ڈیرہ اسماعیل خان: دسمبر ۲۰۰۹ میں آپریشن راہ نجات کے خاتمے پر نقل مکانی کرنے والے متاثرین جب جنوبی وزیرستان، اپنے گھروں کو لوٹے، انہیں دہشتگردوں کا تو نہیں البتہ ان کی بچھائی بارودی سرنگوں اور نصب شدہ بموں کا سامنہ ضرور ہے۔ علاقے میں موجود افواج اور مقامی انتظامیہ ان سرنگوں کو صاف کرنے میں مصروف ہے ۔ حالیہ برس جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں انہیں بارودی سرنگوں کے دھماکوں میں درجنوں افراد معذور ہوچکے ہیں۔
پشاور میں موجود آئی ایس پی آر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ تکنیکی مسئلہ ہے اس لئیے بتانا مشکل ہے کہ یہ بارودی سرنگیں کب تک مکمل طور پر صاف ہو سکیں گی البتہ رہائشیوں کو سکیورٹی اہلکار بتاتے رہتے کہ دھماکوں سے بچنے کے لئے کن علاقوں کا رخ نہ کریں۔
جنوبی وزیرستان کے علاقے میں تعینات سینیر سیکورٹی اہلکار نے (اس کا نام نہیں لکھ سکتے کیونکہ اس کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں) اس حوالے سے بتایا: “چونکہ علاقہ بہت زیادہ ہے اور پہاڑی ہے اس لئے اس کو مکمل طور پر بارودی سرنگوں سے صاف ہونے میں وقت درکار ہوگا، ہم واپس آنے والے تمام متاثرین کو اس بارے میں اگاہ کرتے ہیں کے گھروں سے زیادہ دور نہ جائیں اور کوئی بھی مشکوک چیز نظر آنے کی صورت میں ہمیں اطلاع دیں۔”
اہلکار نے مزید بتایا: “علاقے میں زیادہ بارشیں ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات یہ بارودی سرنگیں پانی کے ساتھ بہہ کر آ جاتی ہیں جس سے نقصان کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔‘‘
“سکول سے چھٹی کے روز میں قریبی پہاڑی سے بکریاں واپس لانے گیا،کہ اچانک میرے پائوں کے نیچے دھماکہ ہو گیا،اور پھر مجھے کوئی ہوش نہ رہا،” ۱۳ سالہ تاج محمد نے نیوز لینز پاکستان کو بتایا۔ پانچویں جماعت کا یہ طالب علم جنوبی وزیرستان کے علاقے کوٹ کئی کا رہائشی ہے جوکہ تحریک طالبان پاکستان کے سابق سربراہ حکیم اﷲ محسود کا بھی آبائی علاقہ ہے۔ تاج کو زخمی ہونے کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کے سول ہسپتال لایا گیا جہاں پر سرجری کے بعد اس کی متاثرہ ٹانگ کاٹ دی گئی ۔ “میں اب زندگی بھر کے لئے معذور ہو گیا ہوں مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس علاقے میں بارودی سرنگیں ہیں،کیونکہ اس علاقے کی کوئی واضح نشان دہی نہیں کی گئی تھی، تاج نے حکومت سے سرنگیں جلد ہٹانے اور مصنوعی ٹانگ لگوانے کی اپیل کی۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈییز {پکس} کی حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں مختلف نوعیت کے بارودی سرنگوں کے دھماکوں کی شدت ۲۰۰۹ سے ۲۰۱۴ کے درمیان بہت زیادہ رہی اس عرصے میں مجموعی طور پر ۴۲۶ دھماکوں میں ۷۱۸ افراد جاں بحق ہوئے اسی طرح ۲۰۱۵ میں ۲۶۸ بم دھماکوں میں ۲۶۸ افراد جاں بحق ہوئے جبکہ حالیہ سال اب تک بارود ی سرنگوں کے ۵۳ بم دھماکوں نے ۶۱ افراد کی جانیں لی ہیں۔
