دسمبر 2014 میں جب آرمی پبلک سکول کے بچوں کو سفاک درندوں نے دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور میری قوم نے ایک ہی دن بچوں اور اساتذہ سمیت 145 لاشے اٹھائے تھے۔ یہ وہ وقت تھے جب کھلے عام سکولوں پر حملوں کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ قابل دید تھے وہ دن کہ میری قوم کی ماوں نے ان دنوں بھی اپنے جان سے زیادہ عزیز بچوں کو سکول بھیجا۔ہر ماں سکول بھیجتے وقت اپنے بچے کا ماتھا چومتی تھی کہ کیا پتہ حالات یکسر نہ رہیں۔ یقینا تعلیم کے لیے پاکستان کے شہریوں کا شعور اور جذبہ ان دنوں قابل دید تھا۔ یہ وہ دن تھے جب ہر طرف خوف و ہراس تھا پورے پاکستان میں نیشل ایکشن پلان کے تحت سکولوں کی چاردیواری 8 فٹ اونچی کرنے اور سکیورٹی اصلاحات پر زور دیا جا رہا تھا۔ تب ضلع لیہ کی عوام نے معروف کاروباری شہر چوک اعظم میں موجود گورنمنٹ گرلز سکول و کالج کے سکیورٹی حالات پر خدشات کا اظہار کیا تھا.
چوک اعظم میں گورنمنٹ گرلز ہائی سکول، گرلز کالج اور بوائز ہائی سکول ایک ہی جگہ پر واقع ہیں ان تینوں اداروں میں لگ بھگ 6 ہزار طالبعلم روز اکٹھے ہوتے ہیں۔ گورنمنٹ گرلز کالج اور سکول کے طرف جانے والے دونوں راستے صرف اتنے کشادہ ہیں کہ ایک رکشہ بمشکل گزر سکتا ہے۔ سکیورٹی حالات خراب ہونے پر مقامی سماجی رہنما سردار اظہر خان کھتران نے انتظامیہ کی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کروائی کہ خدانخواستہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں ہم بچیوں کی کثیر تعداد کو سکول کی بلڈنگ سےکیسے باہر نکال سکتے ہیں کیوں کہ نہ تو وہاں آسانی سے ایمبولنسز پہنچ سکیں گی اور نہ ہی فائر برگیڈ۔ ایسے حالات میں ہم بری طرح پھنس جائیں گے اور زیادہ نقصان کا خدشہ ہے۔ متبادل راستہ بنانے کے لیے سرکاری جگہ موجود نہ تھی تو انہوں نے اپنے ایک قریبی دوست مہر حبیب اللہ ڈلو سے جگہ بطور عطیہ مانگی تاکہ شہر کی بیٹیوں کے لیے آسانیاں پیدا کی جا سکیں۔ اس وقت کے ڈپٹی کمیشنر رانا گلزار جوکہ بعد میں کمیشنر ڈیرہ غازی خان بھی رہے نے اے ڈی سی میڈم لبنی نذیر جوکہ آج کل ڈپٹی سیکرٹری ایجوکیشن لاہور ہیں کو موقع ملاحظہ کرنے کے لیے بھیجا۔ سب ممبران اسمبلی اور اعلی حکام رضا مند تھے کہ بچیوں کی آمدورفت کے لیے متبادل راستہ بننا چاہیے لیکن مقامی مضبوط سیاست دان چوہدری بشارت علی رندھاوا جوکہ آج کل لیہ میں پاکستان تحریک انصاف کے ضلعی صدر ہیں نے اس پروجیکٹ کی مخالفت کی جس کی وجہ سے راستہ فوری نہ کھل سکا۔ اس کے بعد سید واجد علی شاہ، رفاقت علی نسوانہ، بابر بشیر اور ذیشان جاوید سمیت متعدد ڈپٹی کمیشنر آئے اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا گیا ہر بیوروکریٹ نے مفاہمت کی راستہ نکالنے پر زور دیا لیکن سب ناکام رہے اور اس طرح قوم کی سانجھی بیٹیوں کی تعلیم میں آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے اس پر بھی سیاست ہوتی رہی۔
اس معاملے پر سردار اظہر خان کھتران نے بتایا کہ وہ 2015 سے اس مسئلے کے حل کے لیے کوشاں ہیں اس اہم مسئلے پر تمام متعلقہ دفاتر میں درخواست گزاری لیکن کہیں بھی شنوائی نہیں ہو سکی انہوں نے کہا کہ یہاں صرف میری بیٹیاں نہیں بلکہ اس شہر اور ملحقہ دیہاتوں کی بیٹیاں بھی تعلیم حاصل کرنے آتی ہیں کیوں کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں اس لیے ہم نے قوم کی بیٹیوں کی تعلیم کو سہل بنانے کے لیے راستے کے مسئلے کو حل کرنے کوشش کی ہمارے دوست نے ہمیں اپنی کروڑوں روپے مالیت کی زمین سے 20 فٹ چوڑا راستہ دینے کا وعدہ بھی کیا ہے لیکن ہم بارہا کوشش کے باوجود ضلعی صدر پاکستان تحریک انصاف چوہدری بشارت علی رندھاوا کی خوشنودی حاصل نہیں کر سکے۔ ہم نے ہمت نہیں ہاری ایک دن آئے گا جب ہم یہ کام انجام دیں گے.
ضلعی صدر پاکستان تحریک انصاف چوہدری بشارت علی رندھاوا نے اس تنازعہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہاں سے راستہ کھلوانے پر سب لوگ بضد ہیں وہاں دو ایکڑ کا پارک بھی موجود ہے اگر وہ راستہ کھولتے ہیں تو پارک دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا جو کہ نا قابل قبول ہے.
