دیر: ناصر خان جان کا قندیل بلوچ سے موازنہ کرنا غلط ہوگا۔ پہاڑی علاقے دیر سے تعلق رکھنے والے سماجی میڈیا کے اس ستارے کی انٹرنیٹ پر سنسنی پیدا کرنے والی معروف ماڈل و اداکارہ قندیل بلوچ سے بہت کم مماثلت ہے جنہوں نے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی رجعت پسند اور جدید پاکستان میں جاری تصادم کو واضح کیا۔
قندیل بلوچ کے قتل کے بعد فیس بک پر شہرت حاصل کرنے والی اس شخصیت کا تعلق دیر سے ہے۔
اگر قندیل بلوچ شوخ و نڈر تھیں، انہوں نے پاکستانی سماجی میں موجود تقسیم اور منافقت کو آشکار کرنے کے لیے اپنے جسم کی نمائش کی اور اپنی سوچ کا اظہار کیا توناصر خان جان شرمیلے ہیں، ان کی گفتگو وجسمانی حرکات ناموزوں ہیں۔ اگر قندیل بلوچ اعتماد سے کیمرے کا سامنا کرتیں، وہ برانگیختہ کردینے والی حرکات کرتیں جن کے باعث لاکھوں لوگوں کی جانب سے ان کی تعریف اور مذمت کی گئی تو ناصرخان جان اپنے فیس بک صفحے پر جاری کی گئی ویڈیوز میں گھبرائے ہوئے اور پریشان نظر آتے ہیں۔
ان دونوں میں صرف ایک مماثلت ہے کہ ناصر خان جان بھی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جانے والی قندیل بلوچ کی طرح وہ کچھ کرناچاہتے ہیں جو وہ جولائی میں اپنے بھائی کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل ہونے سے قبل کرنا چاہتیں تھیں۔اورانہوں نے بھی ذرائع ابلاغ کے اداروں کی جانب سے ٹھکرائے جانے کے بعد شہرت حاصل کرنے کے لیے قندیل بلوچ کی طرح سماجی میڈیا کا راستہ اختیار کیاجس کے لیے وہ طویل عرصہ سے کوشاں تھے۔
ناصر خان جان، ماڈلنگ میں غیر معمولی دلچسپی رکھتے ہیں، نے کہا:’’ میں سکول کے دنوں میں بڑا فعال ہوا کرتا، ڈراموں اور خاکوں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اب کرنے کے لیے کچھ خاص نہیں ہے کیوں کہ میں کالج میں ہوں اور اداکاری کے مواقع دستیاب نہیں ہیں۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ وہ مقامی ٹی وی چینلوں پر اپنے فن کا اظہار کرنا پسندکرتے لیکن انہوں نے مجھے اداکار کے طور پر موقع دینے سے انکار کردیا ۔ 30برس کے اس ماڈل نے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کے لیے کوئی پلیٹ فارم نہ ہونے کے باعث سماجی میڈیا کا رُخ کیا۔
ناصر خان جان نے کہا:’’ میں نے سوچا کہ میں سماجی میڈیا پرکیوں نہ اپنی صلاحیتوں کااظہار کروں۔‘‘وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ وہ احتیاط سے تیار ہوتے ہیں کیوں کہ وہ شہرت حاصل کرنے کی اپنی خواہش کو پورا کرنا چاہتے ہیں، ان کا مغربی لباس اور دھوپ میں پہننے والے چشمے خیبرپختونخوا کے اس انتہائی رجعت پسند علاقے میںانہیں واضح طور پر اجنبی بنادیتے ہیںجہاں مذہبی جماعتیں بہت زیادہ طاقت ور ہیں اور انہوں نے ماضی میں خواتین کو ان کا حقِ رائے دہی استعمال کرنے سے بھی روک دیا تھا۔
ناصر خان جان نے جب پہلی بار اداکاری کاآغاز کیا تو وہ آگاہ نہیں تھے کہ سماجی میڈیا پر ہونے سے انہیں شہرت حاصل ہو گی۔انہیں شائقین کی جانب سے توجہ اور پذیرائی حاصل ہورہی ہے، اس وقت ان کے فیس بک صفحے کو تقریباً24ہزار لوگ پسند کرچکے ہیں اور یہ تعداد بڑھ رہی ہے،جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ ناصر خان جان اپنی پوسٹوں میں ناچتے، ماڈلنگ کرتے، سماجی مسائل جیسا کہ ’’پاکستان میں بجلی کے بحران ‘‘ یا والدین کو بچیوں کو ان کے بہتر مستقبل کے لیے سکول بھیجنے کا مشورہ دیتے ہوئے نظرآتے ہیں۔
فیس بک صفحے پر جاری کی گئی ویڈیو ، جس میں وہ ناچتے ہوئے نظر آئے، پر حالیہ تبصروں میں بہت سے لوگوں نے انہیں سراہا۔ ایک پوسٹ میں کہا گیا:’’ آپ نے ڈانس میں سنی لیون کو پیچھے چھوڑ دیا ہے! قطرینہ کیف آپ پر فخر کرے گی۔‘‘ ایک دوسرے تبصرے میں کہا گیا:’’میں نے قندیل کے قتل کے بعد ان فن کاروں کو کسی حد تک پسند کرنا شروع کردیا ہے!!! یہ بے ضرر لوگ صرف اپنے جذبات و احساسات ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘
تاہم ان کے چاہنے والوں کے ان تبصروں میں کچھ ایسے تبصرے بھی شامل تھے جن میں انہیں مقامی ثقافت اور اقدار کے خلاف جانے پر برا بھلا کہا گیا تھا۔ اگرچہ وہ ایسے تبصروں کے بعد پرامید رہتے ہیںلیکن کچھ تبصروں سے وہ مضطرب ہوگئے۔
