صحافت میں کام کادبائو نفسیاتی الجھن کا سبب

0
1082

رپورٹ : (عرفان اطہر منگی) پاکستان میں کم تنخواہوں، نامکمل سہولیات، تربیت کے فقدان اور پھر خبر دینے کے بعد ملنے والی دھمکیوں اور دباو کی وجہ سے پاکستان میں صحافت کرنا آسان نہیں ۔اس میں دلخراش واقعات ، مشکل وقت سہنے  اورسختیاں جھیلنے کا جذبہ ہونا چاہیے، دوسری صورت میں صحافت سے وابستہ افراد ذہنی الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں  اور بدقسمتی سے انہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں کے مسائل بیان کرتے کرتے خود مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ماہرین صحت کہتے ہیں کہ صحافی  نامساعد حالات کی وجہ سے ذہنی الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ صحافیوں کو اپنی ذہنی صحت کے حوالے سے خود آگاہ ہونا بہت ضروری ہے، ان کی اپنی ذہنی صحت سے لاعلمی ہی انہیں گزرتے وقت کے ساتھ پیچیدہ بیماریوں کا شکار بنا رہی ہے۔

کام کے دبائو اور کام کی وجہ سے ملنے والی دھمکیوں سے ڈپریشن میں مبتلا ہونے والے بول ٹی وی کے ڈپٹی بیورو چیف عاصم فاروق بھٹی بتاتے ہیں کہ ”  مجھے بچپن سے ہی میڈیا میں کام کرنے کا شوق تھا ۔ پھر قسمت نے ایک دن ساتھ دیا ۔اور میں ایک نجی ٹی وی چینل میں بطور کیمرہ مین کام شروع کردیا۔ میں کافی عرصہ تک کیمرہ مین کی فیلڈ کے ساتھ منسلک رہا ۔ میں مختلف ایونٹس کورکرتا رہا کام چلتا رہا لیکن تسکین نہیں ہو پاررہی تھی اندر سے ہمیشہ کچھ نہ مکمل  کی آواز آرہی تھی۔ پھر میں نے کسی دوست سے ذکر کیا کہ یار میں رپورٹر بننا چاہتاہوں ۔ اس نے کہا کہ آپ تو صرف گریجویٹ ہو اس کے لیے جنرل ازم میں ایم -اے ہونا لازمی ہوتا وہ کرناپڑے گا ۔ پھر میں نے ایم- اے جنرل ازم میں داخلہ لے لیا ساتھ کیمرہ مین کاکام کرتا رہا اور پڑھتا رہا ۔ پھر ایک دن میں نے ایم -اے جنرل ازم کرکے باقاعدہ طورپر رپورٹنگ کا آغاز کردیا ۔  جیو ٹی وی سمیت تمام بڑے اداروں کے لیے رپورٹنگ کرتا رہا۔ان دنوں میں بول ٹی وی میں ڈپٹی بیورو چیف ہوں۔نیوز کا کام مکمل پریشر کا ہوتا ہے۔  اعصاب مضبوط ہونا ، پر اعتماد ہونا اور تمام مشکلات حالات میں کام کرنےلیے ہروقت تیار رہنا چاہیے۔میں یہ تمام پریشر برداشت کرتارہا لیکن کام  کی ذیادتی ، بےاحتیاطی کہیں یا کچھ اور اپنے لیے وقت نہ نکالنے کے باعث مجھے پچھلے دنوں ہارٹ اٹیک ہوا ۔اب آہستہ آہستہ ریکور کررہاہوں”۔

صرف بول ٹی وی کے ڈپٹی بیورو چیف عاصم فاروق بھٹی ہی نہیں اس جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں۔ اس سے قبل ہم نیوز کے ڈائریکٹر نیوز ریحان احمد کو ہارٹ اٹیک ہوا،  اے بی این کے ڈائریکٹرنیوز محسن نواز کو ہارٹ اٹیک ہوا ، ایگزیکٹو پروڈیوسر اے آروائے عامر شیخ کو بھی ہارٹ اٹیک ہوا تھا اس کے علاوہ نیوز روم میں کام کرنے والے افراد  شوگر ، ہائی بلڈ پریشر کے خبریں آئے روز منظر عام پر آتی ہیں۔