ایک غیر سرکاری ادارے لینڈ مائن اینڈ کلسٹر میونیشن مانیٹر کے مطابق لینڈ مائینز پاکستان کے قبائلی علاقوں میں خاندانی دشمنی کے دوران بھی استعمال کی جاتی ہے۔ نومبر ۲۰۰۴ میں پاکستانی افواج نے جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کے ایک بم بنانے والی فیکٹری پر چھاپے کے دوران ۳۴۰ بارودی سرنگیں قبضے میں لی تھی جو کہ دہشت گردی کے لئے استعمال ہونا تھی۔ ادارے کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اس قسم کے واقعات کے کوئی خاص اعداد و شمار موجود نہیں کیونکہ علاقے تک رسائی مشکل ہے اکثر میڈیا رپورٹس کا سہارا لیا جاتا ہے جبکہ بیشتر واقعات رپورٹ بھی نہیں ہوتے۔تاہم موجودہ اعداد شمار کی نسبت باوردی سرنگوں میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔
حالیہ بم دھماکے میں معذور ہونے والے تاج محمد کے والد طارق خان محسود جو کہ ایک ڈرائیور ہیں نے نیوز لینز کو بتایا کے’’جب میرا بیٹا دھماکے میں زخمی ہوا تو اپنی مدد اپ کے تحت ہم نے اس کو وہاں سے نکالا،جنڈولہ ہسپتال منتقل کیا ابتدا ئی طبی امداد کے بعد ۴۵۰۰روپے کرایہ پر سرکاری ایمبولینس میں اس کو ڈیرہ اسماعیل خان ہسپتال منتقل کیا۔‘‘
اسں نے مزید بتایا کہ اس کا بیٹا تو معذور ہو گیا اب وہ صرف حکومت کی منت ہی کر سکتے ہیں کہ وہ علاقے کو صاف کرے۔ “پچھلے کچھ عرصے میں میرے علاقے میں چار سے پانچ لوگ بارودی سرنگوں سے معذور ہو چکے ہیں جبکہ پالتو جانور تو ہزاروں کی تعداد میں ہلاک ہو چکے ہیں۔حکومت پولیو کی طرح اس مسئلے پر بھی توجہ دے۔”
ایجنسی ایجوکیشن آفیسر جنوبی وزیرستان خلیل الرحمان کا نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا: “ہم نے گورنمنٹ سکولوں میں اساتذہ کو ہدایات دی ہیں کہ وہ طلباء میں اس حوالے سے شعور اجاگر کریں کہ کسی مشکوک چیز نظر آنے کی صورت میں مقامی انتظامیہ کو آگاہ کریں اور کس بھی لاوارث چیز کے نزدیک نہ جائیں۔”
جنوبی وزیرستان کے پولٹیکل ایجنٹ ظفر السلام نے اس حوالے سے نیوز لینزپاکستان کو بتایا: “جس علاقے میں متاثرین کی واپسی ہوتی ہے پہلے بم ڈسپوزل سکواڈ کا عملہ علاقے کی سویپنگ کرتا ہے اس کے بعد علاقہ کھول دیا جاتا ہے اور اس سلسلہ میں پاک فوج ان کی مدد کر رہی ہے۔”
سول ہسپتال ڈیرہ اسماعیل خان میں تعینات ایک ڈاکٹر نے نام نہ بتانے کی شرط پر نیوز لینز کو بتایا: (کیونکہ اس مسئلے کو فوج دیکھ رہی ہے) “اس سال اب تک جنوبی وزیرستان سے سولہ زخمی ہمارے پاس لائے گئے۔ تمام تر ہاتھ یا پائوں سے معذور ہو چکے تھے۔ ان میں زیادہ تر تعدا د نوجوا نو ں اور بچوں کی تھی جوکہ زیر زمین دفن بارودی مواد کا شکار ہوئے تھے۔ وزیرستان میں اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے زخمیوں کو یہاں لایا جاتا ہے۔”
اس نے مزید بتایا: “ڈیرہ اسماعیل کے سول ہسپتال میں معذور افراد کو مصنوعی اعضا ء لگانے کا کوئی شعبہ موجود نہیں۔ بیشتر افراد مصنوعی ہاتھ یا پائوں لگانے کا تقاضہ کرتے ہیں اور ہمیں مجبورآً انہیں پشاور یا ملتان کے معذور افراد کے مراکز بھیج دیتے ہیں”۔