دیوان بہادر ایس پی سنگھا ۔ 1893 -1948 ۔ آج میں تحریک پاکستان کے ایک عظیم سپاھی اور قائد اعظم محمد علی جناح کے معتمد ساتھی کا تعارف کروانے جا رہا ھوں ۔ اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ہماری نوجوان نسل کو ان کے شاندار ماضی اور تاریخ سے وہ آگاہی باوجوہ حاصل نہیں رہی جو ہونی چاہیے تھی ۔ ماضی سے ناواقفیت حال کے درست راستےاور منزل سے بھٹک جانے کا سبب بنتی ہے ۔
دیوان بہادر ایس پی سنگھا کا تعلق سیالکوٹ پسرور سے تھا ۔ وہ مسیحی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے. پنجاب یونیورسٹی جیسے پنجاب کے مایہ ناز تعلیمی ادارے میں رجسٹرار کے عہدے پر فائز تھے ۔ 1945میں وہ متحدہ پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ۔ بعد میں یونینسٹ پارٹی کے تعاون سے پنجاب اسمبلی کے سپیکر منتخب ھوئے ۔ جب پنجاب کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو وہ اسمبلی کے سپیکر تھے ۔ مسلم لیگ کے ووٹ 88 تھے اور متحدہ ہندوستان کے حق میں سیاسی قوتوں کے ووٹ بھی 88 تھے ۔ اس صورت حال میں 3 مسیحی ممبران اسمبلی کا ووٹ فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گئے ۔ دیوان بہادر ایس پی سنگھا نے قائد اعظم محمد علی جناح سے مل کر انہیں اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ۔ بالآخر 23جون 1947 کو وہ فیصلہ کن مرحلہ آ پہنچا ۔اسمبلی میں اس بنیاد پر ووٹ ڈالے گئے کہ مغربی پنجاب کو پاکستان میں شامل ھونا چاہیے یا ہندوستان میں؟ جب ووٹ کاسٹ کرنے کا وقت آیا تو تینوں مسیحی ممبران اسمبلی ، سپیکر دیوان بہادر ایس پی سنگھا ، فضل الہی اور گبن صاحب پاکستان کے حق میں کھڑے ھوے ،نتیجہ 88 ووٹ ہندوستان کے حق میں اور 91 ووٹ پاکستان کے حق میں پڑے ۔ بعد میں دیوان بہادر ایس پی سنگھا کے اس احسان کا بدلہ یوں اتارا گیا کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی قرار داد پیش ہوئی کہ سپیکر ایک غیر مسلم نہیں ھونا چاہیے ۔ اس طرح قیام پاکستان کی ابتدا میں ہی قیام پاکستان کے مقاصد کے ساتھ کھلواڑ کا سلسلہ شروع ہوا ۔ مزہبی انتہا پسندی و نفرت کے وہ بیج بوئے گیے جس پر آنے والی غیر جمہوری حکومتوں نے آبیاری کی اور ہم آج کی نسل اس خاردار فصل کو اپنے برہنہ ہاتھوں سے کاٹ رہے ہیں ۔
مجھے بھرپور امید ہے کہ آج کے پاکستان کی آبلہ پا نوجوان نسل قیام پاکستان کے اصل مقاصد سے آگاہ ہو کر اپنے ملک کو قائد اعظم کی امیدوں امنگوں اور خوابوں کے مطابق بنانے میں اپنا کردار ضرور ادا کرے گی ۔ مسلم اور غیر مسلم فرزندان پاکستان ایک دن اپنی منزل حاصل کر کے رہیں گے ۔
پاکستان زندہ باد