سینئرصحافی سید سبط حسان رضوی کہتےہیں کہ” سب سے ذیادہ دبائو ہمیں اس بات کا رہتا ہےکہ کوئی خبر ہم سے مس نہ ہوجائے۔ جب آپ الیکٹرونک میڈیا کی بات کرتےہیں تو بریکنگ کی ایک دوڑ ہے۔ جس میں سب آگے بھاگنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔لازمی سی بات ہے آپ کے ادارے کی جانب سے بھی دبائو ہوتا ہےکہ آپ نے پہلے خبر دینی ہے۔اس کا پریشر ذہنی طور پر بھی جسمانی طورپر بھی آپ کو تھکا دیتاہےچڑ چڑا پن ویسے ہی طبعیت میں آجاتاہے۔جب آپ دفتر میں بھی ہوتےہیں ایک خبر پر کام  کررہے ہوتے ہیں  ابھی وہ مکمل ہی نہیں ہوا ہوتا ہے تو دوسری خبر بریک ہوگئی ہوتی ہے جو کنفرم کرکے دینی ہوتی ہے۔ ساتھ میں کوئی آواز دیتاہے وائس اوور پیکج کا بھی کردینا مطلب کام کے اوپر کام دیا جاتاہے اور یہ سلسلہ جب تک دفتر میں ہو تب تک البتہ  گھر پہنچو پھر بھی جاری رہتاہے۔ہمارے ملک  میں صحافیوں کو شدید ذہنی دبائو اور نفسیاتی مسائل سے بچنے کےلے سائیکوتھراپسٹ کا فقدان ہے اور اس جانب حکومت اور صحافتی تنظمیں توجہ دے رہی ہیں”۔

ڈاکٹر عائشہ بدر جوکہ کلینکل سائیکالوجسٹ اور ٹرینر ہیں انہوں نے سی اےجے میں صحافیوں کو کائونسلنگ کے سیشن کرواتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ” اپنے کام کے دبائو کی وجہ سے صحافیوں کو علم ہی نہیں ہوتاہے کہ انکو اپنی ذہنی صحت کی وجہ سے جسمانی امراض ہونے لگتے ہیں ہیں جن میں چڑ چڑا پن ، غصہ آنا ، ناامید ہونا ، مائیگرین ، کمردرد، تیزابیت اور اضطراب اپنے کام کو ٹھیک طرح سے نہ کرپاناشامل ہے”۔

 

اسی حوالے سے سینئر تجزیہ کار اویس توحید کہتےہیں کہ “جو سب سے ذیادہ پرابلم ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے میڈیا کا جو ماڈل ہے وہ اسٹیٹ آن میڈیا سے تبدیل  ہو کر سیٹھ میڈیا مالکان میں ہوا  اور کورپوریٹ سیکٹر کے اشارے پر چلتے ہیں۔ اور  ذیادہ تر  میڈیا اداروں کا ظہور سیاسی بنیادوں پر ہوتاہے”۔

