پشاور ( رحمت محسود سے) زامونگ کور یا ہمارا گھر منصوبے کی فوکل پرسن نے کہا ہے کہ عمران خان کی قیادت میں تحریکِ انصاف کی حکومت نے خیبرپختونخوامیں ان بچوں کے لیے ایک بڑا منصوبہ شروع کیا ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران یتیم ہوگئے ہیں یا پھر بے گھر ہیں۔
Zamoong-Kor-or-Our-Homeخیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی کی رُکن اور زامونگ کور منصوبے کی فوکل پرسن بیگم معراج ہمایوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے گزشتہ برس نومبر میں بچوں کے عالمی دن کے موقع پرزامونگ کور سکیم کا افتتاح کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان بھی افتتاحی تقریب میں موجود تھے۔
بیگم معراج ہمایوں کا مزید کہنا تھا کہ یہ منصوبہ 11رہائشی بلاکوں اور 216فلیٹوں پر مشتمل ہے جو پشاور شہر کے نواح میں قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کا مقصد بے گھر اور یتیم بچوں کی بحالی ہے۔
بیگم معراج ہمایوں نے منصوبے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس پر 447ملین روپے کے اخراجات ہوئے ہیں جس میں ایک ہزار بچے رہائش اختیار کرسکیں گے۔ ان کا کہنا تھا:’’ہمارا گھر سنٹر میں بچوں کو تفریحی اور کھیلوں کی سرگرمیوں کے علاوہ خوراک، تعلیم، صحت اور نفسیاتی تربیت فراہم کی جائے گی۔‘‘
بیگم معراج ہمایوں نے مزید انکشاف کیاکہ اس منصوبے کے لیے تمام تر فنڈنگ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی جانب سے فراہم کی گئی ہے ۔ کرکٹ اکیڈمی، آڈیٹوریم اور کھیلوں کے میدان کی تعمیر کے لیے مزید 12ایکڑ اراضی حاصل کی جائے گی۔
انہوں نے امید ظاہر کی:’’ زامونگ کور کی صورت میں یکساں مواقع فراہم کرنے سے یہ بچے طویل المدتی تناظر میں ملک کے لیے ایک اثاثہ ثا بت ہوں گے۔‘‘
لیکن پیپلز پارٹی کے رُکنِ صوبائی اسمبلی اور اپوزیشن لیڈر فخر اعظم وزیر کہتے ہیں:’’ اگر اس منصوبے پراس کی روح کے مطابق عمل کیا جاتا ہے تو ہم اس مثبت اور عوامی فلاح کے منصوبے کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘
انہوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے بہت زیادہ وعدے کیے تھے جن پر وہ اب تک عمل نہیں کرسکی۔ ان کا مزید کہنا تھا:’’ خیبرپختونخوا میں حکومت قائم کرنے کے فوراً بعد پی ٹی آئی کے سربراہ نے ’تعلیم سب کے لیے‘ کا نعرہ بلند کیا تھا لیکن زمینی حقائق ایک یکسر مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔‘‘
فخر اعظم وزیر نے الزام عاید کیا:’’ پی ٹی آئی حکومت کی نااہلی کے باعث صوبے کے دوردراز علاقوں میں قائم سکولوں میں تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا ہے ۔‘‘
بیگم معراج ہمایوں کا کہنا تھا کہ صوبے کے نوجوانوں کے لیے ایسے مزید منصوبوں پر غور کیا جارہا ہے لیکن انہوں نے ان منصوبوں کے بارے میں تفصیل فراہم نہیں کی۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ تمام یتیم بچے اپنے حقوق یکساں طور پر حاصل کریں گے۔
بیگم معراج ہمایوں نے مزید کہا:’’ ہم ان بچوں کی اس طرح ہی پرورش کرنا چاہتے ہیں جس طر ح اپنے بچوں کی کرتے ہیں۔ہم بے گھر اور یتیم بچوں کو 18برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے باصلاحیت افرادی قوت میں تبدیل کرنے کے حوالے سے ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے ایک ہینڈ آئوٹ میں کچھ یوں بیان دیا کہ اس مرکز میں پرورش پانے والے بچوں کو ’’سٹریٹ چلڈرن‘‘ کی بجائے ’’ ریاست کے مہمان بچوں‘‘ کے طور پر مخاطب جائے گا۔
بیگم معراج ہمایوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ بچوں کے اس مرکز کو ایک مثالی سنٹر میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ منصوبہ ملک کے دیگر اضلاع میں بھی شروع کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سنٹر میں شاندار ڈائننگ اور کلاس روم قائم ہیں۔ اس وقت مجموعی طور پر 29یتیم بچے زامونگ کور میں رہ رہے ہیں۔
