لاہور (دردانہ نجم سے) زمان محسود کے لیے تین نومبر ایک معمول کا دن تھا جو اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ وہ تحریکِ طالبان پاکستان کے نشانے پر ہیں۔ زمان گھر سے اپنے علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرایک خبر پر کام کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔وہ جب اپنے علاقے کی فوجی چیک پوسٹ سے کچھ آگے بڑھے اور ڈبرا مہاجر کیمپ ٹانک کے علاقے میں داخل ہوئے تو نامعلوم مسلح افراد نے ان پر فائرنگ کردی، ان کے جسم میں پانچ گولیاں پیوست ہوئیں۔ یہ تمام تفصیلات زمان محسود کے بھائی اسلم محسود نے بتائیں۔
زمان نے ایک روز قبل ہی دو نومبر کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ صحافیوں کے خلاف بغیر مواخذے کے جرائم کرنے والوں کے خلاف عالمی دن منایا تھا۔وہ اس وقت تک آگاہ نہیں تھے کہ وہ بھی ایک ایسے ملک میں موضوعِ گفتگو بن جائیں گے جہاں ریاست یا میڈیا کے اداروں کی جانب سے صحافیوں کا شاذ و نادر ہی تحفظ کیا جاتا ہے۔ ان کے قتل کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان (سیف اللہ گروپ) نے قبول کی۔
زمان محسود ٹرائبل یونین آف جرنلسٹس جنوبی وزیرستان شاخ کے صدر اور جنرل سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے اور ان دنوں اُردو کے اخبار روزنامہ اُمت اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے لیے کام کر رہے تھے۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے 2015ء میں مواخذے کے عالمی انڈیکس کے مطابق پاکستان ان ممالک کی فہرست میں نویں نمبر پر ہے جہاں پر صحافیوں کے قاتلوں کو نہ توگرفتار کیا گیا اور نہ ہی ان کو کسی بھی قسم کی کوئی سزائیں دی گئیں۔
ماہرین اس مؤقف کا اعادہ کرتے ہیں کہ ملزموں کو سزائیں نہ دیے جانے کے باعث صحافیوں کے خلاف تشدد میں نہ صرف اضافہ ہوتا ہے بلکہ آزادیٔ اظہار کے دشمنوں کے حوصلے بھی بلند ہوتے ہیں۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے 2014ء میں پاکستان کو صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک قرار دیا تھا۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم پاکستان پریس فائونڈیشن کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق 2001ء سے اب تک 71صحافی اور میڈیا کارکن اپنے پیشہ ورانہ امور انجام دیتے ہوئے جان کی بازی ہار چکے ہیں جن میں سے 47ہدفی قتلوں میں ہلاک ہوئے۔
ہدفی قتلوں کے چند اہم ترین واقعات میںسے ایک جنوری 2011ء میں کراچی میں 28برس کے رپورٹرولی خان بابر کا قتل بھی تھا۔ جون 2011ء میں اسلام آباد میں سلیم شہزاد مردہ حالت میں پائے گئے۔ کراچی میں اپریل 2014ء میں حامد میر پر جان لیوا حملہ ہوا۔
اسلم محسود نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے علاقے سے کچھ گواہوں کو حراست میں لیا لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا:’’ ہم پولیس کے ساتھ رابطے میں ہیںجو مجرموں کی شناخت کرنے میں اب تک ناکام رہی ہے۔‘‘ نیوز لینز پاکستان نے جب ڈسٹرکٹ پولیس افسر رسول شاہ سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے کہا کہ اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور وہ پریقین نہیں ہیں کہ مستقبل قریب میں کوئی گرفتاری عمل میں آئے گی۔ انہوں نے اس خوف کا اظہاربھی کیا کہ ممکن ہے قاتل جنوبی وزیرستان فرار ہوگئے ہوں، یہ قبائلی علاقہ ٹانک سے متصل ہے اور پاکستانی پولیس کی حدود میں نہیں آتا۔
زمان محسود کے قتل کا مقدمہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کیا گیا ہے۔ نیوز لینز پاکستان نے محکمۂ انسدادِ دہشت گردی ٹانک کے سپرنٹنڈنٹ پولیس نور محمد سے رابطہ قائم کیا جنہوں نے کہا کہ ان کے محکمے کو مقدمے سے متعلق ہدایات پر مبنی کوئی فائل موصول نہیں ہوئی جس کے باعث انہوں نے اس حوالے سے تفتیش شروع نہیں کی۔
