پشاور: خیبرپختونخوا میں قائم نجی سکولوں سے منسلک خواتین اساتذہ کو سکول مالکان کی جانب سے تنخواہوں کے معاملے میں صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ خواتین اساتذہ اگرچہ ہماری مستقبل کی نسلوں میں صنفی امتیاز کو ختم کرنے کے لیے کام کررہی ہیں لیکن وہ خود امتیازی رویوں کا شکار ہوگئی ہیں۔ خیبرپختونخوا کے نجی سکولوں سے منسلک خواتین اساتذہ کی تنخواہ اسی نوعیت کے پیشہ ورانہ امور انجام دینے والے مرد اساتذہ کی نسبت خاصی کم ہے۔
21ویں صدی میں نجی سکولوں سے منسلک خواتین اساتذہ تربیت یافتہ ہونے کے باوجود انتہائی قلیل تنخواہیں وصول کررہی ہیں ۔ خیبرپختونخوا میں نافذالعمل ہونے والے کم از کم تنخواہوں کے ایکٹ برائے 2013ء (سیکشن 9) کے تحت غیرتربیت یافتہ محنت کشوں کے لیے کم از کم تنخواہ 15ہزار روپے مقرر کی گئی ہے لیکن اس ایکٹ کا اطلاق غالباً نجی سکولوں پر نہیں ہوتا جن کے مالکان نے تربیت یافتہ اساتذہ کی تنخواہ بتدریج کم کی ہے جوکم از کم تنخواہوں کے قانون کے مطابق نہیں ہے۔ ایک غیررسمی اندازے کے مطابق نجی سکولوں میں خدمات انجام دینے والی خواتین اساتذہ کو اوسطاً تین سے 15ہزار روپے ادا کیے جاتے ہیں جس کے علاوہ انہیں کوئی اضافی فوائد فراہم نہیں کئے جاتے۔ اشرافیہ کے سکولوں میں اساتذہ کو مناسب تنخواہ ادا کی جاتی ہے جو 15ہزار سے 50ہزار روپے تک ہے۔ تاہم نیم سرکاری سکولوں میں دو شفٹوں (صبح و شام) میں کام کرنے والے اساتذہ کی تنخواہ 120000تک ہے۔
نجی سکولوں کے ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ تمام نجی سکول بچوں کی ماہانہ فیس میں سالانہ بنیادوں پر اضافہ کرتے ہیں تاہم تدریسی عملے کی تنخواہوں میں کبھی اضافہ نہیں کیا گیا۔ایک نجی سکول کے مالک نے رابطہ کرنے پر یہ تسلیم کیا کہ یہ رجحان عام ہے کہ پشاور کے نجی سکولوں کے اساتذہ کی تنخواہوں کا تعین ان کی صنف کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔
نجی سکول طالب علموں سے گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس وصول کرتے ہیں لیکن کچھ نجی سکول اساتذہ کو تنخواہیں ادا نہ کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔ ذرائع نے اسے وہ بنیادی وجہ تسلیم کیا جس کے باعث موسمِ گرما میں کچھ اساتذہ کو ملازمت سے برطرف کردیا جاتا ہے۔موسمِ گرما چوں کہ نزدیک آرہا ہے جس کے باعث مقامی حکومت کو اس معاملے کو زیرِغور لانے کی ضرورت ہے۔ نجی سکولوں کے معاملات درست کرنے کے لیے تعلیمی ولیبر پالیسیوں میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے واقعات پیش نہ آئیں اور نجی سکول اخلاقی و قانونی اصولوں پر عمل کریں اور خیبرپختونخوا میں سکولوں کو ایک منافع بخش کاروبار کے طورپر نہ چلائیں۔
2010ء میں اے این پی کی صوبائی حکومت نے محکمۂ تعلیم کی جانب سے ایسا پہلا ریگولیٹری ڈرافٹ تیار کیا تھا جس کا مقصد خیبرپختونخوا میں قائم نجی سکولوں کو ریگولیٹ کرنا تھا۔ تاہم ریگولیٹری ڈرافٹ کی روشنی میں نجی سکولوں کے کام کرنے کے طریقۂ کار میں شفافیت لانے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ ذرائع نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ الزام عائد کیا کہ تعلیمی ڈرافٹ پر عمل نہ ہونے کی وجہ وہ قانون ساز ہوسکتے ہیں جو ان نجی سکولوں سے کسی نہ کسی طورپہ منسلک ہیں۔
خیبرپختونخوا ایلیمنٹری اینڈ سکینڈری ایجوکیشن (ای ایس ای) کی ایک سالانہ رپورٹ برائے 2014-15ء میں یہ کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں نجی سکولوں کی مجموعی تعداد 6743ہے جو صوبہ بھراور خاص طور پر ضلع پشاور میں قائم ہیں۔ مزیدبرآں محکمۂ تعلیم کے سرکاری اعداد وشمار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان نجی سکولوں میں زیرِتعلیم طالب علموں کی تعداد 18لاکھ ہے۔ ان سکولوں میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ کی تعداد 85325ہے جن میں سے 44466مرد اساتذہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی خیبرپختونخوا میں سرکاری سکولوں کی تعداد 27506ہے اور ان میں زیرِتعلیم طالب علموں کی تعداد 42لاکھ ہے۔ سرکاری سکولوں کے لیے مختص کی گئی اساتذہ کی نشستوں کی تعداد 143399ہے جن میں سے 92243مرد اور 51156خواتین ہیں۔