ناصر خان جان کہتے ہیں:’’ قندیل کے قتل کے بعد چیزیں اچانک تبدیل ہوگئی ہیں۔ لوگوں نے اب مجھے قتل کی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں ان کی اور ان کے گائوں، صوبے اور اکثر و بیش تر ان کے ملک کی عزت بھی ہوں۔‘‘
یہ دھمکیاں کبھی تو بالواسطہ ملتی رہیں اور کبھی براہِ راست نفرت کااظہار کیا گیا جنہیںناصر خان جان جواب نہ دے کر نظرانداز کرتے رہے تو بالآخر خطرے کی گھنٹی بج گئی جب ایک پڑوسی، یونیورسٹی میں زیرتعلیم نوجوان، نے ان پر حملہ کردیا۔ اس نے ناصر خان جان پر تشدد کیا،جس سے ان کے سر پہ چوٹ آئی۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ثقافتی نقاد ڈاکٹر خادم حسین کہتے ہیںکہ غیرت کا یہ پہلو قندیل کے قتل کی وجہ بنا اور اب اسی وجہ سے ناصر خان جان کو دھمکیاں مل رہی ہیں، یہ کسی ایک قبیلے یا گائوں کا مسئلہ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ سماجی ڈھانچہ سماجی اداروں کے ملنے سے تشکیل پایا ہے اور یہ ’’سماجی ڈھانچہ‘‘ ہی صنف اور صنفی کردار ، شناخت اور راست بازی کا تعین کرتا ہے اور یہ متغیرات اجتماعی نوعیت کے ہیں۔ وہ لوگ جو سوال کرنے یا سماجی ڈھانچے کو چیلنج کرنے کی جرأت کرتے ہیں تو ان گروہوں یا افراد سے قطع تعلق کرکے، ان کی توہین کرکے، انہیں الگ کرکے اور پھر اختتام پر تنہائی کا شکار کرکے دھمکایا جاتا ہے۔‘‘
ناصر خان جان کا مشترکہ خاندان بھی ان کے جوش و جذبے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ وہ اپنے چار بھائیوں اورآٹھ بہنوں میں سب سے چھوٹے ہیں جن میں سے تین کی بیرونِ ملک شادی ہوئی ہے۔
ناصر خان جان کی والدہ کہتی ہیں:’’ وہ اس کے سماجی میڈیا میں فن کا اظہار کرنے پرہر وقت شکایت کناں رہتے ہیں۔ اس کے بہنوئی اس کی ویڈیوز پر لطیفے گھڑتے ہیںجس پر اس کی بہنیں اس پر شرمسار ہوتی ہیں۔‘‘
قندیل بلوچ کے بھائی نے انہیں اس لیے قتل کیا کیوں کہ ان کے خاندان اور علاقے کے لوگ اس کی بہن کی ویڈیوز پر اس کی لعنت ملامت کرتے اور اسے طیش دلاتے۔ قندیل بلوچ جس روز قتل ہوئی، کسی نے ناصرخان جان کے فیس بک صفحے پر ٹیلی ویژن کا نقلی صفحہ لگایا جس میں یہ بریکنگ نیوز دکھائی گئی تھی:’’ خان جان کو اس کی بہن نے غیرت کے نام پر قتل کردیا۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے والی ڈیجیٹیل حقوق کی کارکن نگہت داد نے سماجی میڈیا کے کارکنوں اور معروف شخصیات کو موصول ہونے والی دھمکیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحفظ کے لیے آن لائن حفاظتی اقدامات کرنا ضروری ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ اگرچہ ناصر خان جان خود کو ایک بے ضرر فن کار تصور کرتا ہے، لوگ کسی بھی وقت اس کی کسی بھی بات کا برا مان سکتے ہیں۔ سائبر کرائم بل میں بہت سے سقم موجود ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ناصر خان جان جیسے لوگوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے کیوں کہ آن لائن دھمکیاں دینا اب ایک جرم ہے۔‘‘
ناصر خان جان کہتے ہیںکہ ان کی طرح کے لوگوں، جنہوں نے سماجی میڈیا پر آزادانہ اظہار کرنے کی راہ منتخب کی ہے،کو ان کے پیشے یا خیالات کی وجہ سے ان کے رشتہ داروں نے بھی قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ پاکستان کے رجعت پسند دیہی معاشرے میں موسیقی، اداکاری، گلوکاری اور رقص قابلِ عزت پیشے تصور نہیں کیے جاتے۔
ان کے بڑے بھائی نے نیوز لینزسے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہمارے خاندان کا ناصر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ ان کے خاندان کے ارکان، جن میں ان کے بھائی اور دیگر رشتہ دار شامل ہیں، نے ان کی آن لائن ویڈیوز کے باعث ان سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔
ناصر خان جان نے کہا:’’ بہت سے رشتہ داروں نے مجھ سے قطعٔ تعلق کرلیا ہے۔ ان میں سے کچھ ناراض ہیں اور ان کی اس ناراضی کی وجہ لوگوں کے منفی تبصرے ہیں۔ میں کسی کی عزت نہیں ہوں بلکہ میں اپنی عزت خود ہوں۔‘‘
وہ قندیل بلوچ کے قتل کے بعد اپنے رشتہ داروں سے خوف زدہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں:’’ میں اپنے ہی خاندان سے خوف زدہ ہوں کیوں کہ قندیل بلوچ کو کسی اور نے نہیں، ان کے اپنے ہی بھائی نے قتل کیا۔‘‘