پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں کریکر زکا بڑھتا ہوا استعمال

0
4439

کراچی (تہمینہ قریشی سے) ہر وہ شخص جو پاکستانی ٹی وی چینل ایک سے زائد بار دیکھ چکا ہے، وہ دکانوں، پولیس اہل کاروں یا لوگوں کے گھروں پر ہونے والے ’’کریکر حملے‘‘ کی اصطلاح سے متعارف ہوگا۔
لیکن بدنام زمانہ کریکر کیا ہے جو بڑی حد تک ایک کھلونا محسوس ہوتا ہے جسے آتش بازی کا سامان بنانے والے کسی شرپسند نے تیار کیا ہے؟ کیا یہ پٹاخے کی کوئی خطرناک قسم ہے یا درحقیقت ایک بم ہے؟
یہ نتیجہ برآمد ہوگا کہ ہر کریکر آئی ای ڈی (دھماکہ خیز مواد ) ہوتا ہے لیکن ہر آئی ای ڈی کریکر نہیں ہوتا۔ کراچی بم ڈسپوزل سکواڈ کے سربراہ صابر خان نے وضاحت کی:’’جب کسی گولے میں بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواداستعمال کیا جائے تو وہ خام ہینڈگرینیڈ ہوتا ہے۔‘‘
یہ بنیادی اصول پیشِ نظر رہے کہ اگر ہاتھ سے پھینکنے والے آئی ای ڈی میں المونیم پاؤڈر موجود ہو تو وہ کریکر کی وسیع تر تعریف پر پورا اترے گا۔
صابر خان نے کہا:’’ ایک روایتی کریکر،جو کہ دکانوں پر فروخت ہوتا ہے، ٹینس کے کھیل میں استعمال ہونے والے گیند سے بنتا ہے۔ اس میں سوراخ کرکے دھماکہ خیز مواد بھرا جاتا ہے جس میں عام طور پر المونیم پاؤڈر استعمال ہوتا ہے اور جب کریکر کو ٹھوس سطح پر پھینکا جاتا ہے تو زوردار دھماکہ ہوتا ہے۔ اس آواز کے باعث اس کا نام کریکر پڑاجو کہ پٹاخوں کے لیے بھی مستعمل ہے۔ المونیم پاؤڈر انتہائی دھماکہ خیزمواد استعمال ہوتا ہے اور ذرا سی رگڑ کھانے پر پھٹ جاتا ہے۔‘‘
صابر خان نے کہا کہ ایک عام کریکر میں تقریباً تین سو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا:’’ دوسری جانب ایک ہینڈ گرینیڈ میں صرف 65گرم دھماکہ خیز مواد استعمال کیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ زیادہ خطرناک تصور ہوتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ گرینیڈ ایک ’’ آرڈیننس ایکسپلوزیو ڈیوائس‘‘ ہے جو کہ فیکٹریوں میں بنتا ہے اور اس میں مخصوص دھماکہ خیز مواد استعمال ہوتا ہے۔انہوں نے مزید کہا:’’ لیکن کریکر عام طور پرماہرین نہیں بناتے۔ ان میں اگرچہ زیادہ بارودی مواد استعمال ہوسکتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کے اثرات ہمیشہ تباہ کن ہی ہوں۔‘‘
تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ کریکر بم تباہ کن نہیں ہوسکتا۔ چوں کہ ان کو بنانے کا کوئی باضابطہ فارمولہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ان میں استعمال کیا جانے والا دھماکہ خیز مواد مختلف ہوسکتا ہے ، اس کا انحصار اس اَمر پر ہے کہ ان کا استعمال کس مقصد کے لیے کیا جانا ہے۔
صابر خان نے کہا:’’اگر آپ نے کریکر میں گولیاں یا بال بیئرنگ بھرے ہیں تو آپ کے پاس ایک قدرے تباہ کن بم ہے۔ حتیٰ کہ اگر آپ کچھ فاصلے پر بھی کھڑے ہوں ، تو گولیاں تیزی سے باہر آئیں گے جو سنجیدہ نوعیت کے زخموں کا باعث بن سکتی ہیں۔‘‘
حیدرآباد بم ڈسپوزل سکواڈ کے اہل کارسلیم وسٹرو اکتوبر 2014ء میں ٹنڈو الہ یار میں ایک خالی پلاٹ سے ملنے والے کریکر بموں کو ناکارہ بناتے ہوئے جاں بحق ہو گئے تھے۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کے سابق نگران فخرالحسین نے کہا:’’ ان کا ہاتھ کریکر پھٹنے سے زخمی ہوگیا اور وہ زیادہ خون بہہ جانے کے باعث ایک روز بعد انتقال کرگئے۔‘‘
