چمن (عبدالمالک اچکزئی) صمد خان چمن ریلوے سٹیشن پر ٹرین سے 40فٹ لمباکنٹینر اتارنے میں مصروف ہیں۔ اس مشقت نے82برس کے صمد خان کو تھکا دیا ہے ، ان کے چہرے کی داڑھی مکمل طور پر سفید ہوچکی ہے۔ وہ اپنے ساتھی مزدوروں سے کہتے ہیں کہ کیا وہ کچھ دیر کے لیے آرام کرسکتے ہیں۔
صمد خان کنکریٹ کے پلیٹ فارم پر آرام کرنے کے لیے بیٹھتے ہوئے کہتے ہیں:’’ مجھے اپنی سانسیں ہموار کرنی ہیں‘‘۔
یہ صبح کا پہر ہے۔ سٹیشن پر اس قدر رونق نہیں ہے کیوں کہ نئے پاک افغان تجارتی راہداری کے معاہدے نے افغان تاجروں کوقبل ازیں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدے سے زیادہ رقم ادا کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ساحلِ سمندر نہ ہونے کے باعث افغانستان کی بیش تر تجارت بحیرۂ عرب کے مرہونِ منت ہے جس کے باعث اسے پاکستان پر انحصارکرنا پڑتا ہے۔
قبل ازیں افغانستان بھیجنے کے لیے سامان سندھ کے دارالحکومت کراچی سے ٹرین کے ذریعے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے گرد آلود سرحدی شہر چمن تک پہنچایا جاتا تھا جہاں سے اس کی ترسیل سرحد کے اس پار افغانستان کے شہر قندھار تک عمل میں آتی۔ ٹرینیں اب وصل بجاکر لوگوں اور ٹریفک کو خبردار نہیں کرتیں کہ وہ راستے سے پرے ہٹ جائیں کیوں کہ یہ سامان سے بھری ہوئی ہیں۔کبھی ان کی دھاڑتی ہوئی آواز کی گونج ہوا میں پھیلتی چلی جاتی،جس کی بازگشت قریبی دیہاتوں کی مٹی کی دیواروں سے چھوکر واپس آتی۔ ٹرین کی لائنیں مٹی سے بھر جاتیں۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب نوآبادیاتی عہدکی سفید رنگ کی عمارت میں چمن کا چھوٹا سا ریلوے سٹیشن ایک پرشور مقام تھا جہاں ہمہ وقت کوئی نہ کوئی سرگرمی جاری رہتی جن میں سے بیش تر کا تعلق افغان ٹرانزٹ تجارت سے تھا۔ یہ ان سینکڑوں کنٹینروں کا آخری سٹاپ تھا جو کراچی میں افغان ٹرانزٹ سامان سے بھر کر آتے تھے۔
چمن میں ٹرانز ٹ ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے صدر گل زریں خان نے کہا:’’چمن سے تعلق رکھنے والے تقریباً200مزدور اور 25سو سے زائد ٹرانسپورٹرزجن میں ڈرائیور، کنڈیکٹر اور ٹرک مالکان شامل تھے، افغان ٹرانزٹ تجارتی گزرگاہ کی وجہ سے روزانہ دیہاڑی لگاتے اور اپنی محنت کا معاوضہ وصول کرتے ۔‘‘
صمد خان ان سینکڑوں مزدوروں میں سے ایک ہیں جو افغانستان جانے والے ٹرکوں پر سامان لوڈ کرتے تھے۔ ان کے لیے اس قصبے میں معاش کا یہ واحد زریعہ تھا جہاں پر کوئی صنعت یا زرعی سرگرمی نہیں ہوتی جس سے صمد خان کی طرح کے دیہاڑی دار محنت کش منسلک ہوسکیں۔
صمد خان کہتے ہیں:’’ میں اس وقت سے مزدوری کررہا ہوں جب افغان ٹرانزٹ تجارت پہلی بار شروع ہوئی تھی، میں اس بڑھاپے میں اپنے خاندان کے 17افرادکی کفالت کرتا ہوں۔‘‘ وہ اس وقت نوجوان تھے جب1965ء میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان ٹرانزٹ تجارت کا معاہدہ ہواتھا۔
صمد خان کی طرح دوسرے مزدور بھی جو افغانستان جانے والے ٹرکوں پر سامان لادتے اور اتارتے تھے ، ٹرانزٹ تجارت کا حجم کم ہونے سے روزانہ حاصل ہونے والی آمدنی کے ایک اہم ترین ذریعے سے محروم ہوچکے ہیں۔
