شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں عوام کی مقامی حکومتوں سے غیر معمولی امیدیں وابستہ

0
4777

: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzai

کوئٹہ (مالک اچکزئی و شاہ میر بلوچ سے) بلوچستان نے ملک کے چاروں صوبوں سے قبل منتخب مقامی حکومتوں کا ڈھانچہ تشکیل دیا ہے۔ پنجاب ، سندھ اور خیبرپختونخوا نے ہنوزاپنے صوبوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا اعلان نہیں کیا۔
2015ء کے آغاز میں شورش زدہ صوبے کی 635یونین کونسلوں، 32ضلعی کونسلوں، 53میونسپل کونسلوں، چار میونسپل کارپوریشنوں اور ایک میٹروپولیٹن کارپوریشن میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوگیا۔
صوبائی الیکشن کمشنر سید سلطان بایزید نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کورم پورا نہ ہونے کے باعث صرف آٹھ ضلعی کمیٹیوں، 11میونسپل کمیٹیوں اور ایک میونسپل کارپوریشن نے اپنا میئر، ڈپٹی میئر اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین منتخب نہیں کیا۔ 635یونین کونسلوں میں سے تقریباً601 اپنے 1202چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین منتخب کرچکی ہیں۔
کوئٹہ میٹروپولیٹن کارپوریشن اورلوکل کونسلوں کے 1448چیئرمینوں و ڈپٹی چیئرمینوں کو آخری مرحلے میں منتخب ہونا تھا۔ سید سلطان بایزید نے کہا:’’ ان میں سے 2332 نے خواتین، 743 نے اقلیتی ، 725نے کسانوں و محنت کشوں اور 7190نے انتخابی عمل کے ذریعے کونسلر کی جنرل نشست پر منتخب ہونا تھا جو کہ الیکٹورل کالج ہے۔‘‘
کوئٹہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کے نومنتخب میئر ڈاکٹر کلیم اللہ نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 1935ء کے تباہ کن زلزلے کے بعد کوئٹہ شہر کو70ہزار سے ایک لاکھ تک کی آبادی کے لیے بسایا گیا تھا لیکن اب اس کی آبادی 30لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ گزشتہ حکومت نے صاف پانی کی فراہمی، صحت و صفائی، ٹریفک و پارکنگ کے مسائل، تعمیراتی ضوابط کی تشکیل، بس سروس شروع کرنے، تعلیم ، بجلی، صحت و دیگر سہولیات کی فراہمی کی جانب کوئی توجہ نہیں دی۔‘‘
ڈاکٹر کلیم اللہ نے کہا کہ موجودہ منتخب مقامی حکومت نے ہنوز طاقت و اختیارات کی تقسیم پر صوبائی حکومت سے بات کرنی ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ ہم جس قدر بااختیار ہوں گے، اس کے اس قدر ہی مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔میں آگاہ ہوں اور پرامید ہوں کہ صوبائی و وفاقی حکومت کوئٹہ کو لاہور اور اسلام آباد کی طرح مثالی شہر بنانے میں مقامی حکومت سے تعاون کرے گی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ مقامی حکومت پینے کے صاف پانی کی فراہمی، انڈرپاسزو فلائی اوورز کی تعمیر، ٹریفک کے اشاروں کی تنصیب، کوئٹہ میں زلزلے کے خطرات کے پیشِ نظر تعمیراتی قواعد پر عملدرآمد، گیس و بجلی کی فراہمی اور صفائی کے بہتر انتظامات کے لیے اپنی توجہ بڑے منصوبوں کی جانب مرکوز کرے گی۔
ڈاکٹر کلیم اللہ نے کہا:’’ ترجیحی بنیادوں پر منصوبے شروع کرنے کے حوالے سے اہلِ علم و دانش کے ساتھ مشاورت کی جائے گی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ توانائی کا استعمال سودمند اور دیرپا منصوبوں کے لیے استعمال میں لایا جائے گا اور شہر کے لوگوں کو بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں گے۔ ڈاکٹر کلیم اللہ کا کہنا تھا:’’ کوئٹہ کی ترقی میرا اولین مقصد ہے۔‘‘
مقامی حکومتوں کے منصوبوں میں شہر میں مقامی ٹرانسپورٹ کے لیے ایسی بسوں کو متعارف کروانا بھی شامل ہے جن سے آلودگی نہ پھیلے اوروہ آرام دہ ہوں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی پارکنگ شہر سے باہر منتقل کردی جائے گی۔
سینیٹر داؤد خان اچکزئی نے نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ منتخب مقامی حکومتوں کی اہمیت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ جمہوری ممالک میں عوام کو ان کے دروازے پر خدمات فراہم کی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں مقامی حکومتوں یا قیادت کے کردار پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اگرچہ صوبائی حکومت نے مقامی حکومتوں کے انتخاب کی راہ ہموار کی لیکن وہ مقامی نمائندوں کو اختیارات کی منتقلی پر تیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت کی جانب سے آٹھ ضلعوں میں میئرز، ڈپٹی میئرزاور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات کے انعقاد میں تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔
