کوئٹہ (مالک اچکزئی سے) بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے شروع کی گئی انسانی حقوق کی جدوجہد میں عبدالقدیر بلوچ کا کردار اہم ترین رہا ہے‘ انہوں نے گزشتہ برس کوئٹہ سے اسلام آباد تک دو ہزار کلومیٹر طویل واک کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو بیرونِ ملک جانے سے روک دیا گیا ہے کیوں کہ حکام نہیں چاہتے کہ ان کے مؤقف کی گونج عالمی سطح پر سنائی دے۔
انسانی حقوق کے کارکن اور وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کے وائس چیئرمین عبدالقدیر بلوچ، جوماما قدیر بلوچ کے نام سے معروف ہیں، اور وی بی ایم پی کی سیکرٹری جنرل فرزانہ مجید کو پانچ مارچ کو کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر روک لیا گیا جب وہ نیویارک جارہے تھے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام کے مطابق ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل تھے۔
ماما قدیر بلوچ کے مطابق ان کو سندھی اکیڈیمک اینڈ کلچر آرگنائزیشن کی جانب سے نیویارک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سندھ و بلوچستان کے لاپتہ افراد پر ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کا رسمی دعوت نامہ موصول ہوا تھا ۔
2014ء میں ماما قدیر بلوچ اور 11برس کے حیدر بلوچ نے انسانی حقوق کے کارکنوں اور بلوچ لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کی اسلام آباد تک قیادت کی‘ انہوں نے اسلام آبادسے کوئٹہ تک تمام راستہ پیدل طے کیا۔ ماما قدیر کے بیٹے کا نام بھی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھا جن کی بعدازاں لاش ملی۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ پرامن طور پر ’’اپنے بیٹے کی طرح لاپتہ ہونے والے دوسرے نوجوانوں کی تلاش کی شمع‘‘ روشن کیے ہوئے ہیں۔
80برس کے ماما قدیر نے نیوز لینز پاکستان سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا:’’ مجھے اور فرزانہ مجید کو وی بی ایم پی سے منسلک ہونے کے باعث امریکی سفارت خانے کی جانب سے پانچ برس کا ملٹی انٹری ویزا جاری ہوا تھا۔ ہم نے 20مارچ کو واپس لوٹ آنا تھاجب کہ واپسی کی ٹکٹیں بھی موجود تھیں۔‘‘وہ جب نیوزلینز سے بات کررہے تھے تو کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ میں بیٹھے تھے۔
فرزانہ مجید نے کہا:’’ میں ایک ماہ قبل اسی ایئرپورٹ سے متحدہ عرب امارات گئی تھی۔ ایئرپورٹ پر کسی نے نہیں روکا۔ میں نہیں جانتی کہ انہوں (سکیورٹی اداروں) نے اب کیوں روکا ہے۔ اس کی غالباً یہ وجہ ہے کہ ہم ہر ممکنہ پلیٹ فارم پر اپنے پیاروں کی واپسی کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔‘‘
فرزانہ مجید نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’اگر میرا بھائی لاپتہ نہ ہوتا تو میں سڑکوں پہ آنے پر مجبور نہ ہوتی۔ چھ برس قبل جب میرا بھائی ذاکر مجید بلوچ لاپتہ ہوا تو اس صدمے سے میری والدہ کی بینائی متاثر ہوئی۔‘‘
ماما قدیر کے بیٹے کو 2009ء میں حراست میں لیا گیا‘ ان کی لاش 2011ء میں ملی۔ فرزانہ مجید کا بھائی ذاکر مجید 2009ء سے لاپتہ ہے۔
فرزانہ مجید نے کہا کہ ہم گزشتہ کئی برسوں سے پرامن جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ ہم کسی بھی طرح کی سیاست کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی کسی سیاسی تنظیم کے رکن ہیں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے پیارے واپس لوٹ آئیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ 22برس کی فائقہ بلوچ بھی ہمارے ساتھ جا رہی تھیں لیکن ان کو بھی نہیں جانے دیا گیا حتیٰ کہ ان کا نام ای سی ایل میں شامل بھی نہیں تھا۔
