لاہور : محسن کراچی کی بولٹن مارکیٹ میں اپنے والد کی مصنوعی زیورات کی دکان کی نگرانی کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ نوجوان اور پرجوش ہیں لیکن وہ اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے حوالے سے خوف زدہ ہیں اور اپنے والد کی چھوٹی سی دکان پر مطمئن ہیں جو انہیں ان کے والد سے 40برس قبل ورثے میں ملی تھی۔

محسن نے کہا:’’ پاکستان میں زندگی بہت مشکل ہے۔ میں اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے پیسہ کہاں سے لائوں گا؟‘‘

artificial jewelry business (2)
Mohsin’s artificial jewelry shop : Photo by News Lens Pakistan/ Durdana Najam

محسن ایک مذہبی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کسی بھی بنک سے سود پر قرضہ نہیں لے سکتے۔ وہ اسلامی بنکوں پر بھی اعتبار نہیں کرتے جنہیں محسن کا خاندان ایک دھوکہ تصور کرتا ہے۔

انہوں نے کہا:’’ میں خوف زدہ ہوں کہ اگر مجھے معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو میں دوبارہ اپنا کاروبار شروع کرنے کے قابل نہیں رہوں گا۔‘‘

محسن نوجوان اور پرجوش ہیں لیکن ان کی آنکھوں میں کوئی خواب نہیں ہیں۔ وہ فوج کے سابق سربراہ جنرل پرویز مشرف کا احترام کرتے ہیں اور رینجرز کے کراچی میں امن قائم کرنے پر خود کو ان کا احسان مند تصور کرتے ہیں۔ وہ متحدۂ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے لیے اپنی ناپسندیدگی نہیں چھپاتے۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی یکساں طور پر ناپسند کرتے ہیں۔

محسن کہتے ہیں:’’رینجرز نے جب سے کراچی کا کنٹرول سنبھالا ہے، معاملات بہتر ہوئے ہیں۔ میں تو ایم کیو ایم کا نام بھی سننا نہیں چاہتا۔ رینجرز کی کارروائی کے بعد سے ہمارا کاروبار بہتر ہوا ہے۔‘‘

محسن پاکستانی فوج کو نجات دہندہ تصور کرتے ہیں۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ فوج ہی پاکستان کو ڈوبنے سے بچا سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سندھ کی موجودہ حکومت نے سندھ کی عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔
ان کی دکان پر آنے والے گاہک ان حالات سے یکساں طور پر بددل ہیں۔

مقصود احمد سٹال کے لیے سامان خریدنے آئے ہیں جو وہ اپنے 15سالہ بیٹے حسین احمد کو لگا کر دے رہے ہیں۔

مقصود احمد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میرا خاندان چھ ارکان پر مشتمل ہے؛ میں ایک فیکٹری میں کام کرتا ہوں۔ میری نصف تنخواہ چھ ہزار روپے گھر کے کرایے میں چلی جاتی ہے۔ مجھے ایک مددگار کی ضرورت ہے۔‘‘

حسین احمد نے سکول کی تعلیم ادھوری چھوڑی ہے۔ پرائمری کی سطح پر 50فی صد بچوں کا پانچویں جماعت میں پہنچنے سے قبل ہی سکول چھڑوا دیا جاتا ہے۔والدین عام طور پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ بچے 10برس کی عمر تک پہنچنے کے بعد ان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

مقصود احمد کہتے ہیں کہ غربت ان کی زندگیوں، جوش و جذبے اور خواب دیکھنے کی صلاحیت پر حاوی آچکی ہے۔

انہوں نے کہا:’’ حکومت ہمارے لیے کچھ نہیں کرے گی۔ یہ کسی کام کی نہیں ہے۔ مصنوعات اور خدمات کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں جب کہ قوتِ خرید میں کمی آرہی ہے۔‘‘

محسن کے والد نور محمد بولٹن مارکیٹ کی سامان سے لبالب بھری ایک چھوٹی سی دکان میں گزشتہ 40برسوں سے مصنوعی زیورات فروخت کررہے ہیں۔