ہم چاہتے ہیں کہ گزشتہ 40 سال سے موجود راستے کو کھولا جائے سکول و کالج کی طرف جانے والے راستے کشادہ ہیں لیکن لوگوں نے کچی آبادیاں قائم کر کے یہ مسئلہ پیدا کیا ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ چوک اعظم میں تجاوزات کے خلاف بڑے آپریشن کی اجازت مل جائے۔ سارا کام مکمل کیا جا چکا ہے جلد ناجائز تعمیرات کو گرا کر راستے گشادہ کئے جائیں گے.
ڈپٹی کمیشنر لیہ ذیشان جاوید کا کہنا ہے مجھے لیہ تعینات ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے ہیں میں نے دیکھا کہ یہ مسئلہ مختلف تقریبات میں بھی زیر بحث رہ چکا ہے میں پوری کوشش کر رہا ہوں کہ اس مسئلے کے حل کے لیے سب سیاستدانوں کو متفق کر سکوں میڈیا نمائندگان سے گزارش ہے کہ مجھے چند دن کا وقت دیں تاکہ میں کسی نتیجے پر پہنچ سکوں امید رکھیں اس تنازعہ کا حل ضرور نکلے گا.
چوہدری محمد اسلم گجر ایڈووکیٹ نے اس مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قوم کی بیٹیاں معاشرے کی عزت و غیرت کا نشان ہوا کرتی ہیں ان کے مسئلے پر سیاست سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ یہ کسی ایک فرد کی بیٹی کا نہیں پورے معاشرے کی بیٹیوں کا مسئلہ ہے.
اگر ہم بذریعہ عدالت راستہ کھلوا بھی لیں تو بھی ایسے افراد کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں جنہوں نے قوم کی بیٹیوں اور اس مسئلے کے حل کے لیے کوشاں افراد کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں۔ جنہوں نے گزشتہ چار سال سے نہ یہ راستے کھولنے دیا اور نہ ہی اپنی مرضی کا راستہ کھولوا سکے۔ سارے شہر کے افراد کو چاہیے کہ وزیراعظم عمران خان کو اس مسئلے پر اپنے ضلعی نمائندے کے کردار بارے خطوط لکھیں تاکہ پارٹی کی اعلی قیادت کو بھی علم ہو کہ ان کے نمائندے معاشرے میں کس طرح بگاڑ پیدا کر رہے ہیں۔
اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر( زنانہ) ہدایت حسین چوہان کا کہنا ہے کہ چوک اعظم میں گرلز ہائی سکول کے راستے کا تنازعہ جان بوجھ کر بنایا گیا ہے یہ بڑا مسئلہ نہیں ہے اگر سیاستدان سمجھ جائیں تو بیٹیوں کی سہولت پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔انہوں نے سکولوں میں لڑکیوں کے داخلے پر بات کرتے بتایا کہ ضلع لیہ میں کل 1515 سکولوں میں سے 613 سکولز لڑکیوں کے ہیں۔ سال 2019 میں 125239 لڑکیاں لیہ کے سکولوں میں داخل ہوئیں جو کہ کل داخلے کا 47.61 فیصد ہیں اور لڑکیوں کے سکولوں میں کل 3010 رجسٹرڈ اساتذہ پڑھاتی ہیں۔ جبکہ لڑکوں کے 737 سکولوں میں 137727 بچے داخل ہوئے جوکہ کل داخلے کا 52.36 فیصد بنتا ہے لڑکوں کے سکولوں میں 3346 رجسٹرڈ اساتذہ پڑھاتے ہیں.
ویمن رائٹس کے لیے متحرک ضلعی رہنما نجمہ کنول کا کہنا ہے کہ چوک اعظم شہر میں 107 ایکڑ پر فاریسٹ پارک موجود ہے لیکن 2 ایکڑ کے پارک کو بچانے کے لیے رندھاوا صاحب نے گزشتہ 4 سال سے سب کو پریشان کیا ہوا ہے نہ تو یہ راستہ کھولتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی کا راستہ کھلوانے کی ان میں ہمت ہے ان کی سیاست میں میری قوم کی بیٹیوں کا مستقبل داو پر لگا ہوا ہے سکیورٹی اداروں سمیت تمام انتظامی اداروں کا اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہیے اور اسے جلد از جلد حل کروانا چاہیے.
ضلع لیہ میں بچیوں کے سکول کا یہ واحد مسئلہ نہیں۔ پینے کا صاف پانی، چاردیواری، سکیورٹی، اساتذہ کی تعداد، صفائی کے لیے چپڑاسی کا نہ ہونا، بجلی کا نہ ہونا یہاں تک کہ سکول جانے کے راستے غیر محفوظ ہونا جیسے مسائل عام ہیں۔ ضلعی حکومت و محکمہ تعلیم لیہ کو رائٹ ٹو انفارمیشن لاء کے تحت سکولوں سے متعلق معلومات لینے کے لیے متعدد سوالات بھی بھیجے لیکن انہوں نے معلومات دینے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ نئی حکومت کے آتے ہی سکولوں سے باہر 22.5 ملین بچیوں کے اعدادو شمار تو دیئے گئے لیکن محکمہ تعلیم لیہ نے پرائیویٹ سکولوں میں زیر تعلیم بچوں اور سکولوں سے باہر بچوں کی معلومات تک نہ دیں۔ ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی سکولوں کی حالت زار بہتر کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