوشت کی ایک خوبی یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ یہ جنسی قوت بڑھاتاہے۔اگرچہ انڈیا تلوروں کے شکار پر کئی دہائیاں قبل پابندی عاید کرچکا ہے لیکن حکومتِ پاکستان اب بھی عرب حکمرانوں اور اعلیٰ حکام کو خصوصی اجازت نامے جاری کرتی ہے جس سے مقامی کارکنوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے جن کی جانب سے تلوروں کے بے دریغ شکار کے خلاف احتجاج میں حالیہ برسوں کے دوران شدت آئی ہے۔ حتیٰ کہ اب پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے فیس بک صفحہ بھی بنایا جاچکا ہے جس کے عنوان کا لفظی مفہوم یہ ہے کہ تلوروں کی ناپید ہوتی ہوئی نسل کا شکار کرنے کی بجائے ویاگرا کا استعمال کریں۔
لیڈرشپ فار انوائرنمنٹ اینڈ ڈیویلپمنٹ ( لیڈ) پاکستان کے حکام کہتے ہیں:’’ ہر موسمِ سرما میں سعودی ( اور دیگر عرب ) شاہی خاندان کے ارکان تلوروں کا شکار کرنے کے لیے پاکستان کے صحراؤں کا رُخ کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس پر سخت ردِعمل بھی سامنے آتا ہے‘ یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اگر ناپید ہونے کے خطرات سے دوچار ان پرندوں کا شکار پاکستانیوں کے لیے غیرقانونی ہے تو سعودی شیخوں کو ایسا کرنے کی اجازت کیوں کر دی گئی ہے ؟ تاہم عام طور پر اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور پاکستان کا دفترِ خارجہ عرب شاہی خاندان کے ارکان کی عزت افزائی کے اظہار کے طور پر ان کو تلوروں کے شکار کے خصوصی پرمٹ جاری کرتا ہے۔‘‘
لیڈ کے مطابق2014ء میں ’’ خاندانِ سعود کے رُکن اور سعودی عرب کے صوبہ تابوک کے گورنر شہزادہ فہد بن سلطان نے بلوچستان میں موسمِ سرما میں تین ہفتوں تک قیام کیا اور اپنی اس مہم میں 21سو تلوروں کا شکار کیا۔‘‘
اس برس پھرعرب شاہی خاندان کے یہ رُکن تلوروں کے شکار کے لیے بلوچستان کے علاقہ دلبندین آئے جو کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اوربلوچستان ہائیکورٹ کی جانب سے تلوروں کے شکار پر عاید کی گئی پابندی کی خلاف ورزی تھی۔
نومبر 2014ء میں بلوچستان ہائیکورٹ نے صوبہ بلوچستان میں ’’شکار پر پابندی‘‘ عاید کرنے کے علاوہ تمام ’’پرمٹ‘‘ منسوخ کر دیئے تھے اور پاکستان کے دفترِ خارجہ کی جانب سے تلوروں کے شکار کے لیے ’’الاٹ‘‘ کیے گئے علاقے ’’غیرقانونی‘‘ قرار دے دیے تھے۔
ضلع چاغی کے دلبندین ایئرپورٹ پر سعودی شہزادے کا استقبال پاکستان کے وفاقی وزیر احسن اقبال اور بلوچستان کے صوبائی وزیر مجیب الرحمان محمد حسینی نے کیا تھا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کے مشیر برائے جنگلات و جنگلی حیات عبیداللہ جان بابت نے پریس کلب کوئٹہ میں رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا :’’ عرب شیوخ بلوچستان میں اپنے (عربوں کے) سماجی و ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لینے آئے تھے‘ وہ صوبہ میں ’’ تلوروں کا شکار‘‘ کرنے نہیں آئے تھے۔
عبداللہ جان بابت نے مزید کہا کہ بلوچستان حکومت اور اس کے محکمۂ تحفظِ جنگلی حیات نے صوبہ میں ’’عرب شیوخ کو شکار‘‘ کی اجازت نہیں دی۔
نیوز لینز پاکستان نے دلبندین کے ڈویژنل فاریسٹ آفیسر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا فون بند جارہا تھا۔
دلبندین کے رہائشی منظور راہی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ عرب شہزادہ پرتعیش کاروں کے جھرمٹ میں اپنے وفد کے ساتھ دلبندین پہنچا اور مختلف علاقوں میں کیمپ لگائے۔
انہوں نے کہا:’’ عرب شہزادوں کو بلوچ عوام اور بلوچستان کی ترقی سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنے روایتی شکار کے ایک جزو کے طور پر تلوروں کے شکار کے لیے ان علاقوں کا رُخ کرتے ہیں۔‘‘
منظور راہی نے کہا کہ عرب شہزادوں نے دلبندین میں ایک ہسپتال اور مساجد بنائی ہیں جب کہ ہسپتال کا انتظام حکومت کے سپرد کیا جاچکا ہے۔ انہوں نے کہا:’’ دلبندین کے صاحبِ ثروت خاندان اپنے مخصوص مفادات کی تکمیل کے لیے عرب شکاریوں کا استقبال کرتے ہیں۔ وہ ان کو بلوچ عوام کے لیے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے پرمجبور نہیں کرتے۔‘‘
