بنوں (احسان داوڑ سے) سال کا سرد ترین موسم جاری ہے جس کے باعث بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور پارہ نقطۂ انجماد تک گر گیا ہے، بنوں شہر کا رُخ کرنے والے آئی ڈی پیز شدید ترین سردی کے باعث صحت کی سہولیات کے حوالے سے شکایت کرتے نظر آرہے ہیں۔
گزشتہ برس جون میں پاکستانی فوج کی جانب سے پڑوسی قبائلی ایجنسی شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف کیے جانے والے آپریشن کے باعث نقل مکانی کرنے والے تقریباً10لاکھ افراد میں سے بڑی تعداد بنوں شہر اور اس کے نواحی دیہاتوں میں آباد ہوئی ہے۔
بنوں کے سرحدی علاقے میں قائم بکہ خیل کیمپ میں 22ہزار خاندان خیموں میں رہ رہے ہیں‘ یہ جھاڑیوں پر مشتمل ایک بڑا اور کھلا علاقہ ہے جہاں پر آئی ڈی پیز مختلف عوامل کے سامنے بے بس ہیں۔
تقریباً پانچ سو خاندان بنوں کے مختلف مقامات پر مذہبی پارٹی جماعتِ اسلامی کے فلاحی ونگ الحمدمت فاؤنڈیشن کی جانب سے فراہم کیے گئے خیموں میں رہ رہے ہیں۔
18برس کے وقار احمد، جو کہ بنوں شہر کے ایک گھر میں گزشتہ سات مہینوں سے دو کمروں کے گھر میں رہ رہے ہیں، کہتے ہیں:’’ ہم نے اپنے گھروں کی چھتوں پرخیمے نصب کیے ہیں لیکن موسمِ سرما کی سرد ہواؤں کے باعث مشکلات کا شکار ہیں۔‘‘
جنوبی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کی اکثریت چوں کہ مشترکہ خاندانی نظام کے تحت ایک ساتھ رہنے کے قبائلی نظام پر عمل پیرا ہے جس کے باعث ایسے خاندان بھی ہیں جن کے تقریباً35ارکان دو کمروں کے ایک مکان میں رہ رہے ہیں جس کے باعث سرد موسم نے ان کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں کیوں کہ ان میں سے کچھ کو کھلی چھتوں پر خیموں میں رہنا پڑتا ہے جب کہ حفظانِ صحت کے حوالے سے بھی مسائل کا سامنا ہے۔
وقار احمد کہتے ہیں:’’ میں اپنے بھائی کے ساتھ رہتا ہوں کیوں کہ ہم ایک اور گھر کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے اور نہ ہی خیموں میں رہ سکتے ہیں کیوں کہ ہمارے خاندان میں چھوٹے بچے ہیں جو اس سرد ترین موسم کی شدت کو برداشت نہیں کرسکتے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ وہ بچوں کو تقریباً روزانہ علاج کے لیے ہسپتال لے کر جاتے ہیں لیکن کھلی چھتوں پر خیموں میں رہنے والے لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ بدترین سردی کا سامنا کر رہے ہیں۔
الخدمت فاؤنڈیشن کی جانب سے لگائے گئے کیمپ میں رہنے والے اقلیتی مسیحی کمیونٹی کے رُکن خالد مسیح نے کہا:’’ ہم نے وزیرستان میں کبھی اس قدر شدید سردی کا سامنا نہیں کیا۔ میں اور میرے بچے رات بھر جاگتے رہتے ہیں کیوں کہ سرد ہوائیں خیموں میں داخل ہوجاتی ہیں۔‘‘
اقلیتی کیمپ میں رہنے والی ایک خاتون نے کہا کہ وہ شمالی وزیرستان میں اپنے گھر کو بری طرح یاد کرتی ہے جہاں پر وہ موسمِ سرما میں آگ جلاتیں اور خاندان گھنٹوں اس کے اردگرد بیٹھا رہتا۔
انہوں نے نام ظاہر نہیں کیا کیوں کہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کا نام میڈیا میں آئے ‘ انہوں نے کہا:’’ کیمپوں میں آگ جلانے کی اجازت نہیں ہے کیوں کہ خیموں میں آگ بھڑک سکتی ہے جس سے پورا کیمپ متاثر ہوگا اور لوگوں کی زندگیاں خطرات کی زد پر آئیں گی۔‘‘
