پشاور: شہریوں کو شکایات کے ازالے کے لیے سرکاری محکموں سے منسلک کرنے کے لیے جاری کی گئی نئی ایپ خیبرپختونخوا انتظامیہ کے لیے خاصی مددگار ثابت ہوئی ہے،اور کے پی سٹیزن پورٹل کے ذریعے ہزاروں شکایات پر کارروائی کی گئی ہے۔
22نومبر2016ء تک سمارٹ ایپ ڈائون لوڈ کرکے 33,300شہری ایپ کے ساتھ رجسٹرڈ ہوچکے تھے، جن میں سے 18ہزار نے سرکاری محکموںمیں شکایات کا اندراج کروایا۔ ویب سائٹ کہتی ہے کہ حکام 14,600یا 81فی صد شکایات پر کارروائی کرنے میںکامیاب رہے۔
ویب سائٹ کی جانب سے گزشتہ ماہ جاری ہونے والی رپورٹ لوگوں کے ای گورننس ایپ کے ذریعے سرکاری معاملات میں حصہ لینے کے رجحان میں اضافہ ظاہر کرتی ہے۔
کے پی سٹیزن پورٹل کے پروگرام کوارڈینیٹر عادل رضا کہتے ہیںکہ کئی وجوہات کی بنا پر صوبہ بھر سے شکایات کے اندراج میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ ایپ 2015ء میں جاری کی گئی تھی۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ لوگ ویب سائٹ کی ایپ اور سرکاری محکموں کے کام کرنے کے طریقۂ کار پر اس کے مثبت اثرات کے بارے میں آگاہ ہورہے ہیں۔‘‘
لوئر دیر کے رہائشی محمد اعظم نے اپنے گائوں کے پرائمری سکول کے ایک استادکی غیرحاضری کے حوالے سے ایپ کے ذریعے شکایت درج کروائی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ شکایت درج کروانے کے بعد 10دن کے اندر اندر یہ مسئلہ حل ہوگیا۔ انہوں نے کہا:’’ میں نے یہ پیغام وصول کیا کہ متعلقہ استاد فوری طورپر سکول سے منسلک ہونا چاہتا ہے، مجھ سے یہ کہا گیا کہ اگر میری شکایت پر کارروائی ہوگئی ہے تو میں ہاں یا نہیں میں جواب دوں۔‘‘
کاشف علی پشاور میں نیٹ ہوم کے نام سے ایک ادارہ چلاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ کے پی سٹیزن پورٹل تک رسائی بہتر بنانے کے لیے اسے موبائل نیٹ ورکس کے ساتھ منسلک کیا جاسکتا ہے کیوں کہ صوبے کے دوردراز کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔
کاشف علی نے مزید کہا کہ وہ شہری ، جن کی انٹرنیٹ تک رسائی نہیںہے، اپنے موبائل فونوں سے ایس ایم ایس کرکے بھی شکایت درج کروا سکتے ہیں اور ویب کی انتظامیہ شکایت پر مزید کارروائی کرسکتی ہے۔
منصوبے کے مقاصد کے حوالے سے سرکاری دستاویزات میں کہا گیا ہے:’’ ای گورننس کا سٹریٹجک مقصد حکومت، شہریوں اور کاروباری اداروں کے لیے گورننس میں معاونت فراہم کرنا اور اسے آسان کرنا ہے۔‘‘
ویب سائٹ کے سرکاری کتابچے میں کہا گیا ہے:’’ انفارمیشن و کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) ان تینوں فریقوں کو آپس میں منسلک کرسکتی ہے اورکارروائی کرنے میں معاونت فراہم کرسکتی ہے۔ اس کے دیگر مقاصد میں ’’ حکومتی انتظامیہ کو مزید شفاف، تیز رفتار اور قابلِ احتساب بنانا ہے۔‘‘
ویب سائٹ کے مطابق یہ ایپ حکومت کو معمول کے اور ہنگامی نوعیت کے اعلانات کرنے کے لیے شہریوں سے براہِ راست ابلاغ کرنے کے قابل کرتی ہے۔ ایپ میں شہریوں کے مسائل اور ان کی ترجیحات کے بارے میں بروقت جاننے کے لیے رائے عامہ حاصل کرنے کی سہولت بھی موجود ہے۔
ایپ کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق ویب کے ڈیش بورڈ ڈپٹی کمشنر، کمشنر اور چیف سیکرٹری کے دفاتر سے منسلک ہیں۔ تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز اپنے شہریوں کی شکایات اور افسروں کو منتظم کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ وہ اپنی ضرورت کے مطابق ضلعی افسروں کو شامل کرسکتے ہیں۔ اس وقت شکایات کو منتظم کرنے والا یہ فیچر صوبے بھر کے 900سے زائد دفاتر کی رسائی میں ہے۔
ایپ کی سالانہ رپورٹ میں شکایات کی اضلاع کے اعتبار سے تقسیم کے مطابق پشاور کے شہریوں نے سب سے زیادہ 3919شکایات درج کروائیں جن میں سے2143حل ہوگئیں۔ ایبٹ آباد کے شہریوں نے 797، صوابی کے شہریوں نے 577، بنوں کے شہریوں نے 558اور کوہاٹ کے شہریوں نے 533شکایات درج کروائیں۔
عادل رضا کہتے ہیں کہ گزشتہ برس جب یہ ایپ جاری ہوئی تو اس وقت یہ جاننے کا کوئی میکانزم موجود نہیں تھا کہ آیاکوئی شکایت حل ہوگئی ہے یا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا:’’ اب شکایت کنندگان یہ پیغام وصول کرتے ہیں جس میں ان سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ کیا ان کی شکایت پر کارروائی ہوچکی ہے۔‘‘
عثمان علی خیبرپختونخوا کے ضلع دیر میں سمارٹ ایپ کی شکایات کو منتظم کرتے ہیں، وہ کہتے ہیںکہ بلدیاتی انتخابات کے بعدشکایات کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جس سے لوگوں کی سرکاری محکموں کے حوالے سے درپیش مسائل حل کروانے میں دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے مزید کہا:’’ ہم ڈپٹی کمشنرز ، پولیس اور دیگر سرکاری محکموں کے خلاف موصول ہونے والی شکایات کی نگرانی کررہے ہیں تاکہ حقیقی شکایات کا ازالہ کرسکیں۔‘‘
تاہم یونیورسٹی آف پشاور کے طالب علم محمد عمران کہتے ہیں کہ ہر کوئی اور خاص طورپر دوردراز کے اضلاع کے شہری اس سہولت کے بارے میں آگاہ نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ لوگ جو خواندہ نہیں ہے، سمارٹ ایپ کے ذریعے شکایت درج نہیں کروا سکتے اور نہ ہی وہ اس سروس کے بارے میں کوئی آگاہی رکھتے ہیں۔
محمد عمران نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ایپ کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی جانی چاہئے اور شہریوں کو یہ بتایا جائے کہ وہ خود کو منتظم کیے جانے کے حوالے سے رائے کا اظہار کرکے ایپ سے مستفید ہوسکتے ہیں۔‘‘