اس لیے دھڑا دھڑ چینل کوئی گھی والا کوئی سگریٹ والا کوئی  سونے والوں کے اشتہار حاصل کرنے کے شکروں میں صحافتی اقدار کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اس کے اندر سب سے بڑی پرابلم یہ ہے کہ دور دراز علاقے جن میں  خیبرپختونخواہ یا ہمارے سابق قبائلی علاقے، بلوچستان صوبےاور سندھ کے اندرون علاقوں میں وہاں کے جتنے رپورٹر ہیں، ان کو  کوئی پرمنٹ ایمپلائی منٹ نہیں دی جاتی۔ اس کا مطلب آپ نے انکی تنخواہ اور ان کی سیکیورٹی کو ان کی گود میں رکھ دی۔ جب وہ جان سے جاتے تھے پھر آپ بریکنگ نیوزنشر کرنا شروع کردیتے تھے۔ یہ بہت افسوسناک بات ہے۔ نہ آپ کو پیسے دیتےہیں ذیادہ تر وہ لوگ جن کو او ایس آر کہا جاتاہےیعنی آئوٹ ڈور  اسٹیشن رپورٹر یا پھر اسٹنگر انکو کوئی کنٹریکٹ  بھی نہیں دیتے تھے۔جب انکو ہراسمٹ ہوتی تھی انکو دھمکیاں براہ راست دی جاتی ہیں۔ پھر مختلف لوگوں سے رابطہ کیا جاتاہے جن میں مشہور جنرلسٹ شامل ہوتے ہیں۔اس میں ذیادہ تر این جی اوز یا فلاحی ادارے ہیں جو سیفٹی اور سیکیورٹی کے نام پر بڑے بڑے سیمنیارز کراتے ہیں انہوں نے اب تک صحافیوں کو ایسا شلٹر فراہم نہیں کیا جہاں انکو باقاعدہ ریلیف مہیا ہوسکیں تو صحافی نفسیاتی الجھن کا ہی شکار ہوگا”۔

وائس آف امریکہ کےلیے کراچی میں کام کرنےوالی جنرلسٹ سدرہ ڈار کہتی ہیں کہ  “سیفٹی جنرل ازم میں صرف آپ کی جسمانی اور ذہنی تربیت نہیں ہوتی بلکہ اس میں آپ کو یہ بھی بتایا جاتاہے آپ نے فیصلہ کیسے لینا آپ جس جگہ پر کھڑے ہے وہاں پر آپ کا کردار کیا ہونا چاہیے آپ کوکیا کرناہے اور کیا نہیں کرناہے۔اگر آپ کسی خطرے میں موجود ہےتو اسے کیسے کور کرے گے۔ بہت سے لوگ ا س بات کو نہیں جانتے۔پشاور پاکستان کا وہ شہر ہےجو دہشت گردی سے سب سے ذیادہ متاثر ہوا ہے وہاں کے صحافی ذہنی الجھنوں کا شکاررہے ہیں انکے لیے دوہزار پندرہ میں کمپیٹنس اینڈ ٹراما سینٹر فار جنرلسٹ کا اہتمام کیاگیاتھا اسے پروگرام میں  رویوں پر کام کیا جاتا تھا کہ وہ غصے اور دباؤ سے کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں اور ایسی صورت میں ان کا ردعمل کیا ہونا چاہیے۔ایسے پروگرام کا انعقاد دفاتر اور پریس کلب میں ہوتے رہنا چاہیے”۔

ماہرین صحت کے مطابق نفسیاتی الجھن سے نکلنے کے لیے عام علاج یہ بھی ہے کہ سوچ کے نمونوں اور رویے پر کام کرنے کے لیے علمی رویے کی تھراپی، معاونت اور افہام و تفہیم پیدا کرنے میں مدد کے لیے فیملی تھراپی، گروپ تھراپی، انفرادی تھراپی، ماضی کے مسائل اور موجودہ خیالات اور طرز عمل سے ان کے تعلق کو دریافت کرنے اور سمجھنے کے لیے سائیکوڈینامک تھراپی، سپورٹ گروپس اور ٹاک تھراپی شامل ہیں۔

 

کائونسلنگ تھراپی کی ضرورت

شعبہ صحافت سے منسلک افراد کو ذہنی دبائو سے نکالنے کےلیے کائونسلنگ سروس میسر نہیں ۔صحافی دبائو کے تحت کام کرتے ہیں اور اور جو وہ محسوس کرتے ہیں اس کا اظہار نہیں کرپاتے۔

