بنوں:’بائسکوپ‘ کی جگہ کاروباری مراکز قائم،سینما جانے کا شوق دم توڑنے لگا

1
7564

بنوں (احسان داوڑ سے) وہ لوگ جو بنوں کے میلاد چوک جاچکے ہیں، ہوسکتا ہے کہ انہوں نے گلاب خان کو سورج کی روشنی میں سارا دن بیٹھے دیکھا ہو۔ اس کی 10برس کی پوتی سلامہ اس کے لیے دوپہر کا کھانا اور شام کے وقت چائے لے کر آتی ہے۔ 
جب سورج زمین پر حرکت کر رہا ہوتا ہے تو گلاب خان اس کے ساتھ ساتھ خودبھی اپنی جگہ تبدیل کرتا رہتا ہے اور سورج کی روشنی میں رہنے کے لیے اپنی کرسی کو حرکت دیتا ہے۔ اس کے دن سورج کا تعاقب کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں‘ موسمِ سرما گلاب خان کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے کیوں کہ دن چھوٹے ہوتے ہیں اور سورج کسی ایک مقام پر مشکل سے ہی زیادہ دیر ٹھہرتا ہے۔ 
میں نے جب گلاب خان کے بارے میں باغ کے نزدیک ہی اپنے دفترمیں بیٹھے ریئل سٹیٹ ڈیلر شفیق خان سے استفسار کیا کہ میں گلاب خان کو کہاں پر تلاش کرسکتا ہوں تو اس نے کہا:’’ اس کے لیے وہاں پر مت جاؤ کیوں کہ وہ اپنے بیتے دنوں کے بارے میں بات کرنے لگ جائے گا جب وہ بائسکوپ دیکھنے جایا کرتا تھا۔‘‘
75برس کا گلاب خان مقامی لوگوں میں کاکا کے نام سے معروف ہے۔ یہ اصطلاح پشتون معاشرے میں بزرگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ کاکا ان دنوں کو نہیں بھولا جب بنوں اس قدر گنجان آباد نہیں تھا اور اس کی بیش تر عمارتیں نوآبادیاتی دور کی تھیں جن میں سلیم تھیٹر اور ریگل سینما کی عمارت بھی شامل تھی جنہیں مقامی ہندو آبادی نے بیسویں صدی کے اوائل میں نہ صرف تعمیر کیا تھا بلکہ ان کی سرپرستی بھی کی۔
کاکا نے 1950ء کی دہائی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا:’’ جب میں 15برس کا تھا تو سینما جایا کرتا۔‘‘ اس نے مجھے گھور کر دیکھا‘ میں پریقین نہیں تھا کہ وہ مجھ سے بات کرے گا یا نہیں لیکن جب میں نے اسے یہ بتایا کہ میں ایک رپورٹر ہوں تو وہ پرسکون ہوگیا۔ 
اس نے کہا:’’ بیٹا، وہ بہت اچھا وقت تھا اور ہم پورا دن کام کرنے کے بعد شام کے وقت بالوں پر پوماد لگاتے اور کے ٹو کے سگریٹ سلگا کر فلم دیکھنے کے لیے روانہ ہوجاتے۔‘‘
کاکا نے کہا کہ یہ شہر کے باسیوں کی واحد تفریح تھی۔
بنوں ماضی کے شہر کا آسیب دکھائی دیتا ہے،یہ ایک پرہجوم اور گردآلود شہر ہے جہاں پڑوسی قبائلی ایجنسی شمالی وزیرستان سے آنے والے مہاجرین آباد ہوئے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے باعث شہر میں سکیورٹی کو بہت زیادہ سخت کیا جاچکا ہے جس کی وجہ یہ خوف ہے کہ اس راستے سے عسکریت پسند فرار ہوسکتے ہیں۔ کاکا نے جس ماحول کی جانب اشارہ کیا تھا‘ ایسا پرسکون ماحول کہیں نظر نہیں آتا تھا۔ خیبر پختونخوا کے پاک افغان سرحد سے متصل دوسرے علاقوں کی طرح بنوں میں بھی ہمیشہ سے رجعت پسند آبادی کا غلبہ رہا ہے جس کا زندگی کے بارے میں نقطۂ نظر مذہبی نوعیت کا حامل ہے۔ لیکن کاکا کہتے ہیں کہ یہ لوگوں کو تفریح سے نہیں روک سکا ‘ اس زمانے میں تفریح کا واحد ذریعہ ’بائسکوپ‘ تھا ، یہ لفظ اس وقت سینما کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ 
