پشاور (سلمان یوسف زئی سے) صوبائی دارالحکومت پشاور کوسی سی ٹی وی کیمرے نصب کرکے محفوظ بنانے کا پرجوش منصوبہ تعطل کا شکار ہوچکا ہے اور 2013ء کے بعد سے اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جب صوبائی حکام نے اس منصوبے کو عملی پہنانے کے لیے کام شروع کیا تھا۔
انسپکٹر جنرل پولیس خیبرپختونخوا ناصر درانی کے مطابق شہر کو محفوظ بنانے کے اس منصوبے کے تحت سڑکوں اور تنصیبات کی نگرانی کے لیے دو ہزار کیمرے نصب کیے جانے تھے۔ ان کیمروں کو پانچ سو کلومیٹر طویل فائبر آپٹک کیبل کے ذریعے ایک بم پروف کمانڈ سنٹر سے منسلک کرکے فار جی نیٹ ورک سے آپریٹ کیا جانا تھا۔ اس منصوبے کے تحت پولیس کو وہیکل مینجمنٹ اور چہروں کی شناخت کے لیے کمپیوٹر سے منسلک ڈسپیچ سسٹم اور خصوصی سافٹ ویئربھی فراہم کیا جانا تھا۔
خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ ناصر درانی کہتے ہیں:’’ مؤثر پولیسنگ کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ سی سی ٹی وی کیمرے اور دیگر جدید آلات جیسا کہ جیمرز، دھماکہ خیز مواد کی شناخت کرنے والے ڈیٹیکٹر اور سکینرزکے باعث قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کے لیے مجرمانہ سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور ان کی تفتیش کرنا آسان ہوجاتا ہے۔‘‘
نیوز لینز پاکستان کو حاصل ہونے والی دستاویز کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس منصوبے پر کام شروع کیا تھا جسے صوبائی حکومت کی معاونت حاصل تھی جب کہ محکمۂ داخلہ و قبائلی امور اس کو عملی جامہ پہنانے کا ذمہ دارتھا۔
حکومت نے 2013-14ء کے بجٹ میں اس منصوبے کے لیے ڈیڑھ ارب روپے مختص کیے تھے ۔ 15جنوری 2014ء کو ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ منصوبے کے عملے کے لیے ضابطۂ عمل تشکیل دینے اور دیگر امور پر دو فروری 2015ء تک کام جاری رہا۔
نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے اس منصوبے کے جائزے کے بعد، جس نے سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب میں مدد کرنا تھی، منصوبے کے اخراجات ڈیڑھ ارب روپے سے بڑھ کر 12.85ارب روپے ہوگئے۔
یہ دستاویز ایک افسر سے حاصل کی گئی ہے جنہوں نے نام ظاہر نہیں کیا کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کے حوالے سے آخری میٹنگ 15ستمبر 2015ء کو ہوئی تھی جس کے بعد سے اس منصوبے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (آپریشنز) عباس مجید مروت نے کہا:’’ ٹریفک پولیس کی جانب سے 128کیمرے نصب کیے گئے ہیں جن میں سے 82کام کررہے ہیں جب کہ باقی بند پڑے ہیں۔‘‘انہوں نے کہا کہ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹوریٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ یقین دہانی کرے کہ یہ کیمرے چل رہے ہیں یا نہیں۔
جب محکمۂ پولیس کی جانب سے نصب کیے گئے کیمروں کے نہ چلنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آئی جی ناصر درانی نے کہا کہ یہ کیمرے معمول کے بجٹ سے نہیں خریدے گئے تھے۔ انہوں نے کہا:’’ یہ کیمرے غیر معیاری تھے اور ان کی مناسب دیکھ بھال کی ضرورت تھی لیکن جب ایسا نہیں ہوا تو یہ خراب ہوگئے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ کیمروں کی مرمت منصوبے کے کنٹریکٹ کا حصہ ہونا چاہئے۔
ناصر درانی نے کہا کہ لندن بھر میں 42لاکھ کیمرے نصب کیے گئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک کیمرے سے 14لوگوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں میںپرائیویٹ سکیورٹی فرمز کی جانب سے نصب کیے گئے سی سی ٹی وی کیمرے بھی مرکزی کنٹرول روم سے آپریٹ کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا:’’کم از کم چھ کیمرے کسی بھی دفتر میں داخل ہونے یا باہر نکلنے والے شخص کی نگرانی کررہے ہوتے ہیں۔‘‘
محکمۂ داخلہ و قبائلی امور سے منسلک ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ چیف سیکرٹری کو اس منصوبے پر کچھ تحفظات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تاہم یہ منصوبہ محکمۂ منصوبہ بندی و ترقی کے حوالے کیا جاچکا ہے جو اسے ازسرِنو لانچ کرنے کے لیے تیاری کررہا ہے۔
پولیس لائنز پشاور کے شعبۂ آئی ٹی سے منسلک ایک سینئر افسر،جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا کہ پشاور کو محفوظ بنانے کے منصوبے کے تحت کیمروں کو انٹرنیٹ سے منسلک کیا جائے گا تاکہ افسر اپنے فونز اور کمپیوٹرز پر تصاویر مانیٹر کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں نجی اداروں کی جانب سے نصب کیے گئے کیمرے کئی مقدمات میں محکمۂ پولیس کے لیے مددگار ثابت ہوچکے ہیں۔
مذکورہ افسر نے مزید کہا کہ لوگوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے تمام اہم مقامات پر کیمرے نصب کیے جائیں گے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں فوری کارروائی کی جائے گی۔
ان کیمروں کو یو پی ایس سے منسلک کیا جائے گا تاکہ بجلی کی بندش کی صورت میں بھی یہ کام کرتے رہیں۔
ان کیمروں کو جدید ترین آپریٹنگ روم سے مانیٹر کیا جائے گا۔ مذکورہ افسر کے مطابق یہ کیمرے عوامی مقامات، پرہجوم تجارتی مراکزاور حساس مقامات پر نصب کیے جائیں گے۔
دریں اثنا منصوبے میں تاخیر کے باعث پولیس حکام نے تجارتی تنظیموں سے کہا ہے کہ وہ پولیس کی مدد کے لیے اپنے خرچے پر کیمرے نصب کریں۔