لاہور (دردانہ نجم سے) پاکستان مسلم لیگ نواز 2013ء میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے 2018ء تک بجلی کے بحران پر قابو پانے کا دعویٰ کرتی رہی ہے لیکن ماہرین یہ کہتے ہوئے حکومت کے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں کہ 2024ء تک توانائی کے بحران پر قابو پانا ممکن نہیں ہوگا۔
حکومت کی جانب سے بارہا یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ حکومت 2018ء تک بجلی کے بحران پر قابو پالے گی لیکن وزارتِ پانی وبجلی نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے حال ہی میں ہونے والے اجلاس میں یہ تسلیم کیا کہ پاور کمپنیوں کو سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کو واجبات کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑر ہا ہے۔بجلی چوری، لائن لاسز اور بلوں کی وصول کا کمزور نظام پاور کمپنیوں کی مالی مشکلات کی بنیادی وجوہات ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اگر ایک جانب بجلی کے بلوں میں اضافہ ہوسکتا ہے تو دوسری جانب بجلی کا بحران اگلے کئی برسوں تک جاری رہ سکتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نوازنے 2013ء کے عام انتخابات میں ملک میں جاری لوڈشیڈنگ کا مستقل حل تلاش کرنے کے وعدے پر واضح کامیابی حاصل کی، اُس وقت ملک کے شہری علاقوں میں 12اور دیہی علاقوں میں 18گھنٹوں تک لوڈشیڈنگ ہورہی تھی۔ برسرِاقتدار آنے کے بعد مسلم لیگ نواز کی حکومت نے توانائی کے متعدد منصوبے شروع کیے۔
بجلی کی پیداوار کے زیادہ منصوبے پنجاب میں شروع کیے گئے کیوں کہ صوبہ ملک میں پیدا ہونے والی مجموعی بجلی کا 70فی صد استعمال کرتا ہے۔
ذیل میں پنجاب میں بجلی پیدا کرنے کے لیے تعمیر کیے جارہے منصوبوں کی تفصیل دی جارہی ہے۔
کیٹیگری میگاواٹس
ایل این جی 3600
کول پراجیکٹ 1320
قائداعظم سولر پراجیکٹ 1000
پن بجلی کے چھوٹے منصوبے( پانچ) 500
چھوٹے منصوبے (15سے 20) پیداواری صلاحیت پانچ سے 15میگاواٹ
سیکرٹری توانائی ڈاکٹر اسد گیلانی نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے پراعتماد تھے کہ حکومت 2018ء تک بجلی کی بلاتعطل فراہمی کا وعدہ پورا کرے گی۔
ان سے جب بجلی پیدا کرنے والے محکموں کی جانب سے دی جانے والی مختلف تاریخوں کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
دوسری جانب ایک ماہر فرید احمد اس حوالے سے خدشات کا شکار ہیں کہ حکومت کی بجلی کی کمی پورا کرنے کے لیے تشکیل دی گئی پالیسیوں کی سمت درست ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’نندی پور پاور پراجیکٹ صرف ایک سو میگاواٹ بجلی ہی پیدا کررہا ہے جب کہ یہ تقریباً 425میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتا ہے۔‘‘
انہوں نے ساہیوال کول پراجیکٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو حقیقت منکشف ہوجاتی ہے۔ فرید احمد نے کہا:’’ اس وقت کیا ہوگا جب منصوبہ شروع ہوگا؟ ساہیوال تک کوئلہ کس طرح لایا جائے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اس مشکل پر قابو پابھی لیتی ہے اور ساہیوال کے مرکزی ریلوے سٹیشن سے کوئلہ لانے کے لیے ریلوے لائن بچھا دی جاتی ہے تو پیداوار پر اخراجات غیر معمولی طور پر بڑھ جائیں گے جب کہ حکومت کم قیمت پر بجلی پیدا کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔
اسد گیلانی نے کہا کہ بجلی کی پیداوار کے یہ منصوبے لوڈ سنٹر میں تعمیر کیے جارہے ہیں جو پنجاب ہے جس کے باعث لائن لاسز کے خدشات خودبخود ختم ہوجائیں گے کیوں کہ بجلی کی تقسیم کا نظام ایک بڑے رقبے پر نہیں پھیلا ہوگا۔