سردی پہلے سے ہی کم خوراکی اور عدم تحفظ کا شکار آئی ڈی پیز اور خاص طور پر بچوں کو متاثر کررہی ہے لیکن غربت کے باعث ان کی طبی سہولیات تک رسائی ممکن نہیں رہی۔
طبی ماہرین کا یہ خیال ہے کہ دباؤ، پرہجوم رہائش گاہ، کم خوراکی اور طبی سہولیات تک رسائی نہ ہونے کے باعث آئی ڈی پیز میں شرح اموات میں اضافہ ہوا ہے ،تاہم یہ موسم کی شدت ہے جو ادھیڑ عمر افراداور بچوں کی زندگیاں لے رہی ہے۔
ڈاکٹر دراز خان داوڑ کہتے ہیں:’’ آئی ڈی پیز میں بیماریوں اور اموات کی شرح بڑھی ہے‘ حتیٰ کہ درمیانی عمر کے صحت مند لوگ بھی عام بیماریوں سے مر رہے ہیں کیوں کہ وہ بروقت علاج نہیں کروا پاتے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ درپیش مشکلات کے باعث آئی ڈی پیز ذہنی دباؤ کا شکارہورہے ہیں جس کے باعث ان میں بیماریوں جیسا کہ بلندفشارِ خون اور امراضِ قلب کا خطرہ بڑھ گیا ہے جو کہ اچانک موت کی وجہ بن سکتی ہیں۔
بنوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر گل انار جان وزیر نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرد موسم، علاج معالجہ کی سہولیات اور صفائی نہ ہونے و ہجوم کے باعث متعدی بیماریوں کاپھیلاؤآئی ڈی پیز میں شرح اموات بڑھنے کی بنیادی وجہ ہے۔اس کے ساتھ ہی آئی ڈی پیز کو بے روزگاری اور بڑا خاندان ہونے کی وجہ سے معاشی مشکلات کا سامنا بھی ہے۔
شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والی اقلیتی کمیونٹی کے ارکان نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کو راشن مراکز سے کھانے پینے کی اشیا دستیاب ہوئی ہیں اورنہ ہی دوسرے آئی ڈی پیز کی طرح کوئی معاشی امداد ملی ہے۔ اس کی وجہ ان کے گھروں کے دوہرے پتے ہیں، ایک پتہ شمالی وزیرستان اور دوسرا پنجاب کے دیہاتوں کا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ شمالی وزیرستان میں رہتے ہیں اور انہوں نے پنجاب سے نہیں بلکہ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کی ہے۔
خالد مسیح نے کہا:’’ ہم اس دھرتی کے بیٹے ہیں اور کئی برسوں سے اس کی خدمت کررہے ہیں لیکن ہماری آئی ڈی پیز کے طور پر شناخت نہیں کی گئی۔‘‘
الخدمت فاؤنڈیشن کے کوارڈینیٹر رحمت اللہ نے کہا کہ وہ بنوں اور کہیں پر بھی وفات پانے والے آئی ڈی پیز کو ایمبولینس سروس فراہم کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ ہم وفات پانے والے لوگوں کی لاشوں کو شمالی وزیرستان لے جانے کے لیے دستاویزات کی تیاری کی سہولت اور ایمبولینس فراہم کر رہے ہیں کیوں کہ لوگوں کی بڑی تعداد اپنے پیاروں کو آبائی قبرستان یا کم از کم شمالی وزیرستان میں دفن کرنا چاہتی ہے۔‘‘
بنوں میں رہنے والے آئی ڈی پیز نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ جس قدر جلد ممکن ہوسکتا ہے‘ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جانا چاہتے ہیں۔
شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی سے تعلق رکھنے والے آئی ڈی پی نور حسن نے کہا:’’ مجھے کسی قسم کی کوئی معاشی مدد ، راشن اور نہ ہی کوئی اور چیز چاہیے‘ ازراہِ مہربانی ہمیں ہمارے گھروں کو واپس بھجوا دیں۔‘‘