لاہور: وفاقی حکومت یہ تصور کررہی ہے کہ صوبے صوبائی شعبۂ صحت کی اصلاح کرنے کے قابل نہیں ہیں جس کے باعث اس نے خود آگے بڑھنے اور پاکستان کے مختلف شہروں میں 46ہسپتال بنانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن پنجاب میں حزبِ اختلاف نے صوبائی اسمبلی میں قرارداد جمع کروا کر حکومت کے فیصلے کو رَد کردیا ہے۔
یہ قرارداد پنجاب اسمبلی میں قائدِحزبِ اختلاف میاں محمود الرشید نے جمع کروائی ہے جس میں حکومت سے نئے ہسپتال شروع کرنے سے قبل پہلے سے موجود صحت کی سہولیات بہتر بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت ملک میں صحت کی مجموعی سہولیات بہتر بنانے کے لیے پاکستان کے مختلف شہروں میں 46نئے ہسپتال کھولنے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ حکومت کی جانب سے جاری کئے جانے والے حکم نامے کے مطابق وزیراعظم یہ منصوبہ 2018 ء میں اپنے دورِ حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل مکمل دیکھنا چاہتے ہیں۔
تجزیہ کار اور انسانی حقوق کے کارکن وجاہت مسعود نے کہا:’’ پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے ایک مثبت اور انتہائی اہم اقدام کے خلاف قرار داد پیش کیا جاناعجیب ہے۔صحت ایک صوبائی موضوع ہے اور صوبائی حکومتیں اپنے عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ میرے علم کے مطابق وفاقی حکومت ہر صوبے کے پسماندہ اضلاع میں نئے ہسپتال قائم کرے گی جس سے ان غیر ترقی یافتہ علاقوں کے مریض اپنے آبائی شہر میں صحت کی سہولیات حاصل کرپائیں گے۔‘‘
میاں محمود الرشید نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت صحت کی نئی سہولیات کی فراہمی کے خلاف نہیں ہے ، ہم صحت کے پہلے سے موجود انفراسٹرکچر کی بہتری چاہتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا:’’کیا آپ یہ تصورکرسکتے ہیں کہ میو ہسپتال، جوکبھی ایشیاء کے بڑے ہسپتالوں میں سے ایک رہا ہے، میں ایم آر آئی مشین تک نہیں ہے۔‘‘میاں محمود الرشید نے مزید کہا کہ ہسپتال میں صرف ایک سی ٹی سکین مشین ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں کوئی وزیرِ صحت نہیں ہے۔ میاں محمود الرشید کا کہنا تھا:’’میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے وزارتِ صحت کا قلمدان اپنے پاس کیوں رکھا ہوا ہے۔‘‘
اس وقت وزیراعلیٰ کے پاس نو وزارتوں کے قلمدان ہیں۔ ماہرین یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایک وزیرکے لیے اس قدر وزارتوں کو ایک ہی وقت میں مناسب طورپرچلانا ناممکن ہے۔
پنجاب میں پانچ سو بستروں کے ہسپتالوں کے لیے تجویز کئے گئے شہروں میں جھنگ، بھکر، صادق آباد اور راولپنڈی شامل ہیںجب کہ 250بستروں پر مشتمل ہسپتال بوریوالا، احمد پور ایسٹ، کوٹ ادو، تونسہ، ساہیوال، سرگودھا، پسرور اور لیہ میںقائم کئے جائیں گے۔
سندھ میں پانچ سو بستروں پر مشتمل ہسپتال جیکب آباد، میرپورخاص، بدین اور 250بستروں پر مشتمل ہسپتال اسلام کوٹ، نوشہرہ فیروز اور دادو کے اضلاع میں تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔
خیبرپختونخوا میں پانچ سو بستروں پر مشتمل ہسپتال ہری پور، چارسدہ اور 250بستروں پر مشتمل ہسپتال بٹگرام، ہنگو اور چترال میں تعمیر کئے جائیں گے۔ 250بستروں پر مشتمل ایک ہسپتال وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں بھی قائم کیا جائے گا۔
علاوہ ازیں ایک سو بستروں پر مشتمل ہسپتال گڑھی حبیب اللہ اور کاغان میں تعمیر کئے جائیں گے۔
