رحیم یار خان: الیکشن ایکٹ 2017 ء کے مطابق تمام سیاسی پارٹیوں کو پابند کیا گیا تھاکہ جنرل نشستوں میں سے پانچ فی صدپر ٹکٹیں خواتین کودی جائیں لیکن ضلع رحیم یار خان کی نشستوں پر تمام سیاسی جماعتوں نے صرف مرد حضرات کوہی ٹکٹ جاری کئے۔ الیکشن 2018 ءمیں رحیم یار خان کے 6 قومی اسمبلی اور 13 صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں سے صرف تحریک ِ انصاف واحد جماعت تھی جس نے ایک صوبائی حلقے میں مریم بتول نامی خاتون کو ٹکٹ دیا جو کہ تیسری پوزیشن پر آئی تھیں۔ اس حلقہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کا امیدوار کامیاب ہوا تھا۔ رحیم یار خان ضلع کی سیاسی تاریخ میں ایسی خواتین موجود ہیں جو گزشتہ چار دہائیوں سے سیاست میں حصہ لے رہی ہیں اور سیاسی جماعتوں میں سیاسی ورکر کی حیثیت کے ساتھ ساتھ کلیدی عہدوں پر بھی کام کرتی رہی ہیں۔ لیکن رحیم یار خان کی تاریخ میں آج تک کوئی بھی خاتون عام انتخابات میں جنرل نشست پر کامیاب نہیں ہوسکی۔
پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والی ممبر ضلع کونسل اور وومن ونگ رحیم یارخان کی جنرل سیکرٹری خالدہ نے بتا یا کہ گزشتہ عام انتخابات میں جنرل نشستوں پر ان کی پارٹی نے کسی بھی خاتون کو ٹکٹ نہیں جاری کیاتھا اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ پارٹی کے ٹکٹ کے لئے امیدوار زیادہ تھے اور پارٹی کو آخر تک یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کس کو ٹکٹ دی جائے اور کس کو نہ دی جائے۔ ایسی صورت حال میں مرد امیدوار ہی پارٹی فیصلوں سے مطمئن نہیں ہو رہے تھے تو وہاں خواتین کو کیسے ترجیح دی جاتی۔انہوں بتایا کہ رحیم یار خان سے ماضی کی طرح صرف مخصوص نشستوں پر خواتین کو نمائندگی دی گئی ہے ۔ رحیم یار خان کی تاریخ میں بہت سے خواتین نے سیاست میں حصہ لیا اور اپنا کردار ادا کیا لیکن بد قسمتی سے یہاں کبھی بھی کوئی خاتون امیدوار عام نشست پر کامیاب نہیں ہو سکی اور اس کی وجہ پارٹی سپورٹ اور مقامی سطح پر حوصلہ افزائی کا نہ ہونا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی خواتین ونگ رحیم یارخان کی صدرصائمہ طارق جو کہ گزشتہ چھ سالوں سے پاکستان تحریک انصاف کی سرگرم کارکن ہیں نے اس سلسلہ میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی پارٹی نے ضلع رحیم یار خان میں ایک صوبائی جنرل نشست پر مریم بتول کو ٹکٹ دیا تھا لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکیں ۔ ضلعی سیاست کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہا ں خواتین جنرل نشست پر خواہش مند ہی نہ تھیں کہ وہ انتخابات میں حصہ لیںتاہم مخصوص نشستوں کے لئے دو خواتین نے پارٹی کو درخواست دی تھی۔ لیکن عمومی رویہ یہی ہے کہ اگر کوئی خاتون الیکشن لڑنے کے لئے تیار بھی ہو تو اسے کہا جاتا ہے کہ آپ کے لئے سپیشل سیٹیں ہیں آپ جنرل نشستوں کی بجائے ان کے لئے درخواست دیں۔ یہی وجہ ہے کے خواتین عام انتخابات میں حصہ لینے کی بجائے مخصوص نشستوں کو ترجیح دیتی ہیں۔ جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے کے لیے اگر کوئی خواہش مند خاتون ہو بھی تو وہ الیکشن میں کئے جانے والے اخراجات کی متحمل نہیں ہوتیں اور اس کے علاوہ ایک اور وجہ خواتین کے اندر الیکشن لڑنے کی سوچ ہی نہ ہونا ہے۔ رحیم یارخان سے ایک ہی خاتون نے جنرل نشست کے لئے درخواست دی تھی اور وہ پارٹی نے قبول کی اور ٹکٹ جاری کیا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو سیاست میں آگے آنے کے کم مواقع ملنے ایک وجہ موروثی سیاست بھی ہے اگر باپ کے بعدبیٹا سیاست میں حصہ لے تو اسے ہمارے عوام ووٹ دیتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ خواتین کے لئے زرتاج گل ایک رول ماڈل ہیں جنہوں نے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی ۔ زرتاج گل نے بہت محنت کی اور اس علاقے سے کامیابی حاصل کی جہاں سرداری اور آبائی سیاست تھی۔ انہوں نے کہا اگلے الیکشن میں رحیم یار خان کی خواتین محنت کر رہی ہیں اور اپنا گراونڈ ورک بھی کر رہی ہیںانہیں امید ہے اگلے عام انتخابات میں یہاں سے خواتین بھر پور تیاری کے ساتھ عام انتخابات میں حصہ لیں گی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات پر خوشی ہے کہ مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی نے صرف ورکر خواتین کہ ترجیح دی اور تما م نشستوں پرورکر خواتین ہی آئیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سنیئر کارکن او رساﺅ تھ پنجاب خواتین ونگ کی سابق صدر تسنیم فضلی نے خواتین کے سیاست میں کردار پربات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گزشتہ چار دہائیوں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں اور پارٹی کی جانب سے خواتین ونگ کے کلیدی عہدوں پر کام کرتی رہی ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کسی بھی خاتون کو جنرل نشستوں پر ٹکٹ جاری نہیں کیا۔ انہوں نے بتایا کہ فریال تالپور جب ویمن ونگ کی مرکزی صدر تھیں تو انہوں نے ہی ساوتھ پنجاب کی خواتین کے لئے آواز اٹھائی تھی اور یہ ایک بہت بڑی بات ہے کہ پورے پنجاب میں صرف رحیم یار خان ہی واحدضلع ہے جہاں سے پارٹی جیتتی رہی ہے۔ ساوتھ پنجاب کی خواتین کی نمائندگی کے لئے جب آواز اٹھائی گئی تو رحیم یار خان کی خواتین کے بھی نام سامنے آنے شروع ہوئے تھے اور سن 2013 ءمیں انہیںمخصوص نشست کے لئے پارٹی نے ٹکٹ جاری کیا تھا تاہم جب وہ لاہور ٹکٹ لینے کے لئے گئیں تو وہاں لاہور کی سینئر پارٹی قیادت نے اس بات کا بہت برا منایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اپر پنجاب والوں نے ہمیشہ سے خواتین کے ٹکٹوں کو اپنا حق ہی سمجھا ہے جب کہ یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں اس بات کو ترجیح دی گئی تھی کہ ساﺅتھ پنجاب کے اچھے گھرانوں کی خواتین کو سامنے آکر سیاست میں حصہ لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آبائی سیاست کے حوالے سے ان کا ایک الگ نظریہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی میرٹ پر آ رہا ہے اور عام عوام کے لئے کام کر رہا ہے توچاہے وہ کوئی بھی ہو اسے آگے آنا چاہئے۔انکا کہنا تھا کہ ضروری نہیں کہ ایک بڑے گھرانے کا ہی امیدوار کامیاب ہو ایک عام گھرانے کا امیدوار بھی کامیاب ہو سکتا ہے اگر اس میں لیڈر شپ کی صلاحیتیں ہوںاور اس سلسلہ میں پارٹی قیادت کو چاہیے کہ
میرٹ پر کام کرے ۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ آنے والے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی جنرل نشستوں پر ضلع کی خواتین کو ٹکٹ دے سکتی ہے اور خواتین کو بھی عام انتخابات میں حصہ لینا چاہئے۔ نتاشہ دولتانہ کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رحیم یار خان میں بھی ایسی باصلاحیت خواتین موجود ہیں جو الیکشن میں حصہ لے سکتی ہیں۔
رحیم یار خان کی خواتین سیاست میں اپنا بھر پور کر دار ادا کرتی رہی ہیں۔ اگر بڑی پارٹیاں ان خواتین کی حوصلہ افزائی کریں تو وہ عام انتخابات میں بھی کامیاب ہو سکتی ہیں۔ عام انتخابات میں حصہ لینے کے لئے خواتین میں صلاحیتیں ہیںلیکن معاشی اور سماجی مسائل ان کو آگے آنے سے روکتے ہیں۔
اعلیٰ
ala bilal bhai