نیوز لینز پاکستان سے پولیس کے رویے پر بات کرتے ہوئے اخبار فرنٹیئر پوسٹ کے چیف ایڈیٹر رحمت شاہ آفریدی نے کہا کہ حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں یکسرناکام ہوچکی ہے اور لوگ اب تک کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں بے رحمی سے قتل کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’ پولیس تربیت یافتہ ہے اور نہ ہی جدید ترین آلات سے مسلح ہے یا آزادانہ طور پر مقدمات کی تفتیش کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی جس کے باعث عدالتی کارروائی متاثر ہوتی ہے۔ حکومت کی جانب سے کچھ اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو حفاظت کے لیے سکیورٹی ضرورفراہم کی گئی ہے۔‘‘
رپورٹرز ودآئوٹ بارڈرزکے پاکستان میں نمائندے اقبال خٹک کا کہنا تھا کہ سزائیں نہ دیے جانے کے کلچر کے باعث جرائم پیشہ عناصرکی آسانی کے ساتھ صحافیوں کو نشانہ بنانے یا پھر قتل کرنے کے حوالے سے حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2002ء کے بعد سے اب تک تقریباً ایک سو صحافی مارے جاچکے ہیں جن میں سے صرف ڈینئل پرل اور ولی خان بابر کے قتل کے مقدمات کی عدالتی کارروائی ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ شورش زدہ علاقوں جیسا کہ خیبرپختونخوا، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے والے صحافی خودساختہ طور پر سنسرشپ کی جانب راغب ہورہے ہیں۔
اقبال خٹک کا کہنا تھا:’’ صحافی اپنی جانوں کو لاحق خطرات کے باعث خبروں کو پوشیدہ رکھ رہے ہیں۔ خودساختہ سنسر شپ کی روایت آزادیٔ اظہار کی نفی کرتی ہے جس کی نمو ایک جمہوری معاشرے نے کرنی ہوتی ہے۔ جب ایک صحافی غیر ریاستی یا ریاستی عناصر کے خوف کے باعث خبریں نہیں دے سکتا تو اس صورت میں خبروں کے ذریعے میڈیا کے سماجی واچ ڈاگ کے کردارادا کرنے پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔‘‘
سابق صدر لداح پریس کلب فاروق محسود نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قومی ایکشن پلان کے نفاذ کے بعد الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر کالعدم تنظیموں کی کوریج کرنے پر پابندی عاید کی جاچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات اب مزید بڑھ گئے ہیں کیوں کہ کالعدم تنظیموں کے خیال میں عوام کو فوجی آپریشن کے دوران ان کی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ کرنے کے ان کے حق کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر مظہر عباس نے اس پابندی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب کبھی کالعدم تنظیموں کی کوریج پر پابندی عاید کی جاتی ہے تو صحافیوں کی زندگیاں دائو پر لگ جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب بلوچستان ہائی کورٹ نے میڈیا کے اداروں پر کالعدم تنظیموں کی خبریں نشر یا شایع کرنے پر پابندی عاید کی تو کسی بھی ادارے نے اس فیصلے پر بہ مشکل ہی عمل درآمد کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ صحافیوں کی بڑی تعداد کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے استدلال پیش کیا کہ ان کے لیے جیل میں کڑا وقت گزارنا موت سے بہتر ہے۔ مظہر عباس نے زوردیا کہ ایسی کوئی بھی پابندی عاید کرنے سے قبل حکومت اور میڈیا کے اداروں کے مالکان کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ صحافیوں کو تحفظ فراہم کرتی۔