نور محمد یہ یقین رکھتے ہیں کہ سندھ حکومت کی معاشی پالیسیوں نے ملک بھر میں چھوٹا کاروبارکرنے والوں کو متاثر کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ ان کے ڈیلرز کی اکثریت چوں کہ لاہور سے تعلق رکھتی ہے جس کے باعث وہ قیمتوں کا تعین بھی لاہور کے مطابق ہی کرتے ہیں۔نو ر محمد کے مطابق لاہور میں مزدوری پر آنے والی لاگت کراچی کی نسبت کم ہے۔

انہوں نے کہا:’’ اگر کراچی میں بالیوں کے 12جوڑوں کی قیمت 80روپے ہے تو لاہور سے یہ 40روپے میں باآسانی دستیاب ہوجاتے ہیں۔‘‘

نورمحمد نے کہا کہ سیاسی بدامنی کے باعث کراچی میں ان کے سپلائرز کی اکثریت اپنا کاروبار بند کرچکی ہے۔ چینی مصنوعات کی ریل پیل کے باعث بھی مارکیٹ تباہ ہوئی ہے۔

نورمحمد ، مقصود احمد اور محسن اپنی ضروریات پورا کرنے کی تگ و دو کررہے ہیں تو سندھ حکومت دبئی کے عالیشان گھروں میں بیٹھ کر کراچی کے دوکروڑ لوگوں کے ریوڑ کی قیادت کررہی ہے۔

آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے 30برس کی گندگی کو تین برسوں میں صاف کرنے پررینجرز کے کردار کوسراہا۔ وہ کہتے ہیں کہ کراچی میں پولیس کی قیادت میں رینجرز کا آپریشن پاکستان میں جرائم پیشہ عناصر اور ٹھگوں کے خلاف کی جانے والی کامیاب ترین کارروائی ہے۔

تاہم انہوں نے کراچی کو جرائم پیشہ عناصر سے صاف کرنے کا اپنا کریڈٹ لینے کے حوالے سے بھی کسی تامل کا اظہار نہیں کیا۔ عتیق میر نے کہا کہ تاجر برادری نے نہ صرف جرائم پیشہ عناصر کی نشان دہی کی بلکہ ان لوگوں کے پتے بھی فراہم کیے جو کراچی میں بھتہ خوری اور اغوا کے واقعات میں ملوث تھے۔

انہوں نے اگرچہ رینجرز کے آپریشن کا سامنا کیا ہے، لیکن وہ صوبائی و وفاقی حکومتوں کی معاشی پالیسیوں کے حوالے سے خوف زدہ ہیں۔ انہوں نے اپنی مایوسی ظاہر کرنے کے لیے کراچی کی کاروباری برادری کے گزشتہ برس اور رواں برس کی عید کے دوران ہونے والے منافع کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔

عتیق میرنے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’2015ء میں کراچی کے تاجروںنے رمضان المبارک کے دوران 70ارب روپے کمائے۔2016ء میں وہ صرف 45ارب روپے کما سکے۔‘‘

انہوں نے کہا:’’ منافع میں کمی کی وجہ حکومت کی جانب سے بنکوں سے رقوم نکلوانے پر عاید کیا جانے والا ودہولڈنگ ٹیکس ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ سرمایہ کار حکومت کی بے ضابطہ معاشی پالیسیوں کے باعث محتاط ہوچکے ہیں۔
عتیق میر نے مزید کہا:’’ تیل کی قیمتوں میں کمی کو افراطِ زر میں کمی میں تبدیل نہیں کیا جاسکا۔ جب تک بجلی کی قیمتیں کم نہیں کی جاتیں ، مصنوعات کی قیمتوں میں حقیقی کمی نہیں آسکتی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ توانائی کے بحران اور سندھ حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں نے چھوٹے تاجروں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے جس کے باعث وہ اپنے کاروبار کو وسعت دینے اور خطرات مول لینے کے حوالے سے خوف زدہ ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here