پشاور (اسد خان سے) اگرچہ یہ گرافٹی فنکاروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے حوالے سے معروف ہوئے ہیں جو اپنی ذات اور اپنے فنکارانہ اظہار کے درمیان کسی بھی چیز کو حائل نہیں ہونے دیتے، کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے لیے استعمال ہونے والے کنٹینر آرٹ کے اظہار کے لیے مناسب کینوس نہیں ہیں۔
اور نہ ہی یہ کسی ایسے مقام کے طور پر معروف ہیں جہاں نوجوان سیلفی اتار کر اس کو محفوظ کریں یا فیس بک پر پوسٹ کریں لیکن تھوڑے سے ثقافتی ردو بدل کے ساتھ خیبر پختونخوا کی حکومت نے انہیں بالکل اسی رنگ میں پیش کیا ہے۔
 خیبرپختونخوا کی حکومت نے جب رواں موسمِ بہار میں صاف و سرسبز پشاور منصوبے کا آغاز کیا تو کوڑا کرکٹ کو جمع کرنے اور ٹھکانے لگانے کے لیے نئے کنٹینر اور کوڑا دان متعارف کروائے گئے ‘ اس کے ساتھ ہی پشاور کے نوجوان فنکاروں کو دعوت دی گئی کہ وہ ان کوڑا دانوں پرروایتی طرز کی مصوری کریں جو شاندارا ٹرک آرٹ یا بلاک پرنٹ سے آراستہ اجرک سے مشابہہ ہو۔
واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز پشاور ( ڈبلیو ایس ایس پی)، اس فرم کو پشاور کی صفائی کی ذمہ داری دی گئی ہے، کے جنرل منیجر ناصر غفور کہتے ہیں:’’ لوگ اپنے علاقوں میں کوڑا دان نہیں دیکھناچاہتے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے خارج ہونے والی بدبو انتہائی ناگوار ہوتی ہے۔‘‘
 چھ ماہ قبل اس منصوبے کا تصور پیش کیا گیا جب ناصر غفور اور ان کی ٹیم نے جوش و جذبے سے بدنما کوڑا دانوں کو سپشلائزڈ سالڈ ویسٹ کولیکشن فلیٹ کے منصوبے کے تحت کینوسوں میں تبدیل کرتے ہوئے ان کو دلکش رنگوں سے آراستہ کیا اور پشاور کے اہم مقامات پر 151مزین کوڑا دان رکھے گئے۔
پشاور کی گرینڈ ٹرنک روڈ، رنگ روڈاور حیات آباد میں موسمِ بہارکے رنگ نظر نہیں آئے ، اس کمی کوٹرک آرٹ، پشتون روایت، جنگلی حیات ، عوامی پیغامات، پھولوں اور درختوں کی رنگ برنگ تصاویر سے پورا کیا گیا۔
لیکن یہ کوڑا دان مصوری کے کینوس کے طور پر شہر کی خوبصورتی میں اضافے سے بڑھ کربھی مقاصد حاصل کررہے ہیں۔ ڈبلیو ایس ایس پی کے مطابق ان کا مقصدکوڑا دانوں کے استعمال کے حوالے سے آگاہی پید کرنا ہے کیوں کہ دوسری صورت میں یہ گلیوں میںبکھرا رہتا ہے۔40لاکھ کی آبادی کے شہر میں روانہ کئی ٹن کوڑا پیدا ہوتا ہے جسے ماہرین ’’ سیاہ سونے‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن یہ یہ تمام کوڑا ری سائیکل نہیں کیا جارہا۔
ڈبلیو ایس ایس پی کی جانب سے فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پشاور شہر کا رقبہ 1,257مربع کلومیٹر ہے اور یہ پاکستان کا نواں بڑا شہر ہے جس کی 45یونین کونسلوں میں روانہ 810ٹن کوڑا کرکٹ پیدا ہوتا ہے۔
ناصرغفور نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ شہرسے روزانہ 810ٹن کوڑا کرکٹ میں سے 70سے 75فی صدکوڑا ہی ٹھکانے لگایا جاتا ہے جب کہ باقی شہر میں یوںہی پڑا رہتا ہے۔‘‘
اس کا مطلب تقریباً 607ٹن ہے جو 810ٹن کا 75فی صد بنتا ہے اور یہ ری سائیکلنگ کے لیے جمع کیا جاتا ہے جب کہ تقریباً 200ٹن کوڑا شہر میں رہتا ہے اور روزانہ کی بنیاد میں اس ڈھیر میں اضافہ ہورہا ہے۔
ناصرغفور کہتے ہیں:’’ لوگ کوڑا دانوں کو ناپسند کرتے ہیں لیکن اب ہر عمر کے افراد ان کے ساتھ سیلفی اتارتے ہیں۔ لوگ ان کوڑا دانوں کے استعمال کے بارے میں آگاہ نہیں ہیں۔ ہم نے لوگوں کو کوڑا دانوں میں کوڑا ٹھکانے لگانے کے فوائد سے آگاہ کرنے کے لیے آگاہی مہم شروع کرنے کا منصوبہ بھی ترتیب دے رکھا ہے۔‘‘
خیبر پختونخوا حکومت نے اس منصوبے کے لیے 20کروڑ روپے مختص کیے ہیں جو اپنے اولین مرحلے میں ہے اورخیبرمیڈیکل کالج کے دو طالب علموں عمر خان اور دانیال خان نے 16ڈمپر ٹرک، 151کنٹینر، 50منی ڈمپر، چار کنٹینر اور پانی کے چھڑکائو کے لیے ایک ٹرک کو رنگوں سے مزین کیا ہے۔ ان طالب علموں نے آرٹ پراجیکٹ کو مکمل کرنے کے لیے ڈبلیو ایس ایس پی سے معاشی معاونت حاصل کی ہے۔
 ڈبلیو ایس ایس پی کے ترجمان تیمور خان کہتے ہیں:’’ ہم نے منصوبے کے پہلے مرحلے میں کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے لیے مختلف مقامات پر 151کنٹینر نصب کیے ہیں۔ اس منصوبے کے دوسرے مرحلے میں کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے لیے 50منی ڈمپر، تین رولر اور پانی کے چھڑکائو کے لیے ایک ٹرک شامل کیا جائے گا۔‘‘
کوڑا کرکٹ کو جمع کرنے کے لیے کنٹینر کا نیا فلیٹ متعارف کروانے کی افتتاحی تقریب میں خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے کہا کہ صفائی ایمان کا ایک انتہائی اہم جزو ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صفائی ستھرائی پر سرمایہ کاری کرنا صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کے متراف ہے کیوں کہ اس سے بیماریوں اور آلودگی پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔
پشاور کے ایک باسی نوید علی نے خیبر پختونخوا حکومت کے صاف اور سرسبز پشاور کے منصوبے کی تعریف کی۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پرکشش کوڑا دان ہوں گے تو لوگ ان کو استعمال بھی کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قبل ازیں کوڑا کرکٹ کے کنٹینر کئی روز تک کوڑے سے بھرے رہتے تھے ، حکام کی جانب سے ان کو ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست نہیں تھا اور ناگوار بدبو کے باعث کوئی ان کے قریب نہیں جاسکتا تھا۔
نوید علی کا مزید کہنا تھا:’’ لوگ اب ان کوڑا دانوںکو کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے لیے نہ صرف ستعمال کریں گے بلکہ شہر کی خوبصورتی بھی بڑھے گی۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here