لاہور ( دردانہ نجم سے) گندگی کے باعث عجیب سی سڑانڈ اٹھتی ہے، برہجوم ہالوں میں ایئرکنڈینشنگ کے مناسب انتظامات نہیں ہے، مریضوں کے لیے بستروں کی کمی اور ڈاکٹروںو نرسوں کا منفی رویہ لاہور کے سرکاری ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈزمیں عام ہے جو کوئی بھی شخص دیکھ سکتا ہے۔
نیوز لینز پاکستان نے متعدد ہسپتالوں کے آئوٹ ڈور اور ایمرجنسی وارڈز کے حوالے سے ایک سروے کیا۔
جنرل ہسپتال کا شعبۂ آئوٹ ڈور مریضاں مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتا ہے۔ ہسپتال بھر میں صرف 95مردڈاکٹرز کام کررہے ہیں جب کہ ضرورت 123ڈاکٹروں کی ہے۔ اسی طرح 54لیڈی ڈاکٹرز کام کررہی ہیں جب کہ ضرورت 70ڈاکٹروں کی ہے۔
جنرل ہسپتال لاہور کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ جنید مرزا کے مطابق جنرل ہسپتال میں ڈاکٹروں کی تعداد کم ہے جس کے باعث وہ ذمہ دارانہ انداز سے مریضوں کا معائنہ نہیں کرسکتے۔ ہر ڈاکٹر روزانہ تقریباً70مریضوں کا معائنہ کرتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ایک ڈاکٹر صرف 10مریضوں کو دیکھتا ہے۔
جنرل ہسپتال کے سپرنٹنڈنٹ افسر اجمل بخاری نے کہا کہ ڈاکٹرز دستیاب نہیں ہیں۔ انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹروں کی تقرری پسند و ناپسند کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ سب سے اہم تو یہ ہے کہ ڈاکٹروں کی بھرتی کے عمل کو پیچیدہ کردیا گیا ہے۔
اجمل بخاری نے کہا:’’ شعبۂ صحت دو حصوں پرائمری و سکینڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ اور سپیشلائزڈ میڈیکل اینڈ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں تقسیم کیا جاچکا ہے۔ اس تقسیم کی وجہ سے ڈاکٹروں کی بھرتی اور تبادلوں کا عمل انتہائی طویل ہوگیا ہے۔ بہت سے ڈاکٹرز سرکاری رکاوٹوں کے باعث ویٹنگ لسٹ میں ہیں‘ عملدرآمد پر زیادہ وقت لگتا ہے۔مزید برآں اقربا پروری کے کلچر کو ختم کرنے کی ضرورت بھی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جب کبھی بھرتی کے لیے اشتہار دیا جاتا ہے تو انتظامیہ کو وزیراعلیٰ یا سپیکر پنجاب اسمبلی کے دفتر یا پھر مقامی رکنِ قومی یا صوبائی اسمبلی کی کال آنے لگتی ہے۔ اجمل بخاری نے کہا:’’ وہ ہم پر اپنے امیدواروں کو ملازمت دینے کے لیے دبائو ڈالتے ہیں۔‘‘
کوثر مصطفی گزشتہ تین گھنٹوں سے ایکسرے روم کے باہر کھڑی ہیں۔وہ اس سے قبل بھی یہاں آچکی ہیں۔ وہ دوسری بار یہاں آئی ہیں۔ انہوں نے ایکسرے کے لیے رقم ادا کردی ہے اور ٹوکن حاصل کرلیا ہے لیکن ان کی باری نہیں آئی۔
اجمل بخاری نے کہا کہ جنرل ہسپتا ل میں ایکسرے کرنے کے لیے دو مشینیں ہیں اور اکثر اوقات دو سو سے زائد مریض قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔
کوثر مصطفی نے نم آنکھوں کے ساتھ کہا:’’ عام طور پر ’پرچی‘ (کسی حوالے سے)کے ساتھ آنے والے مریضوں کو دیگر پر ترجیح دی جاتی ہے۔ ہم سے کتوں کا سا برتائو کیا جاتا ہے کیوں کہ ہمارے پاس کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔‘‘
ہر چیز کی فیس وصول کی جاتی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مفت ادویات کی فراہمی کا تاثر اس وقت ایک مفروضہ نظرآیا جب مریضوں کی ایک بڑی تعداد نے نیوز لینز پاکستان کو بتایا کہ ہسپتال سے 100روپے سے کم کی ادویات تو آسانی کے ساتھ دستیاب ہوجاتی ہیں لیکن اگر اس سے زیادہ قیمت کی دوا تجویز کی جائے تو وہ باہر سے لانی پڑتی ہے۔
