پاک افغان سرحد کے اطراف میں پولیو مہم‘ کارکنوں کومشکلات کا سامنا

0
4453

: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzai

چمن( مالک اچکزئی سے) محمد امین پاک افغان سرحد پر اپنی ننھی بیٹی کا ہاتھ تھامے پولیو ورکر کے پاس لے کرگئے۔ وہ بابِ دوستی پر کھڑے ہیں جو کہ افغانستان سے چمن(پاکستان) میں داخل ہونے کا راستہ ہے۔ ایک برس کی فریدہ کے انگوٹھے پر نیلا رنگ لگایا گیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ اس کو پولیو کے قطرے پلائے جاچکے ہیں۔
چمن میں محمد امین نے سرحد کے اس پار افغانستان کے علاقے میں قائم بوتھ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پولیو ورکر کو بتایا:’’ اسے وہاں پر پولیو کے قطرے پلائے گئے ہیں۔‘‘
وہ بلخ ، افغانستان سے چمن پہنچے ہیں۔ پاک افغانستان بابِ دوستی پر گرد آلود ہوائیں چل رہی ہیں جس کے باعث ہر چیز کا رنگ سرمئی ہوگیا ہے‘ رکشے اور پک اَپ منتظر ہیں کہ وہ افغانستان سے آنے والوں کو چمن شہر اور مختلف مقامات پر پہنچائیں۔
گاڑیاں دروازے سے تین کلومیٹر سے کم فاصلے پر کھڑی ہوتی ہیں۔ افغانستان سے جانے یا آنے والے لوگوں کو دروازے تک پیدل جانا ہوتا ہے جہاں پر وہ اطراف میں خاردار تاروں کے درمیان بنے ہوئے راستے میں اپنی باری کے انتظار میں کھڑے لوگوں کی قطار میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ یہاں پر اپنے بچوں اور سامان کے ساتھ اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ ان کی جانچ کی باری آئے اور وہ سرحد پار کرسکیں۔ 
افغانستان جانے یا وہاں سے آنے والے لوگوں کے لیے دو مختلف راستے ہیں۔اس دروازے سے جہاں سے وہ سرحد پار کرتے ہیں، دو پولیو ورکرخدمات انجام دے رہے ہیں۔
ایک سکیورٹی گارڈ پولیو ورکر ولی محمد پر چلاتا ہے تاکہ وہ داخلی راستے سے ایک جانب ہٹ جائے۔ وہ کہتا ہے:’’ کیا تم یہ نہیں دیکھ سکتے کہ یہاں پر رش بڑھ رہا ہے۔‘‘ وہ ولی محمدسے کہتا ہے کہ وہ لوگوں کو جلد از جلد فارغ کرے تاکہ وہ سرحدکے اس جانب آسکیں۔
ولی محمد، جو کہ عالمی ادارۂ صحت کے پولیو ویکسینیشن پروگرام سے منسلک ہیں، کہتے ہیں:’’ میَں اس تمام ترہجوم و سکیورٹی اہل کاروں کی نگرانی میں اپنا کام پرسکون انداز سے کس طرح کرسکتا ہوں؟ آپ نے بارڈر فورسز کا رویہ دیکھا؟ وہ قطعی طور پر تعاون نہیں کرتے۔ ہم کھلے آسمان تلے سورج کی روشی میں بچوں کو قطرے پلا رہے ہیں جب کہ یہ واضح طور پر یہ ہدایات کی گئی ہیں کہ ان قطروں کو سورج کی روشنی سے بچایا جائے لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔‘‘
ولی محمد نے کہا کہ پولیو ورکرز کو بر وقت کوئی چیز دستیاب نہیں ہوتی۔ انہوں نے مزید کہا:’’ ویکسین اور نہ ہی تنخواہ یا سٹیشنری وقت پر مل رہی ہے۔ ہم امن و امان کے انتہائی پریشان کن حالات میں کام کرر ہے ہیں۔ پولیو ٹیم گزشتہ ماہ پاک افغان سرحد پر ہونے والے بم دھماکے کے مقام سے صرف 20میٹر کی دوری پر تھی۔ لیکن اس کے باوجودکسی پولیو ورکرنے کام کرنا نہیں چھوڑا۔‘‘