سینیٹر داؤد خان اچکزئی نے مزید کہا:’’ حزبِ اختلاف کی جماعتیں اکثریت میں نہیں ہیں جس کے باعث صرف ایک ہی طریقہ رہ جاتا ہے کہ اگر بلوچستان حکومت مقامی حکومتوں کی تشکیل اور ان کو فنڈز و اختیارات کی منتقلی میں تاخیر کرتی ہے تو اس کے خلاف عدالت سے رجوع کیا جائے۔‘‘
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکنِ صوبائی اسمبلی نصراللہ زیرے نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہماری حکومت صوبے میں مقامی حکومتوں کی سرگرمیوں کے لیے مناسب فنڈز مختص کرچکی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ عالمی امدادی ادارے اور وفاقی حکومت‘ صوبائی حکومت کو اضافی فنڈز فراہم کرسکتی ہے جو مقامی حکومتوں کے لیے مختص کیے جاسکتے ہیں۔ مقامی حکومتیں مختلف علاقوں اور مخصوص آبادی تک محدود ہیں جس کے باعث ان کو ان کے حلقوں کی آبادی کے تناسب سے فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔‘‘
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی خاتون سماجی کارکن 38برس کی عابدہ خان کاکڑ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے ان تحفظات کا اظہار کیا کہ آیا مقامی حکومتیں عوام کو خدمات فراہم کرسکیں گی یا نہیں کیوں کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین کبھی اپنے فنڈز اور اختیارات مقامی نمائندوں کو منتقل نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا:’’ پاکستان میں بالعموم اور بلوچستان میں بالخصوص منتخب ایم پی ایز، ایم این ایز اور سینیٹرز چاہتے ہیں کہ وہ صوبے اور عوام پر ہمیشہ حکمران رہیں۔ خواتین اراکین کو کوٹے کی بنیاد پر فنڈز جاری کیے جاتے ہیں لیکن ان کا عوامی وسائل کے استعمال میں کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ پورے صوبے میں کسی خاتون کو میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین کے لیے نامزد نہیں کیا گیا۔ ان کی ایک محدود تعداد کوٹے کی بنیاد پر نامزد کی جاتی ہے کیوں کہ آئین میں ایسا ہی درج ہے‘ دوسری صورت میں وہ مقامی حکومت کا حصہ بھی نہ بن پاتیں۔ غیر مسلموں اور اقلیتوں کے کوٹے کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ درپیش ہے۔‘‘
عابدہ کاکڑ نے کہا کہ اگرچہ جنرل مشرف ایک فوجی آمر تھے لیکن ان کی حکومت نے مقامی حکومتوں کا ایک طاقت ور ڈھانچہ تشکیل دیا‘ اس وقت ایگزیکٹو اور پولیس میئر و ڈپٹی میئر کے ماتحت تھی۔
انہوں نے کہا:’’ ان کی نہ صرف فنڈز تک رسائی تھی بلکہ مقامی حکومتوں میں خواتین کی زیادہ نمائندگی تھی۔ میں یہ دعویٰ سے کہہ سکتی ہوں کہ موجودہ صوبائی اسمبلی تک رسائی حاصل کرنے والے نصف اراکین اسی نظام کی وجہ سے آگے آئے ہیں کیوں کہ ان میں عوامی نمائندوں کے طور پر خود کو منوانے کی جرأت پیدا ہوئی۔ لیکن قوانین تبدیل کیے جاچکے ہیں اور مقامی نمائندوں کو ان کے حلقوں میں خودمختار خیال نہیں کیا جاتا۔‘‘
ضلع پشین سے منتخب ہونے والے ڈپٹی چیئرمین حاجی صورت خان کاکڑ ’’ مقامی حکومتوں کے پاس اختیارات نہ ہونے کے باعث‘‘ تشویش کا شکار ہیں۔ 
انہوں نے کہا:’’ اگر ہمیں (مقامی حکومتوں) اختیارات بشمول بجٹ دیا جاتا ہے تو ہم صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی کی سہولیات فراہم کرنے کے علاوہ صفائی کے بہتر انتظامات کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ انہوں نے کہا:’’ پشین ایک بڑا ضلع ہے اور اس کے دوردراز کے علاقوں اور دیہاتوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان علاقوں میں لوگوں کی مدد کرنے کے لیے تمام تر وسائل اور توانائیاں صرف کرنا ہوں گی۔‘‘
سید سلطان بایزید نے نیوزلینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مقامی حکومتوں کے لیے اپنے طور پر فنڈز پیدا کرنا ممکن نہیں جس کے باعث وہ وسائل کے حصول کے لیے صوبائی حکومت پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ 
