پاکستان سٹاک ایکسچینج کے ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر ہارون عسکری کہتے ہیں کہ پاکستان کی 20کروڑ سے زائد آبادی میں سے صرف تین لاکھ لوگ ہی اپنی بچت سے سرمایہ کاری کرنے کے لیے حصص بازار کا رُخ کرتے ہیں۔
سٹاک ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جولائی کے اوائل میں جاری کیے گئے ’’کیپیٹل مارکیٹ ڈویلپمنٹ پلان‘‘( 2016-18ئ)میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ انفرادی سرمایہ کاروں کی بہت کم تعداد مارکیٹ کے ذریعے سرمایہ کاری کرتی ہے۔
منور ارشاد لاہو رمیں ایک چھوٹا کاروبار چلاتی ہیں۔ ان کی ساری زندگی گھریلو خاتون کے طورپر گزری ہے، ان کے خاوندعلیل ہوئے تو انہوں نے گھر پہ پلنگ کی چادریں بنانے کا کام شروع کیا۔ ابتدا میں ان کی ساری سرمایہ کاری گھر خریدنے اور خود کو زندگی کے نئے دھارے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں صرف ہوگئی۔ جب بچت کا وقت آیا تو انہوں نے خود کو گومگو کی کیفیت میں پایا۔ اسلامی پس منظر ہونے کے باعث وہ یہ یقین رکھتی ہیں کہ کمرشل بنکوں میں رقم محفوظ کرنا حرام ہے۔ واحد حل اسلامی بنک ہی تھے۔
انہوں نے کہا:’’ اگرچہ میں مطمئن تھی کہ میں نے ایک اسلامی بنک میں اپنی رقم محفوظ کی ہے، لیکن میں شرحٔ منافع اور فراہم کی جارہی خدمات سے مطمئن نہیںتھی۔ اکثر اوقات وہ مجھے آٹھ فی صد منافع دیتے، کبھی 7.5فی صد اور کبھی یہ نو فی صد ہوتا۔‘‘
منور ارشاد نے مزید کہا کہ میں جب بھی یہ استفسار کرتی کہ شرحٔ سود 0.5فی صد اوپر اور اس قدر ہی کم کیوں ہوتی ہے اور اس سے زیادہ کیوں نہیں ہوتی، وہ مسکرادیتے اور کہتے کہ یہ منافع کی مخصوص شرح نہ دینے کا اسلامی طریقۂ کار ہے۔
بالآخر منور ارشاد نے بنک سے رقم نکلوا لی اور اس سے نیشنل ڈیفنس سرٹفیکیٹ میں سرمایہ کاری کی۔ وہ اب بھی شرحٔ سود سے خوش نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’میں اس بارے میں زیادہ آگاہی نہیں رکھتی اور نہ ہی مجھے یہ معلوم ہے کہ میں بہتر شرحٔ منافع کے لیے اپنی رقم کہاں پہ لگائوں۔‘‘
ایک کارپوریٹ چیف ایگزیکٹو عارف حبیب کہتے ہیں کہ منور ارشاد کی جانب سے جس پریشان کن صورتِ حال کا سامنا کیا گیا، عام پاکستانی کو اُس وقت اس قسم کی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب انتخاب کا معاملہ درپیش ہوتا ہے اور یہ کہ کہاں پر سرمایہ کاری کی جائے۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’پاکستانی عوام اب بھی یہ نہیں جانتے کہ کس طرح سرمایہ کار ی کی جائے۔‘‘
عارف حبیب نے مزید کہا:’’ہمارے لوگ بازارِ حصص کے بارے میں مناسب علم نہیں رکھتے جس کی وجہ سے وہ بنکوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جو کم منافع ادا کرتے ہیں یا پھر ریئل سٹیٹ یا صرف سونا یا غیرملکی کرنسی خریدنے پرہی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔‘‘
ایک عام سرمایہ کار کے لیے کیپیٹل مارکیٹ میں بہت زیادہ مواقع موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا لوگوں کو بازارِ حصص میں سرمایہ کاری کے فوائد کے بارے میں آگاہ کرنے کے حوالے سے کردار ادا کرسکتا ہے۔ لوگ عموماً خطرات مول لینے سے گریز کرتے ہیں اور خوف زدہ ہوتے ہیں کہ بازارِ حصص لازمی طورپر متغیر ہے۔