نیوزلینز پاکستان نے جب مریضوں سے استفسار کیا کہ وہ ان سیاست دانوں کو ہی کیوں منتخب کرتے ہیں جو درست انتخاب ثابت نہیں ہوئے تو مسز قذافی نامی خاتون نے کہا:’’ ہمارے ووٹوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیوں کہ بیلٹ بکس ہی تبدیل کردیے جاتے ہیں۔‘‘
روزانہ تقریباً پانچ ہزار مریض جنرل ہسپتال آتے ہیں۔ ان کے ساتھ آنے والے تیمارداروں یاخاندان کے ارکان کی تعداد بھی اتنی ہی ہوتی ہے۔
اس قدر بڑی تعداد میں آنے والے مریضوں اور ان کے تیمارداروں کے لیے پورے ہسپتال میں صرف دو بیت الخلا ہی ہیں۔
دوپہر 12بجے، جب مریضوں اور ان کے تیمارداروں کی ایک بڑی تعداد ہسپتا ل میں موجود ہوتی ہے، پہلے سے ہی گندے واش رومز سے آنے والی سڑانڈ مریضوں کی مشکلات میں مزیداضافہ کردیتی ہے۔
جنید مرزا نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قبل ازیں ہسپتال کی زیادہ تر مشینیں خراب پڑی تھیں تاہم اب صورتِ حال بہت بہتر ہوئی ہے لیکن سو فی صد بہتری کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔
نیوز لینز پاکستان نے جناح ہسپتال کا دورہ بھی کیا۔ اس ہسپتال کو چوں کہ مثالی ہسپتال قرار دیا گیا ہے جس کے باعث یہاں صورتِ حال قدرے بہتر تھی۔
ایک مریض شہزاد علی، جو بعدازاں وفات پاگئے، کے تیماردار ارشاد کھرل نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرجیکل ایمرجنسی میں صرف ایک سکشن مشین ہے۔
انہوں نے کہا:’’ نرسوں نے مجھ سے کہا کہ میں ٹیوب ڈالنا سیکھوں کیوں کہ عملے کے پاس وقت نہیں تھا۔ یہ ایک تھکا دینے والا کام تھا۔ اکثر اوقات عملہ کسی دوسرے مریض کے لیے مشین اتار کر لے جاتا۔‘‘
ارشاد کھرل نے کہا کہ اسی طرح میڈیکل اور سرجیکل ایمرجنسی میں صرف ایک ہی ای سی جی مشین ہے۔
انہوں نے عمومی رویے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹروں اور نرسوں کا رویہ تلخ ہوتاہے اور اگر ان سے ایک ہی سوال دوسری بار کیا جائے تو وہ تیمارداروں کی بے عزتی کردیتے ہیں۔
نیوز لینز پاکستان نے جنرل ہسپتال میں بھی اسی نوعیت کے حالات دیکھے جہاں نچلہ عملہ خواتین سے بدتمیزی کرتا ہے اور جب مریض اپنی باری آنے پر ڈاکٹروں سے ملاقات کے لیے اصرار کرتے ہیں تو ان کے ساتھ تندوتیز لہجہ اختیار کیا جاتا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر برائے صحت خواجہ سلمان رفیق نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہر ہسپتال میں شعبۂ امراضِ قلب شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے تاکہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر بوجھ کم ہوسکے۔
خواجہ سلمان رفیق نے ادویات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ چار سو سے زائد کمپنیاں سرکاری ہسپتالوں کو ادویات فراہم کررہی ہیں۔انہوں نے کہا:’’ ہم نے ادویات کو مانیٹر کرنے اور ان کے آڈٹ کے لیے ایک پورا میکانزم متعارف کروایا ہے تاکہ ادویات کے معیار اور ان کی دستیابی کو بہتر بنایا جاسکے۔‘‘
تاہم خواجہ سلمان رفیق نے تسلیم کیا کہ فنڈز کا ایک بڑا حصہ غیر ضروری سرگرمیوں میں ضایع ہوجاتاہے اور سرکاری ہسپتالوں میں کرپشن کے ناسور کو اب تک ختم نہیں کیا جاسکا۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ڈاکٹروں اور عملے کا رویہ پیشہ ورانہ نہیں ہے۔
شعبۂ صحت کے لیے مختص کیے گئے بجٹ کے بارے میں استفسار کیا گیا تو خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ صحت کے بجٹ میں 62فی صد اضافہ حکومتِ پنجاب کی ایک اہم کامیابی ہے۔
مالی سال 2016-17ء میں شعبۂ صحت کے لیے 43.8ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