چمن چیمبر آف کامرس کے صدر داڑو خان اچکزئی نے کہا:’’ تین سے چار سو سامان سے لدے کنٹینرز اس راستے سے افغانستان جاتے تھے جس سے صوبہ کے 10ہزار خاندانوں کو مالی فائدہ ہوتا جس کے ارکان دیہاڑی دار مزدور، ٹرانسپورٹر اور کلیئرنگ ایجنٹ کے طور پر کام کرتے تھے لیکن اب ان کنٹینرز کی تعداد کم ہوکر 20سے 40رہ چکی ہے۔‘‘
افغانستان جانے والے سامان کی ترسیل کے حجم میں 2010ء کے بعد کمی آئی جب پاکستان نے 1965ء میں ہونے والے افغان ٹرانزٹ تجارتی معاہدے کی تجدید کی۔ داڑو خان کے مطابق 2010ء کے معاہدے کے تحت افغان تاجروں سے باربرداری، ٹریکرز اور انشورنس کی مد میں زیادہ معاوضہ وصول کیا گیا۔ افغان تاجروں نے پاکستان کی کراچی بندرگاہ سے اپنا ٹرانزٹ روٹ تبدیل کرکے ایران کی چہربار بندرگاہ کے راستے تجارت شروع کردی کیوں کہ ان کو پاک افغان تعلقات میں کشیدگی اور کراچی میں پاکستانی بندرگاہ پر قانونی کارروائی میں تاخیر کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
داڑو خان کہتے ہیں:’’ اب صرف ایک سو مزدور، ٹرانسپورٹر اور کلیئرنگ ایجنٹ ہی اس روٹ پر مزدوری کرکے اجرت حاصل کرتے ہیں۔‘‘
دیہاڑی دار مزدور صمد خان کبھی ایک ماہ کے 20ہزار روپے (20امریکی ڈالرز )کماتے تھے، اب وہ ایک ماہ کے صرف 6ہزار روپے کما پاتے ہیں۔انہوں نے نیوزلینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیش تر ساتھی ’’فارغ‘‘ بیٹھے رہتے ہیں کیوں کہ اب افغان ٹرانزٹ تجارت کا حجم کم ہوچکا ہے۔
افغان تاجر محمد حنیفیہ نے کہا کہ پاکستان میں امن و امان کی صورتِ حال وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث تاجروں نے افغان ٹرانزٹ تجارت کے لیے چہربہار بندرگاہ کا رُخ کیا ہے۔
انہوں نے کہا:’’ 15ہزار سے زائد کنٹینر اس وقت چوری ہوئے یا پھر لوٹے گئے جب ان کی کراچی بندرگاہ پر جانچ کی گئی۔ ہم کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے کیوں کہ ہمارے بہت سارے کنٹینر کراچی سے چمن جاتے ہوئے جلائے یا لوٹے جاچکے ہیں۔‘‘
چمن کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کسٹم سیف اللہ خان کہتے ہیں کہ افغان کنٹینر نقل و حمل کے دوران اس وقت جلائے گئے جب عسکریت پسندوں نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں نیٹو سپلائز کو لوٹا اور نذرِ آتش کیا۔
انہوں نے کہا:’’ پاکستان اور افغانستان کے چیمبر آف کامرس اس حوالے سے اجلاس کرتے رہے ہیں اور ہم پرامید ہیں کہ امن و امان کی بہتر صورتِ حال سے پاکستان‘ افغان ٹرانزٹ تجارت کے لیے ایک پرکشش راہداری بن جائے گا۔‘‘
ایک افغان تاجر حاجی لالائے کے مطابق ایرانیوں کی نسبت پاکستانی حکام زیادہ تعاون کرتے ہیں لیکن سخت اصولوں ا ورکنٹینرز کی جانچ میں تاخیرنے افغان تاجروں کو ٹرانزٹ روٹ تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے۔
35برس کے کمیشن ایجنٹ عبدالحلیم ،جو افغان ٹرانزٹ ٹرکوں کی ان کے کاغذات کی جانچ کروانے میں مدد کرکے سرحد پار کروانے میں مدد کیا کرتے تھے، کہتے ہیں کہ وہ افغانستان جانے والے ہر ٹرک سے مناسب کمیشن وصول کیا کرتے تھے۔ لیکن اب وہ اور ان کے ساتھی بہ مشکل کچھ کما پاتے ہیں کیوں کہ پورا مہینہ کسی بھی قسم کی واضح تجارتی سرگرمی کے بغیر ہی گزر جاتا ہے۔
ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن چمن کے صدر گل زریں خان کہتے ہیں :’’ 1965ء سے اب تک ایک ہزار ٹرک ٹرانزٹ تجارت کا حصہ بن چکے ہیں جو چمن سے قندھار سامان لے کر جاتے ہیں۔ ہر ٹرک کے ساتھ ایک ڈرائیور، ایک کنڈیکٹر اور مزدوروں کاجتھہ ہوتا ہے جن کی زندگیاں افغان ٹرانزٹ تجارت میں کمی کے باعث بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔‘‘
پاکستان کے سرحدی حکام کہتے ہیں کہ قندھار، افغانستان جانے والا تجارتی سامان صوبہ بلوچستان میں سمگلنگ کے غیر قانونی راستوں کے ذریعے پاکستان واپس آجاتا ہے جہاں سے ان کی ملک کے دوسرے صوبوں میں ترسیل عمل میں آتی ہے جس کے باعث مقامی طور پر تیار کی گئی مصنوعات کی فروخت متاثر ہوتی ہے۔
افغان تاجر لالائے نے کہا:’’ یہ درست نہیں ہے کیوں کہ افغانستان کو مقامی استعمال کے لیے ٹرانزٹ سامان کی ضرورت ہے۔‘‘
35برس کا عبدالرزاق چمن میں سمگل شدہ مصنوعات فروخت کیا کرتا تھا۔اس کا کاروبار اب مندی کا شکار ہوچکا ہے کیوں کہ افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں نے سرحد پر سامان کی غیرقانونی نقل و حرکت روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔
عبدالرزاق نے کہا:’’ قبائلیوں کو قوانین کا پابند نہیں بنایا جانا چاہیے اور روزمرہ استعمال کی مصنوعات جیسا کہ خوردنی اشیا، صابق، کپڑا اور الیکٹرانک مصنوعات کی افغانستان سے چمن میں ترسیل کی اجازت دی جانی چاہیے۔‘‘
نیم عسکری ادارے فرنٹیئر کور کے ترجمان منظور کے مطابق ایف سی سمگل شدہ سامان قبضے میں لیتی ہے اور 12گھنٹوں کے اندر اندر اسے کسٹم حکام کے حوالے کردیتی ہے۔
ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پاکستان کسٹم ہاؤس چمن سیف اللہ خان نے کہا کہ سامان کی سمگلنگ سرحد کے اس پار افغانستان کے علاقوں سے ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا:’’سرحد چوں کہ طویل اور کئی مقامات سے کھلی ہے جس کے باعث افغان فورسز سمگلنگ کی اجازت دے دیتی ہیں کیوں کہ ان اشیا پر کسٹم ڈیوٹی پہلے سے ہی افغانستان میں ادا کی جاچکی ہوتی ہے۔‘‘
سیف اللہ خان نے کہا:’پاکستان میں سامان کی ترسیل کا بہترین ذریعہ ریلوے ہے ۔ یہ نہ صرف محفوظ ہے بلکہ کم خرچ بھی ہے۔ پاکستان ریلوے ایک دن میں 100سے زائد کنٹینر لے کر جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ٹرانزٹ تجارت سے روزانہ ایک کروڑ روپے حاصل ہوسکتے ہیں۔‘‘
چیمبر آف کامرس چمن کے صدر داڑو خان اچکزئی اس نقطۂ نظر سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’ افغان پاکستان تجارتی راہداری کے معاہدے کی تجدید کے بعد ارسال کی گئی اشیا کنٹینرز میں بند ہوتی ہیں، کھلی ہوئی اشیا سمگلرز کے لیے دستیاب نہیں ہوتیں۔ سامان کی ان کنٹینروں میں نگرانی کی جاتی ہے جن کی انشورنس ہوئی ہوتی ہے۔‘‘
داڑو خان کہتے ہیں کہ یہ اب افغانستان اور پاکستان کے فیڈرل بورڈز آف ریونیو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے مابین ٹرانزٹ تجارت کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے بجائے افغانستان بھیجی گئی اشیا کی پاکستان واپسی کا راستہ روکیں ۔
Good job Dear
nice and very good raport