پاکستان میں بچت کی اوسط مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب کا صرف13.92فی صد ہے جو انڈیا میں 31.9 فی صد، بنگلہ دیش میں 29.7فی صد اور سری لنکا میں 24.5فی صد ہے۔
یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب ، لاہور سے منسلک معاشیات کے پروفیسر قیس اسلم نے کہا:’’ پاکستان میں کیپیٹل مارکیٹ سے بہت کم سرمایہ کار منسلک ہیں۔‘‘
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 50فی صد سے کم بچتیں ہی معاشی شعبے کا رُخ کرتی ہیں۔ باقی دیگر سرمایہ کاریوں میں لگا دی جاتی ہیں۔
پروفیسر قیس اسلم نے مزید کہا:’’ جب لوگوں کو معاشی مواقع کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہے اور جب حکومت کی جانب سے بھی فوائد فراہم نہیں کیے جارہے تو چھوٹے سرمایہ کار غیر رسمی شعبے کا حصہ بننے کے حوالے سے کم رکاوٹوں اور قانونی کارروائیوں کے باعث اس میں کشش محسوس کرتے ہیں۔اس وجہ سے غیر رسمی شعبہ مجموعی معیشت کے 70فی صد پر مشتمل ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ غیر دستاویز شدہ معیشت ملازمت کے بہت سے مواقع فراہم کرسکتی ہے لیکن یہ ٹیکس چوری کے باعث ملک کی معاشی بہبود میں اضافہ نہیں کررہی۔
ماہرین اس اَمر پر متفق ہیں کہ جب ملکی بچتیں کم ہوتی ہیں تو ممالک بیرونی قرضوں پر انحصار کرتے ہیں جس کے باعث ترقیاتی منصوبوں کے لیے بجٹ تفویص کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کو بجٹ کا تقریباً60فی صد قرض اتارنے میں ادا کرنا پڑتا ہے۔
پروفیسر قیس اسلم نے کہا کہ پاکستان میں محدود بچت کا تعلق کم آمدنی سے بھی ہے۔ فی کس آمدنی 1152.14ڈالر ہے۔ کسی بھی معیار کے اعتبار سے یہ کم آمدن ہے اور یہ پاکستان میں بچت کی شرح کم ہونے کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔
عملی شواہد کے مطابق فی کس آمدن اور گھریلو بچت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اگر فی کس آمدنی بڑھتی ہے تو گھر کی بچت بھی بڑھ جاتی ہے۔
شکیل ملبوسات بنانے والی ایک فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ حکومت کی تنخواہ کی پالیسی کے تحت ان کی ماہانہ تنخواہ 13ہزار روپے ہونی چاہئے، جوکافی نہیں ہے کیوں کہ ان پراپنے والدین اور چار بہن بھائیوں کی ذمہ داری بھی عائد ہے، اس کے باوجود یہ اہم ہے کہ وہ اس قدر رقم لے کر تو گھر جائیں۔ وہ صرف ماہانہ9,000روپے وصول کرتے ہیں۔
انہوں نے نیو زلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں 13,000روپے ماہانہ پر ملازمت تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں لیکن کوئی بھی مجھے اس قدر تنخواہ دینے پر تیار نہیں ہے، کم از کم یہ فیکٹری تو مجھے 9,000روپے ماہانہ ادا کررہی ہے۔‘‘
شکیل نے مزید کہا:’’میں ایک غریب آدمی ہوں۔ میرا پورا دن میرے خاندان کے لیے کمانے میں گزر جاتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میں نے اگر کبھی اپنے مالک کے خلاف شکایت کی تو میرا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔ حکومت کچھ نہیں کرے گی اور میں اپنی ملازمت کھو دوں گا۔ یہ امکانات ہیں کہ میری ساکھ خراب ہوجائے گی اور میں مستقبل میں ملازمت تلاش نہیں کرپائوں گا۔‘‘
شکیل کچھ نہیں بچا پاتے کیوں کہ وہ اس قدر بھی نہیں کماپاتے کہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کرپائیں جب کہ منور ا رشاد کی طرح کی خواتین کے لیے سرمایہ کاری کرنے کے لیے مفید جگہ تلاش کرنا مشکل ہے۔