بیگم معراج ہمایوں کا مزید کہنا تھاکہ کچھ یتیم یا بے سہارا بچے ذہنی طور پر معذور ہیں، ان کی بحالی ایک طویل عمل ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اس حوالے سے پہلے ہی منصوبہ تشکیل دے چکی ہے۔
یونیسیف اور امریکہ کی جانب سے عالمی سطح پر مرتب کیے گئے اندازوں کے مطابق17.8ملین بچے اپنے باپ اور ماں دونوں کی شفقت سے محروم ہوچکے ہیں اورایسے بچوں کی تعداد 153ملین ہے جو دونوں والدین یاپھر ان میں سے ایک کے سایے سے محروم ہوچکے ہیں۔
 پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امن اور ترقی کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فاٹا ریسرچ سنٹر کی جانب سے مرتب کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے محکمۂ تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق عسکریت پسندوں نے صوبے کے مختلف مقامات پر تقریباً ایک ہزار سکولوں کو تباہ کیا ہے۔
محکمۂ ویلفیئر سے منسلک ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر کہا کہ یتیم اور بے سہارا بچوں کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق صوبے بھر میں یتیم و بے سہارا بچوں کی مجموعی تعداد 25ہزار ہے۔
اس منصوبے کی فوکل پرسن نے مزید کہا:’’ موجودہ حالات کے تناظر میں سنٹر کی سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے اس کی بیرونی دیواروں کو مزید بلند کر دیا گیا ہے۔‘‘
پشاور میں بے گھر بچوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جس کی سرحد تشدد سے متاثرہ قبائلی علاقوں سے ملتی ہے جہاں کے بچوں کی اکثریت ایک دہائی سے زائد عرصہ سے جاری جنگ میں اپنے والدین سے محروم ہوچکی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا اور فاٹا سے تقریباً پانچ ملین افراد نے فوجی کارروائیوں کے باعث اپنے گھر بار کو چھوڑا ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت 1.66ملین افراد ( تقریباً دو لاکھ 70ہزار خاندان) عارضی طورپر نقل مکانی کرکے خیبر پختونخوا میں آباد ہوچکے ہیں۔
صوبائی حکومت کی ایک اعلیٰ افسر نے ، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، کہا کہ حکومت نے بے گھر بچوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوتے دیکھا ہے جو اکثر و بیش تر منشیات کے عادی افراد یا پھر دہشت گردی کے نیٹ ورکس کا حصہ بن جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ قبل ازیں صرف بے گھر بچوں کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا تھالیکن اب صوبائی حکومت نے قبائلی علاقوں کے ان بچوں کی بحالی کا منصوبہ بھی تشکیل دیا ہے جو صوبے میں جاری تشدد میں اپنے والدین سے محروم ہوگئے ہیں۔
فخر اعظم وزیر ے کہا کہ گلیوں میں بھیک مانگتے بے گھر بچوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ عام لوگوں اور حکومت کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
نیوز لینز پاکستان نے سنٹر کے اردگرد سخت سکیورٹی کا مشاہدہ کیا تاہم ایک بے سہارا بچے اسماعیل جان سے بات ہو گئی جنہوں نے مختصر مگر جامع انداز سے بات کی ‘ انہوں نے بیتے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا:’’ میں 2004ء میں اپنے والد کی فطری موت کے بعد پیدا ہوا۔ مجھے اپنی دو چھوٹی بہنوں کی پرورش کرنا تھی لیکن کوئی کام کاج نہ ملنے کے باعث گلیوں میں بھیک مانگنا شروع کردی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ان کی والدہ اور چھوٹی بہنیں ایک مقامی جاگیردار کے گھر پہ کام کرتی ہیں جس سے ان کی معقول آمدن ہوجاتی ہے۔اسماعیل جان نے مزید کہا:’’لیکن میں یہاں پر خوش ہوں ،مجھے تین وقت کھانا، تعلیم اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلے کا موقع ملتا ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here