سول سوسائٹی کے کارکن حافظ رحمت خان نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ کوئٹہ کی 30لاکھ آبادی کے لیے کوئی عوامی بیت الخلا نہیں ہیں‘ اسی طرح کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا مناسب انتظام نہیں جب کہ ہسپتال اور تعلیمی ادارے درست طور پرکام نہیں کرر ہے‘ دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عوامی حمایت حاصل نہ ہونے کے باعث مشکلات کاسامنا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر مقامی حکومتوں کو موقع دیاجاتا ہے تو وہ پولیسنگ، صحت، تعلیم اور لوگوں کو خدمات کی فراہمی کی بہتر طور پر نگرانی کرسکتی ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے ذریعے صوبہ بھر میں ویکسینیشن اور آگاہی کی مختلف کمپینز شروع کی جاسکتی ہیں جب کہ مذہبی منافرت، صنفی امتیاز و بچوں کے استحصال کے تدارک کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کا تحفظ بھی یقینی بنایا جاسکتا ہے ‘ اسی طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں(پولیس) کے ساتھ بہتر روابط قائم کرنے میں بھی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔
حافظ رحمت خان نے کہا:’’ یہ منتخب نمائندے لوگوں کے بہت قریب ہیں اور مخصوص علاقوں سے منتخب ہوئے ہیں‘ یہ کسی بھی دوسرے ادارے کی نسبت اپنے علاقوں اور لوگوں کی ضروریات سے بہتر طور پر آگاہ ہوتے ہیں۔‘‘
یونیورسٹی آف بلوچستان کے ایریا سٹڈی سنٹر میں ایم فل کے طالب علم 33برس کے شاہ محمد دوتانی نے نیوزلینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پرامید ہیں کہ صوبائی و وفاقی حکومت اپنے اختیارات مقامی نمائندوں کے ساتھ تقسیم کرے گی۔
انہوں نے کہا:’’ بلوچستان حکومت نے مقامی نمائندوں کو منتخب کرکے ایک بہترین کام کیا جب کہ دیگر صوبوں کو فی الحال اس جانب پیش قدمی کرنی ہے۔ میَں پریقین ہوں کہ وہ (صوبائی حکومت) لوگوں کی خواہشات کا احترام کرے گی اور لوگوں کو منتخب نمائندوں کے ذریعے خدمات فراہم کی جائیں گے‘ دوسری صورت میں عوام اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کو دوبارہ ووٹ نہیں ڈالیں گے۔‘‘
پاکستان کے دیگر تین صوبوں سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کو ہنوز سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے پر عملدرآمد کرنا ہے جس کے تحت پاکستان بھر میں ایک برس کے اندر اندر انتخابات کروائے جانا تھے۔
مقامی حکومتوں کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں بلوچستان کے 32اضلاع میں 7دسمبر 2013ء کو انتخابات ہوئے‘ بعدازاں کسانوں، سماجی کارکنوں، اقلیتوں اور خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر انتخابات ہوئے۔ صوبے میں مجموعی طور پر 7,190جنرل نشستیں ہیں‘ پانچ فی صد اقلیتوں، 33فی صد خواتین اور پانچ فی صد محنت کشوں اور کسانوں کے لیے مخصوص ہیں۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان جان محمد بلیدی نے کہا:’’ حکومت کو انتخابات کروانے اور اختیارات کی پرامن طور پر نچلی سطح پر منتقلی کا کریڈٹ دیاجانا چاہیے جس کے باعث عوام کے مسائل اب ان کی دہلیز پر حل ہوسکیں گے۔‘‘
2013ء میں ہونے والے عام انتخابات کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ٹرن آؤٹ 40فی صد سے زائد رہا۔ تاہم شورش سے متاثرہ اضلاع میں سینکڑوں جنرل نشستیں خالی ہیں جن میں تربت، پنجگور، گوادر، آواران، واشک اورخضدار شامل ہیں۔ سید سلطان بایزید نے کہا:’’ ان علاقوں میں ٹرن آؤٹ تقریباً تین فی صد رہا۔‘‘
نیوز لینز کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق شورش زدہ اضلاع میں تقریباً357جنرل، اقلیتوں کی 514، کسانوں اور سماجی کارکنوں کے لیے مخصوص152نشستیں خالی ہیں۔
ان تمام تر مشکلات کے باوجود الیکشن کمشنر بلوچستان کہتے ہیں کہ مئی 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات کی نسبت ان انتخابات کانسبتاًبہترطور پر انعقاد عمل میں آیا۔ انہوں نے کہا:’’ بلوچستان ملک کا سب سے زیادہ شورش زدہ صوبہ ہے لیکن مقامی حکومتوں کے انتخابات قدرے پرامن ماحول میں ہوئے۔‘‘
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے صحافی شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی اور پاکستان کی قومی اسمبلی کے منتخب نمائندوں کاکام قانون سازی کرنا ہے اور یہ عام لوگوں کے لیے مشکل ہے کہ وہ روزمرہ کے مسائل کے حل جیساکہ سڑکوں کی تعمیر یا سٹریٹ لائٹوں کی مرمت کے لیے ان تک رسائی حاصل کرسکیں۔ ان کا کہنا تھا:’’ اس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ مقامی حکومتیں ہی عام لوگوں کے بنیادی مسائل حل کریں۔‘‘

 

 

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here