کاکا کے مطابق اس وقت بنوں جیسے چھوٹے شہر میں بھی فلم بینی وقت گزارنے کا مقبول ترین ذریعہ تھا‘ یہ شہرمیڈیا اور پاکستان کے بڑے شہروں کی آبادی کی جانب سے ہنوزدور افتادہ خیال کیا جاتا ہے۔یہ قصبہ حال ہی میں اس وقت خبروں میں آیا جب شمالی وزیرستان سے اندرونِ ملک ہجرت کرنے والی 10لاکھ آبادی کا ایک بڑاحصہ یہاںآباد ہوا‘ شمالی وزیرستان پاک افغان سرحدپر عسکریت پسندی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں سے ایک ہے۔ پاکستانی فوج نے جون 2014ء میں شمالی وزیرستان سے مقامی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کو نکالنے کے لیے فوجی آپریشن شروع کیا۔ 
کاکانے یادوں کے دریچے وا کرتے ہوئے کہا:’’ دیہاتوں میں بہت سے دوست تھے جو شہروں میں آتے اور رات ٹھہرتے تاکہ سینما میں فلم دیکھ سکیں۔ صرف شہری آبادی ہی نہیں بلکہ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور ادھیڑ عمر لوگ بھی شام کو آجاتے تاکہ رات دیرگئے تک جاری رہنے والی فلم کا شو دیکھ سکیں۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ ان کا یہ معمول تھا کہ وہ شہر کے نواحی دیہاتوں میں رہنے والے اپنے دوستوں کو سینماؤں میں چلنے والی نئی فلموں کے بارے میں بتاتے۔ کاکا بتاتے ہیں کہ ان میں سے بیش تر بالی وڈ کی پرانی فلمیں تھیں۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 48برس کے بشیر خان نے کہا کہ جب وہ لڑکے تھے تو بنوں فلمیں دیکھنے کے لیے آیا کرتے اور اگلے دن صبح میر علی کے لیے روانہ ہوجاتے‘ یہ شمالی وزیرستان کا دوسرا سب سے بڑا قصبہ ہے۔ 
بشیر نے کہا:’’ میرے والد مجھے فلمیں دیکھنے کی اجازت نہیں دیتے تھے کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے میں اپنا ایمان کھو دوں گالیکن مجھے جب بھی موقع ملتا‘ میں اپنے دوستوں کے ساتھ آجاتا۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے فلمیں دیکھنے کا نشہ سا تھا۔‘‘
یہ سب قص�ۂ پارینہ بن چکا ہے۔ سارا ملک 11ستمبر کے بعد شروع ہونے والی شورش اور عسکریت پسندی سے متاثر ہوا ہے، اور مستقل طو رپر موصول ہونے والی دھمکیوں، بم حملوں اور دہشت گردی کے واقعات کے باعث سینما جانا محفوظ نہیں رہا۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں سینماؤں کو کاروباری مراکز میں تبدیل کیا جاچکا ہے کیوں کہ لوگ دہشت گردی کے خوف کے باعث سینماؤں کا رُخ نہیں کرتے۔ 
صوبے کا درارالحکومت پشاور ایک دہائی سے بھی کم عرصہ میں 10سینماؤں سے محروم ہوا ہے۔ بنوں میں بھی یہ رجحان غالب رہا ہے جہاں قائم دو تاریخی سینما گھروں کو منہدم کرکے ان کی جگہ پلازے بنا دیئے گئے ہیں۔
بنوں کے رہائشی منظورالدین جب نوجوان تھے توسینما جانا ان کا معمول تھا‘ وہ کہتے ہیں کہ ممکن ہے عسکریت پسندی کے باعث سینما گھر بند ہوئے ہوں لیکن یہ واحد وجہ نہیں ہے۔
منظور کہتے ہیں:’’ جب ایسی فلمیں بننا بند ہوئیں جن کی کوئی مربوط کہانی ہوتی اور فلمیں کاروبار کا ایک ذریعہ بن گئیں تو فلم بینوں نے سینما گھروں کا رُخ کرنا چھوڑ دیا۔بنوں کے سینما گھروں میں زیادہ تر پشتو فلموں کی نمائش کی جاتی لیکن 21ویں صدی کا سورج طلوع ہونے اورڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے متعارف ہونے کے بعد لوگوں کی ہر طرح کے میڈیا تک رسائی ممکن ہوگئی ہے‘ پشتو فلمیں گیتوں اورڈانس کے سوا کچھ نہیں رہیں اور پشتو فلمی صنعت خودکو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے میں ناکام رہی ہے۔‘‘