ایک نجی سکول کے استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ مرد و خواتین اساتذہ کی کارکردگی میں کوئی فرق نہیں ہے تاہم یکساں تنخواہوں کے حوالے سے نجی سکولوں کے تناظر میں قوانین پر عمل کرنا نہایت مشکل ہے۔ تنخواہوں کے علاوہ ملازمت سے برطرف کرنے کے معاملے کو بھی بہت سے اساتذہ کی جانب سے ناانصافی پر مبنی تصور کیا جاتا ہے۔
خواتین اساتذہ ان برطرفیوں کو غیرقانونی اقدام کے طورپر دیکھتی ہیں اور یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کی جانب سے ان کے حقوق اور خاص طورپر تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ ان کی ملازمت کو خطرات کا شکار کردیتا ہے۔ خواتین اساتذہ یہ چاہتی ہیں کہ ان کے ملازمت کا کنٹریکٹ ایک پورے تعلیمی برس کے لیے محفوظ ہو۔ نوٹس پر ملازمت سے برطرفی کی شق ختم ہونی چاہئے۔ نجی سکولوں کے مالکان عموماً اپنی خواتین اساتذہ کو ملازمت کے کنٹریکٹ میں یہ شق شامل کرنے پر تیار کرلیتے ہیں کہ وہ لیبر ڈیپارٹمنٹ میں اپنی شکایات درج نہیں کروا سکتیں۔
خیبرپختونخوا میں نجی سکولوں کی ایک محدود تعداد ہی خواتین اساتذہ کو ایک پورے تعلیمی سیشن کے دوران ملازمت پر برقراررکھتی ہے لیکن مذکورہ ادارے بھی خواتین اساتذہ کو ملازمت سے برطرف کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ محسوس نہیں کرتے تاکہ ان خواتین اساتذہ کی تنخواہوں میں سالانہ اضافہ نہ کرنا پڑے۔ ’’ازراہِ مہربانی کل سے سکول تشریف لانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ مزیدبرآں ایک خاتون استانی نے کہا کہ کچھ نجی سکولوں کے مرد پرنسپل طالبات علموں کے سامنے سگریٹ نوشی کرنے سے بھی نہیں کتراتے اور بعدازاں طالب علموں کو خوفزدہ کرنے کے لیے نازیبا اور سخت زبان کا استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ ڈانٹ ڈپٹ کے ڈر سے اس بارے میں اپنے والدین کو کچھ نہ بتائیں۔
ان معاملات میں سے کچھ کے بارے میں جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کیا گیا تو ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ کہا کہ ایسے واقعات کے حوالے سے موجود شواہد کوئی بہت زیادہ ٹھوس نہیں ہوتے اور پولیس عموماً سکیورٹی تحفظات اور بچوں میں خوف پیدا ہونے کے خدشات کے باعث سکولوں پر چھاپے مارنے سے گریز کرتی ہے۔
قانون کے تحت کم از کم تنخواہوں کے معاملات پر عموماً محکمۂ لیبر عوامی شکایات سنتا ہے، حتیٰ کہ مذکورہ محکمہ کاروباری مراکز کی نگرانی کرنے کے حوالے سے معروف ہے جس کا مقصد یہ یقین دہانی حاصل کرنا ہوتا ہے کہ کاروباری معاونین کو قانون کے تحت مقرر کی گئی کم از کم تنخواہ مل رہی ہے یا نہیں۔ لیکن متعلقہ محکے کے افسران کہتے ہیں، نجی سکولوں کے حوالے سے یہ قوانین لاگو نہیں ہوتے۔
نیوز لینز کی جانب سے مزید تفتیش کرنے پر یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ محکمۂ لیبر نجی سکولوں کے حوالے سے لیبر لاز رکھتا ہے۔ اس حوالے سے ابتدائی طورپر اے این پی کی حکومت کے دوران ایک قانون تشکیل دیا گیا لیکن نئی حکومت برسرِاقتدار آئی تو محکمے کو نوٹیفیکیشن وصول ہوا کہ نجی سکولوں میں کم از کم تنخواہوں کے حوالے سے جاری کیے جانے والے قانون کو منسوخ کر دیاگیا ہے۔ یہ نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے احکامات کو نظرانداز کردیا گیا تھا۔ قانونی طور پر لیبرقوانین میں اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی تاوقتیکہ صوبائی اسمبلی میں اس معاملے کو زیرِغور نہیں لایا جاتا اور اس حوالے سے اسمبلی اجازت نہیں دے دیتی۔
نیوز لینز نے محکمۂ لیبر کے ذرائع سے مزید تصدیق کی کہ محکمۂ لیبر کے کچھ حلقوں نے نجی تعلیمی اداروں کو واپس اپنے دائرہ اختیار میں لانے کے لیے ان ترامیم کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں رٹ دائر کرکھی ہے ۔یہ مقدمہ عدالت میں فی الحال زیرِسماعت ہے۔وزیر برائے ایلیمنٹری و سیکنڈری ایجوکیشن خیبرپختونخوا محمد عاطف کہتے ہیں:’’یہ ہماری ترجیحات میں شامل ہے کہ محکمۂ تعلیم کے ذریعے نجی سکولوں کو جلد از جلدریگولیٹ کیا جائے۔‘‘
اگرچہ عدالتی کارروائی جاری ہے لیکن خیبرپختونخوا کی مقامی حکومت کی جانب سے اقدامات نہ کیے جانے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وہ ایسا کوئی ریگولیٹری نظام تیار کرنے پر آمادہ نہیں ہے جس کے تحت نجی سکولوں کو ریگولیٹ کیا جاسکے اور وہ طالب علموں کی فیسوں سے متعلق معاملات اور اساتذہ کی غیر یکساں تنخواہوں کے معاملات کو حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