انہوں نے ملک کے عدالتی نظام کی عدم استعداد پر بات کرتے ہوئے تاسف کا اظہار کیا اور میڈیا کے مالکان پر تنقید کرتے ہوئے ان کو موقع پرست قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کی تنخواہیں ان کی زندگی اور پیشے کو درپیش خطرات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
مظہر عباس کا مزید کہنا تھا:’’ شورش زدہ علاقوں جیسا کہ فاٹا، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کام کرنے والے صحافی بیک وقت تین سے چار اداروں سے منسلک ہوتے ہیں جس سے ایک جانب تو ان کے کام کا معیار متاثر ہوتا ہے اور دوسری جانب خطرات بڑھ جاتے ہیں۔‘‘
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے بورڈ کی رُکن کیٹی مارٹن وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ صحافیوں پر روا رکھے جانے والے تشدد کے حوالے سے قریبی رابطے میں رہی ہیں۔ ان کی جانب سے قطر کی ایک نیوز ایجنسی کو دیے جانے والے انٹرویو کے مطابق ان کی تنظیم نے خطوط، بلاگس اور دیگر ذرائع کے ذریعے نواز حکومت پر ’’مناسب دبائو‘‘ برقرار رکھا ہواہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ صحافیوں کے قاتلوں کو کٹہرے میں لانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے نیوز لینز سے ان اقدامات کے بارے میں بات کی جو ان کی حکومت نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے کیے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’ ہم نہ صرف خصوصی پراسیکیوٹرز کی تقرری عمل میں لائے ہیں بلکہ ایک ہاٹ لائن قائم کرنے کے علاوہ گواہوں کے تحفظ کے لیے ایک خصوصی نظام بھی تشکیل دیا ہے تاکہ ولی بابر کے مقدمے میں جو کچھ ہوا، وہ نہ ہو جس کے تمام 11گواہ مارے جاچکے ہیں۔‘‘
تاہم جب نیوز لینز پاکستان نے وفاقی وزیرِ اطلاعات پرویز رشید سے حامد میر کمیشن رپورٹ سے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے گیند ججوں کے کورٹ میں پھینک دیا۔
معروف صحافی حامد میر، جوخود پرہونے والے جان لیوا حملے میں بچ گئے تھے،نے زمان محسود کے قتل پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد یہ صوبائی حکومت( اس معاملے میں خیبرپختونخوا حکومت) کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خطے میں پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے والے صحافیوں کو تحفظ فراہم کرے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اسلام آباد صحافیوں اور میڈیا کے اداروں کے لیے مکمل طور پر محفوظ ہے۔
خیبرپختونخوا کے سیکرٹری اطلاعات عابد مجید نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے معاشی مشکلات کا شکار صحافیوں کی مالی مدد کے لیے ’’جرنلسٹ انڈوومنٹ فنڈ خیبرپختونخوا‘‘ قائم کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ ہم پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے والے صحافیوں کی ہلاکت پر ان کے خاندان کو 10لاکھ روپے زرِتلافی ادا کرتے ہیں۔ جہاں تک زمان محسود کے قتل کے معاملے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے ان کے متعلقہ پریس کلب کی جانب سے اب تک کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ۔ ہم نے ایک ضابطۂ عمل تشکیل دے رکھا ہے کہ ہلاک ہونے والے صحافی کے خاندان کو امدادکی ادائیگی کی درخواست متعلقہ پریس کلب ارسال کرے۔‘‘
اخبار میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق نصیراعظم محسود اور فاروق محسود بالترتیب ڈی آئی خان اور جنوبی وزیرستان سے طالبان کی جانب سے موصول ہونے والی دھمکیوں کے باعث اپنے علاقوں کو چھوڑ کر اسلام آباد منتقل ہوچکے ہیں۔ عسکریت پسندوں نے شاہ زمان کو اغوا کرلیا ہے جو لداح پریس کلب کے صدر بھی ہیں۔ نصیر اعظم اور فاروق محسود 2014-15ء میں نیوز لینز پاکستان کے لیے کام کرچکے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here