وی بی ایم پی کے اعداد و شمار کے مطابق 18ہزار بلوچ لاپتہ ہیں جن میں سے 16سو مارے جاچکے ہیں ۔
بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سینئر قانون دان باز محمد کاکڑ کہتے ہیں:’’کسی بھی شہری کا نام اس وقت تک ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل نہیں کیا جاسکتاجب تک اس کے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے حوالے سے کوئی باضابطہ حکم جاری نہیں ہوتا یا اس پر جرم ثابت نہیں ہوجاتا۔‘‘ کوئی ادارہ بھی شہریوں کا نام صرف اس وجہ سے ای سی ایل میں شامل نہیں کرسکتا کیوں کہ اس نے انسانی حقوق کے لیے پرامن جدوجہد کی۔وہ ماما قدیر بلوچ ہوں یا کوئی بھی عام شہری، کوئی ادارہ بھی ان کی نقل و حرکت روکنے کا مجاذ نہیں۔‘‘
فرزانہ مجید نے کہا:’’میرا بھائی ذاکر بلوچ گزشتہ چھ برسوں سے حراست میں ہے‘ اس کے خلاف مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں۔ کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ امریکی حکومت جرائم پیشہ عناصر یا دہشت گردوں کو کیوں کر ویزہ جاری کرے گی‘ ماما قدیر کو دیکھئے، وہ 80برس کے بزرگ ہیں۔ وہ اس قابل نہیں کہ دہشت گردی کی کسی سرگرمی میں حصہ لے سکیں۔ ان کو بیرونِ ملک جانے سے کیوں کر روکا گیا۔‘‘
ماما قدیر بلوچ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے خلاف درج ہونے والی جعلی ایف آئی آر اور بلوچ لاپتہ افراد کی رہائی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے خلاف پٹیشن دائر کریں گے۔ انہوں نے کہا:’’ہم ( وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز) لاپتہ افراد کی رہائی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘‘
انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آرسی پی) نے انسانی حقوق کے ان تین کارکنوں کو بیرونِ ملک سفر کرنے سے روکنے کی مذمت کی ہے۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے:’’ ایف آئی اے حکام کی جانب سے ماما قدیر اور انسانی حقوق کے دودوسرے بلوچ کارکنوں کو اس وقت بیرون ملک جانے سے روکا گیا جب وہ سندھ اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہونے والے ایک سیمینار میں شرکت کے لیے امریکہ جارہے تھے جس پر ایچ آر سی پی نہ صرف تشویش کا اظہار کرتی ہے بلکہ اسے مایوسی بھی ہوئی ہے۔ مزیدبرآں موجودہ عہد میں یہ انتہائی منفی ہتھکنڈہ ہے کہ یہ کوشش کی جائے کہ کسی کا مؤقف سن نہ لیاجائے اور اس بنا پر اسے ملک چھوڑنے کی اجازت نہ دی جائے۔‘‘
عوامی نیشنل پارٹی (ولی) کے مرکزی جنرل سیکرٹری اورنگزیب کاسی نے نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا: ’’ماما قدیر بلوچ نہ ہی مطلوب ہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی جرم کیا ہے۔‘‘
پشتون الاسی تحریک سے منسلک ڈاکٹر سعید عالم محسود نے بھی ماما قدیر بلوچ اور فرزانہ مجید کو بیرونِ ملک سفر سے روکنے کی مذمت کی اور کہا:’’ میں حکام سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ماما اور ان کے ساتھیوں کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دیں کیوں کہ ان کے خلاف کوئی الزام نہیں ہے اور نہ ہی کسی قسم کے مقدمات درج ہیں۔ ماما قدیر بلوچ جہاں بھی جانا چاہتے ہیں‘ ان کوہر صورت میں اس کی اجازت ہونی چاہیے۔‘‘