لوڈ سنٹر ایک ایسے علاقے کو کہا جاتا ہے جہاں بجلی سب سے زیادہ استعمال ہورہی ہو۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاور پلانٹ لگانے کے لیے مقام کا انتخاب کرتے ہوئے تین عوامل کو مدِنظر رکھا گیا۔ کوئلے سے بجلی پیداکرنے کے لیے پاور پلانٹ ساحل سمندرپر، کان کے دہانے پر یا پھر لوڈ سنٹر میں لگایا جاتا۔
رینیوایبل ینڈ آلٹرنیٹیو انرجی ایسوسی ایشن پاکستان کے سابق چیئرمین فیض بھٹہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا :’’ ماہرین کی آرا کو چھوڑیئے۔ دلچسپ اَمر تو یہ ہے کہ توانائی کے شعبے کے ایک اور ادارے نیپرا نے کچھ عرصہ قبل اپنی ویب سائٹ پر یہ پوسٹ کیا کہ بجلی کا بحران ممکنہ طور پر 2024ء تک ختم ہوسکتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ بجلی کی طلب میں ہر برس آٹھ فی صد اضافہ ہوتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت 2018ء تک لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے، یوںڈیڈلائن ختم ہونے میں اب صرف دو برس رہ گئے ہیںتو بہتری کے کچھ آثار ضرور نظرآنے چاہئے تھے۔شہری اور دیہی علاقوں میں اب بھی بالترتیب 12سے 18گھنٹوں تک لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قائداعظم سولر پاور پراجیکٹ کے لیے منتخب کیا گیا مقام درست نہیں ہے کیوں کہ بہاولپور کا موسم اس منصوبے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ فیض بھٹہ نے کہا:’’ درجۂ حرارت 45ڈگری سنٹی گریڈ سے بڑھ جاتا ہے جس کے باعث مطلوبہ مقدار میں بجلی پیدا نہیںہوتی جب کہ یہ پورا علاقہ انتہائی گرد آلود بھی ہے۔‘‘
پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف میاں محمود الرشید سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ کیا 2018ء تک پنجاب میں بجلی کے تمام منصوبے کام شروع کردیں گے تو انہوں نے ان منصوبوں کے حوالے سے ویژن پر تحفظات کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا:’’ پنجاب حکومت کی جانب سے شروع کیے جارہے ہر منصوبے میں خامیاں ہیں۔ قائداعظم سولر پاور پراجیکٹ کو دیکھئے ، یہ بہ مشکل 100میگاواٹ بجلی پیدا کررہاہے ۔ حکومت اب اس کی نجکاری کی کوشش کررہی ہے۔‘‘
میاں محمود الرشید نے کہا کہ اگر حکومت اضافی بجلی پیدا کربھی لیتی ہے تو اس وقت تک بجلی کی لوڈشیڈ نگ کا مسئلہ حل نہیں ہوگا جب تک حکومت ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نظام کو بہتر نہیں بناتی۔
ان کا کہنا تھا:’’بجلی کی تقسیم کا انفراسٹرکچر بہتر بنانا حکومت کی ترجیح ہونا چاہئے جو اب متروک ہوچکا ہے۔‘‘
میاں محمود الرشید نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو کاروباری کمیونٹی کو آٹھ بجے کاروباری مراکز بند کرنے کے حوالے سے مجبور کرنے کے لیے قانون سازی کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا:’’ اگر ایساکیا جاتا ہے توہم 13سو میگاواٹ تک بجلی بچا سکتے ہیں۔‘‘
ان سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ حکومت کاروباری برادری کو وقت پر مارکیٹس بند کرنے کا پابند کیوں کر نہیں بناسکی تو انہوں نے کہا کہ حکومت اپنی رٹ کھوچکی ہے اور دوسرا ایسا کرنا اس کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
میاں محمود الرشید نے کہا:’’معاشی سال 2015-16ء میں حکومتِ پنجاب نے توانائی کے شعبہ کے لیے 30ارب روپے مختص کیے تاہم صرف سات ارب روپے ہی خرچ ہوئے جب کہ باقی اورنج لائن ٹرین اور سڑکوں کے دیگر منصوبوں پر لگا دیے گئے۔‘‘