منظور بتاتے ہیں کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ ریگل سینما جایا کرتے تھے لیکن فحش فلموں کی نمائش اور خطے میں عسکریت پسندی و دہشت گردی کے باعث یہ ناممکن ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا دور ہے لیکن سینما کو صرف اسی سے نقصان نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا:’’ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں انڈیا پاکستان سے کہیں آگے ہے لیکن وہاں سینماؤں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ بڑی سکرین پر فلم دیکھنا ایک ایسا تجربہ تھاجس کا لیپ ٹاپ یا موبائل پر فلم دیکھنے سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔
منظور نے بتایا کہ بنوں میں سلیم تھیٹر 1936ء میں برطانوی راج کے دنوں میں ایک مقامی ہندو کنیا لال سنگھ نے قائم کیا تھا۔
منظور نے مزید کہا:’’ ہم اپنے تاریخی ورثے کو محفوظ نہیں بنا سکے اور اب بنوں شہر میں مقامی لوگوں کی تفریح کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘
بنوں کے دونوں سینما گھروں کو ان کے مالک کی جانب سے منہدم کیا جاچکا ہے اور ان کی جگہ پر کاروباری پلازے تعمیر کیے گئے ہیں۔ منظور کا یہ خیال تھا کہ قانونی طور پر کوئی بھی کاروباری عمارت سینما کی جگہ نہیں لے سکتی۔
ڈرامہ نگار اور پشتو زبان کے شاعر اقبال حسرت نے کہا کہ پاکستانیوں نے فلمی صنعت اور ثقافت کو ایسی فلمیں بنا کر تباہ کیاہے جو کہ ہماری زندگیوں سے متصادم تھیں۔
انہوں نے استفسار کیا:’’ کیا آپ نے کبھی اس لباس میں پشتون لڑکی کو دیکھا ہے جو اس نے فلموں میں پہنا ہوتا ہے؟‘‘انہوں نے کہا کہ جب فحاشی اور کاروباری اہداف نے سینما کا رُخ کیا تو سنجیدہ فلم بینوں نے سینما جانا چھوڑ دیا۔
انہوں نے کہا:’’ اب صرف آوارہ گرد ہی سینما گھروں کا رُخ کرتے ہیں۔‘‘
حسرت نے کہا کہ کاروباری مقاصد کے غالب آنے سے سینما کا جو زوال شروع ہوا تھا‘ اس میں دہشت گردوں کی جانب سے پیدا کیے گئے خطرات کے باعث مزید اضافہ ہوگیا۔ 
انہوں نے کہا:’’ یہ (عسکری پسندی)سینما کے کفن میں آخری کیل تھا۔‘‘
حسرت نے بتایا کہ سینما مالکان کو عسکریت پسندوں سے کی جانب سے نہ صرف دھمکیاں موصول ہوئیں بلکہ ان کو دہشت گردی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
انہوں نے کہا:’’ اس طرح کے خطرناک ماحول میں بہت سے فلم بین سینما جانے سے خوف زدہ ہوگئے۔‘‘
حسرت محسوس کرتے ہیں کہ شہر اور صوبہ بھر میں سینما گھر بند ہونے سے شہری ایک ایسے علاقے میں تفریح کے انتہائی کم قیمت ذریعے سے محروم ہوگئے ہیں جہاں تفریح کا کوئی اور متبادل ذریعہ دستیاب نہیں ہے۔
سینما کے زوال کی جو بھی وجوہات رہی ہوں ، کاکا کی طرح کے لوگوں کاسینما جانے کا مزید امکان نہیں ہے کہ وہ کھڑے ہوکرپشتو فلموں کے محروم ہیرو بدر منیر کو داد دیں جو ہیروئن کو انتہائی مشکل سے پشتو فلموں کے ولن نعمت سرحدی کے پھندے سے آزاد کرواتے ہیں۔
بنوں میں کوئی سینما گھر نہیں ہے ‘ لوگ اپنے گھروں میں محصور رہتے ہیں اور ادھیڑ عمر افراد جیسا کہ گلاب خان کاکا دن بھر سورج کی کرنوں کا تعاقب کرتے ہیں، وہ اپنی زندگی کے دن گِن رہے ہیں اور نوجوانوں کی طرح وہ بھی یہ نہیں جانتے کہ تفریح کے لیے کہاں جائیں۔

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here