22نومبر 2014ء کو سندھ اسمبلی کے تین اراکین سمیت متحدہ قومی موومنٹ کے 23کارکن اس وقت زخمی ہوگئے جب ارونگی ٹاؤن میں لگائے گئے رکنیت سازی کے کیمپ کو ہدف بنایا گیا۔
اس سے ایک ہفتہ قبل ہی 15نومبر کو سرسید پولیس سٹیشن کی گشت کرنے والی گاڑی نیوکراچی میں یکے بعد دیگر ہونے والے دوکریکر حملوں میں بال بال بچی تھی جو خوش قسمتی سے پھٹ نہیں سکے تھے۔
ویسٹ زون میں بم ڈسپوزل سکواڈ کے انچارج عابد فاروق نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں کریکرز کا وزن 650گرام تھا اور ان میں کیل بھرے ہوئے تھے۔انہوں نے کہا: ’’ ان میں انتہائی آتش گیر مواد استعمال ہوا تھا جن میں المونیم پاؤڈر اور فاسفورس بھی شامل تھا جس نے فوری طور پر پھٹنا تھا اور آگ نے گاڑی کواپنی لپیٹ میں لے لینا تھا۔‘‘
ؔ صابر خان نے کہا کہ کریکر بموں کا استعمال بھتہ خوروں کی جانب سے تاجروں کو ڈرانے کے لیے شروع کیا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ ان کو منہ مانگی رقم ادا کریں۔ 
قصبہ کالونی کی ایک آئل شاپ پر کریکر پھینکنے کی نوعیت کے واقعات ایک سال قبل یااس زائد عرصہ تک بڑی تعداد میں ہوتے تھے۔ صابر خان نے کہا:’’ لیکن اب کریکرز کا استعمال دہشت گرد اور کالعدم تنظیمیں بھی کر رہی ہیں جو انہیں لوگوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔‘‘
خصوصی تفتیشی یونٹ کے سربراہ ایس ایس پی فاروق اعوان کراچی میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اکثر و بیش تر کریکرز اور بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بناتے ہیں۔
ایس ایس پی فارو ق اعوان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جولائی 2014ء میں ان کے یونٹ نے کراچی کے مختلف علاقوں میں کارروائی کرکے 33جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا اور ان کے قبضہ سے دھماکہ خیز مواد برآمد کیا جن میں کریکر بم اور کلاشنکوفیں شامل تھیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح 2014ء میں 9محرم الحرام کی رات کو کراچی میں یکے بعد دیگرے تین دھماکے ہوئے جن میں سے ایک کریکر کا حملہ تھا ‘ یہ کریکر ٹنس کے گیند سے مماثلت رکھتا تھا اور نیو کراچی میں پولیس کی ناکہ بندی پر پھینکا گیاتھا جس کے باعث دو ہل کار زخمی ہوگئے تھے۔
کرائم انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کے سابق افسر انسپکٹر حیدر رضوی نے تسلیم کیا کہ مقامی پولیس ارادی اور غیر ارادی طور پر اکثر اوقات کریکر کوبموں کی دیگر اقسام سے الگ نہیں کرپاتی۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی یہ عادت ہے کہ جب وہ کسی وقوعہ میں ہونے والے نقصان کے اثر کو زائل کرنا چاہتے ہیں تو بم دھماکوں کو کریکرز کے ذریعے کی جانے والی کارروائی قرار دے دیتے ہیں۔
حید ررضوی نے انکشاف کیا :’’ جب پولیس کو بڑی تعداد میں ہینڈ گرینڈ دستیاب ہوتے ہیں تو وہ انہیں کریکر قرار دے دیتی ہے کیوں کہ یہ تاثر عام ہے کہ کریکر خطرناک نہیں ہوتے۔‘‘
انہوں نے تسلیم کیا:’’ پولیس اہل کار تربیت یافتہ نہیں ہیں جس کے باعث وہ فوری طور پر گرینیڈ اور کریکر کے دھماکے میں فرق واضح نہیں کرپاتے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here