اس کے علاوہ آئےروز اداروں میں ڈائون سائزنگ ، تنخواہوں میں کٹوتی، تنخواہ لیٹ ملنا، یہ وہ عوامل ہے جو انکے ذہن پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں

2018 سے 2020 تک، CEJ Wellbeing Center کے ماہرین نفسیات نے 600 مشاورتی گھنٹے فراہم کیےصرف کراچی سے کل 90 صحافی اور میڈیا ورکرزنے حصہ لیا ۔ اس گراف کے تحت ایک مشاورتی سیشن میں  21 صحافی شامل ہوئے۔ ایک مشاورتی سیشن ایک گھنٹے پر محیط تھا۔ اس میں ذیادہ تر صحافیوں کی خواہش تھی کہ وہ دو سے سات سیشن میں شریک ہوں اس میں بہت کم تعداد ہے ان صحافیوں کی جو 10 سیشن میں آسکیں۔ان سیشنز میں  ایک صحافی کے ساتھ تقریبا 46 گھنٹے کی تھراپی سیشن  کی تھراپی کی گئی اور امراض کو جانچنے کےلیے کم کم ازکم ایک سیشن کا لینالازمی قرار دیا گیا۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی جنہوں نے ان سیشنز میں حصہ لیا ان کی عمر 21 سے 30 سال تھی۔

 

سی ای جے کے تھراپی سیشنز میں حصہ لینے والے صحافیوں میں 45 فی صد گھبراہٹ اور بے چینی ، 22 فی صد ذہنی دباؤ ، 14 فی صد اعتماد میں کمی، 13 فی صد اسٹریس، چھ فی صد غصہ اور باقی 22 فی صد دیگر پریشانیوں اور مسائل کا شکار تھے۔

 

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سی ای جے کی جانب سے فراہم کی گئی تھراپی انتہائی محدود صحافیوں کو فراہم کی گئی جب کہ صوبائی دارالحکومت کراچی میں اندازہ 8 ہزار کے قریب میڈیا ورکرز موجود ہیں، جن میں سے کراچی پریس کلب کے ارکان کی تعداد بھی 1800 تک ہے اور اتنی بڑی میڈیا ورکرز کی تعداد کو ایسی سہولیات فراہم کرنا کسی ایک ادارے کے بس کی بات نہیں

 

صحافیوں کو درپیش ذہنی مسائل کے حوالے سے کراچی کے معروف ماہر نفسیات ڈاکٹرخان آفریدی کہتےہیں کہ” صحافی اپنی پرسنل لائف اور پروفیشنل  لائف میں فرق رکھیں، مثال کے طور پر میں خود ماہر نفسیات ہوں لوگ بہت سارے مسائل  ہمارے پاس لیکر آتے ہیں ۔میں سب سے پہلے اپنے آپ کو بتاتا ہوں یہ مسئلہ میرے کلائٹ کا ہے میرا نہیں  ہے۔ صحافی اگررپورٹ کررہاہےاور معاشرے کے ساتھ بہت سے مسائل ہیں تو وہ یہ بات ذہن میں رکے کہ یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ کسی اور کا مسئلہ  ہے حکومت کا مسئلہ ہے آپ نے اسکو ذاتی نہیں بنانا ۔جب آپ اپنے گھر جائیں آپ اپنی شریک حیات کے ساتھ بچوں کے ساتھ  ملک کے حالات پر بات چیت نہ کریں اچھے موڈ میں  اور نارمل رہیں گھر کو دیکھیں خوش رہیں۔

ان کا مذید کہنا ہے کہذاتی زندگی اور پروفیشنل لائف میں فرق کریں ہوٹلوں پر بھی دوستوں کےساتھ اپنی بات کریں  پاکستان میں ہر پانچواں شخص کسی نہ کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہے۔ خود کو وقت دیں ریلکس رہیں خوش رہیں اور یہی وہ سب سے آسان طریقے ہیں جن کو اپنا کر ڈپریشن سے بچا جا سکتا ہے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here