ضلع لورالائی میں عرب شہزادے کے سکیورٹی سکواڈ میں شامل ایک اہل کار نے نیوز لینز پاکستان کو ملازمت چھوٹ جانے کے ڈر سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عرب شہزادے کو پورا دن سکیورٹی فراہم کی گئی جب وہ لورالائی کے علاقہ ڈکی میں پرندوں کے شکار میں مصروف تھے۔
محکمۂ جنگلات و تحفظ جنگی حیات کے ایک مقامی اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ان کو اس بارے میں اس وقت پتہ چلا جب عرب شکاریوں نے ضلع لورالائی کا رُخ کیا۔‘‘ انہوں نے کہا:’’ ہم بے بس ہیں کیوں کہ وفاقی و صوبائی دفاتر کے حکام ان کا استقبال کرتے ہیں۔ ہم ان شکاریوں سے شکار کی مد میں بہت کم فیس وصول کرتے ہیں۔ ضلعی حکام میں سے کوئی انہیں شکار کرنے سے نہیں روک سکتا کیوں کہ ان کو دفترِ خارجہ کی جانب سے سرکاری اجازت نامے جاری کیے جاتے ہیں۔‘‘
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور بلوچستان اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر انجینئر زمرک خان نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ عرب شہزادے بلوچستان کا رُخ اس لیے نہیں کرتے کہ ترقیاتی منصوبے شروع کریں۔ میں آگاہ ہوں کہ شکار جاری ہے اور موسیٰ خیل اور ڈکی کے کچھ علاقوں میں کیاگیا ہے۔ دلبندین میں سعودی عرب کے ایک گورنر آئے ہیں۔ ہم بلوچستان ہائیکورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی اور صوبہ بھر میں تلوروں کے شکار کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں عرب شہزادے ہر برس سینکڑوں تلوروں کا شکار کرتے ہیں۔ انجینئر زمرک خان نے مزید کہا:’’ تمام سیاسی جماعتوں، سماجی تنظیموں اور وکلا کے گروپوں کی جانب سے اس عمل کی مذمت کی جانی چاہیے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ صوبائی وزرا کو مختلف طرح کے تحائف دیئے جاتے ہیں جس کے باعث وہ ہماری اس دھرتی پر غیر ملکیوں کی وجہ سے ناپید ہونے والے پرندوں کے غیر قانونی شکار کی حمایت کرسکتے ہیں۔‘‘
بلوچستان نیشنل پارٹی سے منسلک سابق سینیٹر اور ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ثنا بلوچ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے دفترِ خارجہ کوآئینی طور پر یہ حق حاصل نہیں کہ وہ غیر ملکیوں کو عیاشیوں اور شکار کے لیے بلوچستان کی زمین الاٹ کرے۔
انہوں نے کہا:’’ مقامی اشرافیہ اور کرپٹ سیاست دان عرب شہزادوں سے براہِ راست فوائد حاصل کرتے ہیں جیسا کہ مفت میں حج کرنا، مدارس کے لیے فنڈز، گاڑیوں اور نقدی کی صورت میں ذاتی تحائف اور حتیٰ کہ انتخابات کے دوران بڑے پیمانے پر ان کی حمایت بھی کی جاتی ہے۔‘‘
ثنا بلوچ نے استفسار کیا:’’ جب پاکستان کے دفترِ خارجہ نے غیرملکی سفارت کاروں اور صحافیوں کے بلوچستان میں داخل ہونے پر پابندی عاید کر رکھی ہے تو اس صورت میں عرب شہزادوں کے لیے خصوصی انتظامات کیوں کیے جاتے ہیں؟‘‘
انہوں نے کہا کہ تلور اور بلوچ عوام ’’ اس سارے عمل سے بنیادی فائدہ اٹھانے والی اسلام آباد کی عوام دشمن اشرافیہ ‘‘کے متاثرین میں شامل ہیں۔
ثنا بلوچ نے کہا:’’ انڈیا اور دوسرے ممالک نے عربوں کے ساتھ بہتر دوطرفہ تعلقات کے باوجودان کو شکار کے لائسنس جاری نہیں کیے۔‘‘
قومی اسمبلی کے سابق رکن عبدالرؤف مینگل نے کہا کہ عرب شہزادوں کو شکارمیں معاونت فراہم کرکے وفاقی، صوبائی اور ضلع سطح کے حکام بھی تحائف اور رقوم حاصل کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا:’’دنیا میں کہیں بھی ہم ایسی کوئی مثال نہیں دیکھ سکتے کہ پرندوں کی خطرات کی زد پر آئی نسلوں کا اس قدر بے دھڑک شکار کیا جائے۔ وفاقی و صوبائی حکومت اور ایگزیکٹو کو بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے اور فوری طورپر تلوروں کے شکار پر پابندی عاید کی جائے۔‘‘