وہ مرد و خواتین کے پیچھے دوڑتے ہیں اور جلدی جلدی ان کے بچوں کی انگلیوں اور پیشانی پر افغانستان میں ان کی ویکسینیشن کیے جانے کے بعد لگائے گئے نشانات کی جانچ کرتے ہیں۔
پولیو ٹیم کو ویکسینیشن کے لیے فراہم کیے گئے کمرے کے دروازے پر تالہ لگا ہوا ہے۔ پولیو رضاکار کھلے آسمان تلے کام کرتے ہیں اور سرحد کے اس جانب پاکستان کے علاقے میں ہجوم اور سکیورٹی کے باعث پیدا ہونے والی بدنظمی کی وجہ سے ان کو مناسب انداز سے ویکسینیشن کا عمل مکمل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سرحد کے اس پار افغانستان کے علاقے میں ہر دیوار پر تشہیری چارٹ اور پوسٹر چسپاں کیے گئے ہیں۔ 48رضاکار بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی ڈیوٹی پر مامور ہیں۔ پولیو کے قطرے پلانے والے عملے نے ٹوپیاں پہن رکھی ہیں اور چھاتی پر بیج لگا رکھے ہیں‘ان کو کمرے اوررہائش فراہم کی گئی ہے۔
افغانستان میں پولیو ٹیم سے منسلک سماجی کارکن محموداللہ کہتے ہیں:’’ افغان بارڈر پولیس اس وقت تک کسی خاندان کو بھی بچوں کے ساتھ افغانستان میں داخل نہیں ہونے دیتی جب تک وہ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلا لیتے۔ اگرچہ پاکستان میں ویکسینیشن ٹیمیں کام کر رہی ہیں لیکن ہم ان کے حالات سے آگاہ ہیں‘ وہ ہمیشہ غیر حاضر ہوتے ہیں اور گزشتہ ماہ پورا ایک ہفتہ ان کے پاس ویکسین تک موجود نہیں تھی۔ چناں چہ ہم پاکستان میں داخل ہونے والے خاندانوں کی دوہری جانچ کرتے ہیں۔‘‘
محمود اللہ کہتے ہیں کہ یہ تعاون اور سخت جانچ ضروری ہے کیوں کہ پاکستان کو 2014ء میں 14برس بعد پولیو کی وباء نے ایک بار پھر بدترین طریقے سے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ انہوں نے کہا:’’ پولیو کا وائرس آسانی سے سرحد کے اس پار منتقل ہوسکتا ہے کیوں کہ اطراف کے لوگوں میں آپس میں قبائلی روابط ہیں اور وہ اکثرو بیش تر سرحد کے دونوں جانب آتے جاتے ہیں جس سے افغانستان میں وائرس منتقل ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔‘‘
عالمی ادارۂ صحت کے گلوبل پولیو اریڈیکیشن انیشی ایٹوکی کمیونیکیشن آفیسر لیلیا ڈورے نے نیوز لینز کے ایک سوال کا ای میل کے ذریعے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے اعداد و شمار ان ممالک سے زیادہ تشویش ناک ہیں جہاں سے پولیو وائرس دنیا بھر میں اور خاص طور پر افغانستان و مشرقِ وسطیٰ میں منتقل ہوتا ہے جیسا کہ گزشتہ برس ہوچکا ہے۔ 
انہوں نے کہا:’’ 19نومبر 2014ء تک پاکستان میں پولیو کی مہلک ترین ٹائپ 1کے 246کیس رجسٹرڈ ہوچکے تھے۔اس سے قبل نومبر 2013ء تک یہ تعداد صرف 63تھی۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here