بلوچستان میں ایک سو بستروں پر مشتمل ہسپتال حب، نوشکی، چمن اور پنجگور، 250بستروں پر مشتمل ہسپتال خضدار، لورالائی ، سبی اور پانچ سو بستروں پر مشتمل ہسپتال کوئٹہ میں قائم کیا جائے گا۔
مزیدبرآں 250بستروں پر مشتمل ہسپتال سکردو اور گلگت، ایک سو بستروں پر مشتمل ہسپتال کریم آباد ( ہنزہ) اور 50بستروں پر مشتمل ہسپتال گھانچے، گلگت بلتستان میں قائم کیا جائے گا۔
پنجاب ہیلتھ کمیشن سے منسلک ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوزلینز پاکستان سے بات کی۔ انہوں نے فیصلے پر اعتراضات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت صحت کے مسئلے کو درست طورپر نہیں دیکھ رہی۔
ذریعے نے دانش سکول سے مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو دانش ہسپتالوں کے حوالے سے خبردار رہنا چاہئے۔ انہوں نے دانش سکولوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ سکول جن علاقوں میں قائم کئے گئے، وہاں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد بڑھی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا:’’حکومت چوں کہ دانش سکولوں پر ایک بڑی رقم خرچ کرتی رہی ہے جس کے باعث فنڈز نہ ہونے کے باعث دیگر سکولوں کا معیار گرنا شروع ہوگیا۔‘‘
عطائیوں کا مسئلہ اب تک حل نہیں ہوا ، حتیٰ کہ پنجاب حکومت کی جانب سے اس غیر قانونی سرگرمی کی روک تھام کے لیے کارروائی بھی کی جاچکی ہے۔پنجاب میں صرف 75ہزار ڈاکٹروں کے مقابل عطائیوں کی تعداد تقریباً25لاکھ ہے؛ ان حقائق کے بارے میں پنجاب ہیلتھ کمیشن نے نیوزلینز کو آگاہ کیا۔
صحت کے شعبہ میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم فوئنکس فائونڈیشن کے سی ای او ڈاکٹر نورالزمان رفیق کہتے ہیں کہ عطائیوں کی تعدادفراہم کئے گئے ان اعداد و شمار سے لازمی طورپر زیادہ ہوگی۔ انہوں نے کہا:’’عطائیوں کی بڑی تعداد عموماً پسماندہ علاقوں میں کام کرتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر نورالزمان رفیق نے نئے ہسپتالوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے سابق صدر مشرف کی جانب سے شروع کئے گئے اسی طرح کے منصوبے کو یاد کیا جب ملک کے مختلف حصوں میں بنیادی مراکزِ صحت کی ایک بڑی تعداد قائم کی گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا:’’مجھے یاد ہے کہ شورکوٹ، پنجاب میں ایک دوسرے سے متصل دو یونین کونسلوں میں دو بنیادی مراکزِ صحت قائم کئے گئے تھے ۔ یہ دونوں مقامات بالآخر اصطبل کے طورپر استعمال ہونے لگے کیوں کہ کوئی ڈاکٹر یہاں پر کام کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ ہسپتال تعمیر کرنا آسان ہے لیکن دوردراز علاقوں میں یہ کس طرح چلیں گے، یہ ایک بڑا سوال ہے اور حکومت اس کا جواب دینے کے قابل نہیں ہے۔ صحت کے بہت سے مراکز طبی و نیم طبی عملہ نہ ہونے کے باعث خالی پڑے ہیں۔
وزیرمملکت برائے صحت سائرہ تارڑ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے غیر ترقی یافتہ علاقوں میں ہسپتالوں کی شدید قلت ہے۔ 46ہسپتال قائم کرنے کے خیال نے اسی وجہ سے جنم لیا۔ ان سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ کیا ڈاکٹر اور طبی عملہ دوردراز اور غیرترقی یافتہ علاقوں میں کام کرنے میں دلچسپی لے گاتو انہوں نے کہا کہ نئے ہسپتال سرکاری و نجی شراکت داری کے نظام کے تحت چلائے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک کمپنی پہلے ہی قائم کی جاچکی ہے اور حکومت یہ یقینی بنائے گی کہ یہ منصوبہ خراب نہ ہو اور کامیاب ثابت ہو۔